Tuesday, September 15, 2015

(Armaghan-e-Hijaz - 10) - Faraghat De Usse Kaar-e-Jahan Se (فراغت دے اس کار جہاں سے) Set him free of this world’s affairs

فراغت دے اسے کارِ جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش
گناہِ تازہ تر لائے کہاں سے

مطلب: اس رباعی میں اقبالؒ نے بظاہر خدا سے شیطان کی سفارش کی ہے کہ مولا کریم اگر تیری مرضی ہو تو اب اس بیچارے شیطان پر رحم کر اور اسے اہل جہاں کو ورغلانے کے کام سے فارغ کر دے۔ میں دیکھا کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرے تو اپنی اصلی یا حقیقت سے دور ہو جائے۔ اس کا فرض ہے کہ لمحہ بنی آدم کے قلوب میں وسا وس پیدا کرتا رہے یعنی ہر وقت اپنی شیطانیت کا ثبوت دیتا رہے۔
اے خدا یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان بوڑھا ہو چکا ہے (اقل تخمینہ کے مطابق اس کی عمر سات ہزار سال سے کم نہیں ہے) اس لئے اس کے تصورات و تخیلات بھی فرسودہ ہو چکے ہیں کہ ان میں کوئی حدت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب وہ ہم سے نئے گناہوں کا ارتکاب نہیں کرا سکتا تو اسے خدا ہم لوگ اب لوٹ کر پھر وہی پرانے گناہ کر رہے ہیں چونکہ اب وہ نئے گناہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے مناسب ہے کہ تو اسے اس ڈیوٹی (کارِ جہان) سے فارغ کر دے۔ یعنی اب خیر و شر کا تنازع ختم کر دے۔ جب ہم کوئی نیا گناہ نہیں کر رہے ہیں۔ (کیونکہ ان کا سارا اسٹاک ختم ہو چکا ہے) تو اب انہی پرانے گناہوں کی تکرار سے کیا حاصل؟
تبصرہ:
واضح ہو کہ اقبالؒ فلسفی ہونے کے علاوہ شاعر بھی ہیں۔ بلکہ شاعر پہلے فلسفی بعد میں ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی وہ محض شاعر کی حیثیت سے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔ یعنی شاعر وہ ہے جو انسانی فطرت کی عکاسی کرے اور جو کیفیت یا جذبہ اس کے دل پر طاری ہو اسے بے کم و کاست بیان کر دے۔ یہی خالص شاعر اور فلسفی یا پیغام گو شاعر یا مصلح شاعر میں بنیادی اور اصولی فرق ہوتا ہے۔ فلسفی شاعر اپنے جذبات کو بے کم و کاست بیان کر دیتا ہے وہ اسی وقت یہ ہرگز نہیں سوچتا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ میرے فلسفہ یا عقیدہ یا پیغام یا سوسائٹی کے قوانین کے خلاف تو نہیں ہے اس وقت تو اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جو محسوس کرتا ہے وہ بلا خوف لومۃِ لائم، واشگاف بیان کردیتا ہے۔
اقبالؒ ایک فلسفی اور پیغام گو سہی لیکن بہر حال وہ شاعر ہیں اس لئے ان کے یہاں اس قسم کے اشعار بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن میں انہوں نے وارداتِ قلبی کی ہو بہو تصویر کھینچ دی ہے:
مثلا جب انسان پر چاروں طرف سے مصائب کا نزول ہوتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ:
یہ زندگی ہے سراپا رحیل بے مقصود
حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ زندگی اگر واقعی بے مقصود ہے تو پھر خدا کا وجود ثابت نہیں ہو سکتا اور جب خدا نہیں تو نہ رسول باقی رہا نہ کتاب سلامت رہی نہ دین کا ٹھکانہ رہا نہ ایمان کا۔
یہ رباعی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے یعنی اقبال نے شاعرانہ شوخی سے کام لے کر، انسان کی ایک ایسی مخفی آرزو کا اظہار کر دیا ہے جس سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے کہ کیا اچھا ہو اگر خیر و شر کا یہ تنازع کسی طرح ختم ہو جائے۔
ضمناً اقبالؒ نے اس حقیقت کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ’’یعنی دنیا میں کوئی چیز نئی نہیں ہے۔‘‘ مثلا
۱۔ وہ تمام نظریات جو کانٹ ہیگل، ڈارون، نیٹشے اور برگسان نے موجودہ زمانہ میں پیش کئے ہیں، یہ سب نظریات قدیم فلاسفہ اپنے اپنے عہد میں مختلف لفظوں میں پیش کر چکے ہیں۔
۲۔ جو مضامین جدید شعراء اپنے اپنے کلام میں پیش کر رہے ہیں، شعرائے مقتدمین ان سب کو اس سے بہت پہلے پیش کر چکے ہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہے کہ شراب تو وہی ہے صرف بوتل کا سائز اور لیبل کا رنگ بدل گیا ہے۔
۳۔ اگر اس زمانہ کی عورتیں حسن کے مقابلہ میں شرکت کرتی ہیں تو نمائشِ حسن یعنی تبرج کا جذبہ تہیوڈورا اور کلو پڑا کے عہد میں بھی اس شدت کے ساتھ کارفرمات تھا۔
بنیادی تصور یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے لیکن اس قبیل کی رباعیوں اور نظموں کے پڑھتے وقت مذکورہ بالا نکتہ کو ہمیشہ مد نظرِ رکھنا چاہیے کہ اقبالؒ کبھی کبھی شاعرانہ شوخیوں پر بھی اتر آتے ہیں اور اس وقت ان کے اشعار کا مطلب وہی ہوتا ہے جو لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ مثلا اس رباعی میں شاعر نہایت بے تکلفی کے ساتھ خدا سے کہتا ہے کہ پرانے گناہوں کی تکرار سے دل اکتا گیا ہے۔ ان کے ارتکاب میں اب کوئی لذت محسوس نہیں ہوتی اس لئے اس قصہ کو ختم کر دیجئے۔ شیطان مخلوق ہے غیر محدود قوتوں کا مالک تو نہیں ہے۔ اس لئے قدرتی بات ہے کہ اب اس میں تازہ (جدید) گناہ ایجاد کرنے کی قوت باقی نہیں رہی ہے۔ آخر کب تک باقی رہتی؟ جب دنیا میں ہر شئے کی ایک حد ہے تو شیطان کی قوت اس سے کیسے مستثنیٰ ہو سکتی ہے؟ اس لئے اب آپ اسے ڈیوٹی سے فارغ کر دیجئے۔

Tuesday, September 8, 2015

مکمل متروکہ نظمیں

’’بانگِ درا‘‘ کے متروکات

دورِ اوّل کا کلام(۱۸۹۳ء تا ۱۹۰۸ئ)
    ’’بانگِ درا‘‘ کے متروکات

  1. مکمل متروکہ نظمیں
  2. نظموں کے جزوی متروکات 
  3. مکمل متروکہ غزلیں 
  4. غزلوں کے جزوی متروکات 
  5. مکمل قطعات ؍ رباعیات

محنت

وہی لوگ پاتے ہیں عزّت زیادہ

جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ
اسی میں ہے عزّت ، خبردار رہنا

بڑا دکھ ہے دنیا میں بے کار رہنا
اسی سے ہے آباد نگری جہاں کی

یہ دنیا میں بنیاد ہے ہر مکاں کی
بڑائی بشر کو اسی سے ملی ہے

نکمّی جو گذرے وہ کیا زندگی ہے
زمانے میں عزت ،حکومت یہی ہے

بڑی سب سے دنیا میں دولت یہی ہے
حقیقت جو محنت کی  پہچانتے ہیں

اسے کیمیا سے سوا جانتے ہیں
کوئی بڑھ کے محنت سے سونا نہیں ہے

کہ اس زر کو چوری کا کھٹکا نہیں ہے
جہاں میں اگر کیمیا ہے تو یہ ہے

غریبی کے دکھ کی دوا ہے تو یہ ہے
ہری کھیتیاں جو نظر آ رہی ہیں

ہمیں شان محنت کی دکھلا رہی ہیں
نہیں کرتے دنیا میں نادان محنت

جو سمجھیں تو سونے کی ہے کان محنت
اسی سے زمانے میں دولت بڑھے گی

جو دولت بڑھے گی تو عزّت بڑھے گی
کوئی اس کو سمجھے تو اکسیر ہے یہ

بڑا بن کے رہنے کی تدبیر ہے یہ
یہ کل وہ ہے ، چلتے ہیں سب کام اسی سے

نکلتا ہے انسان کا نام اسی سے
جو محنت نہ ہوتی تجارت نہ ہوتی

کسی قوم کی شان و شوکت نہ ہوتی
سہارا ہمارا تمہارا یہی ہے

اندھیرے گھروں کا اجالا یہی ہے
بڑے کام کی چیز ہے کام کرنا

جہاں کو اسی کام سے رام کرنا
گڈریوں کو شاہنشہی اس نے دی ہے

کولمبس کو دنیا نئی اس نے دی ہے
کھڑا ہے یہ سنسار محنت کی کل پر

یہ سب کارخانہ ہے اس کل کے بل پر
بناتی ہے یہ شہر نگری ، بنوں کو

بساتی ہے اُجڑی ہوئی بستیوں کو
جو ہاتھوں سے اپنے کمایا وہ اچھا

جو ہو اپنی محنت کا پیسا وہ اچھا
مری جان ! غافل نہ محنت سے رہنا
اگر چاہتے ہو فراغت سے رہنا

۱ -     اردو کی پانچویں کتاب ص ۵

شہد کی مکھّی


اس پھول پہ بیٹھی کبھی اس پھول پہ بیٹھی
بتلائو تو کیا ڈھونڈتی ہے شہد کی مکھّی؟
کیوں آتی ہے ، کیا کام ہے گلزار میں اس کا
یہ بات جو سمجھائو تو سمجھیں تمہیں دانا
چہکارتے پھرتے ہیں جو گلشن میں پرندے
کیا شہد کی مکھّی کی ملاقات ہے ان سے؟
عاشق ہے یہ قمری کی کہ بلبل پہ ہے شیدا؟
یا کھینچ کے لاتا ہے اسے سیر کا چسکا؟
دل باغ کی کلیوں سے تو اٹکا نہیں اس کا؟
بھاتا ہے اسے ان کے چٹکنے کا تماشا؟
سبزے سے ہے کچھ کام کہ مطلب ہے صبا سے
یا پیار ہے گلشن کے پرندوں کی صدا سے؟
بھاتا ہے اسے پھول پہ بلبل کا چہکنا؟
قمری کا ویا سرو پہ بیٹھے ہوئے گانا؟

پیغام کوئی لاتی ہے بلبل کی زبانی؟
کہتی ہے ویا پھول کے کانوں میں کہانی؟
کیوں باغ میں آتی ہے یہ بتلائو تو جانیں
کیا لینے کو آتی ہے ؟ یہ سمجھائو تو جانیں
بے وجہ تو آخر کوئی آنا نہیں اس کا
ہشیار ہے مکھّی ، اسے غافل نہ سمجھنا
بے ُسود نہیں باغ میں اس شوق سے اڑنا
کچھ کھیل میں یہ وقت گنواتی نہیں اپنا
کرتی نہیں کچھ کام اگر عقل تمہاری
ہم تم کو بتاتے ہیں ، سنو بات ہماری
کہتے ہیں جسے شہد وہ اک طرح کا رس ہے
آوارہ اسی چیز کی خاطر یہ مگس ہے
رکھّا ہے خدا نے اسے پھولوں میں چھپا کر
مکھّی اسے لے جاتی ہے چھتّے میں اٹھا کر
ہر پھول سے یہ چوستی پھرتی ہے اسی کو
یہ کام بڑا ہے ، اسے بے ُسود نہ جانو
مکھّی یہ نہیں ہے ، کوئی نعمت ہے خدا کی
ملتا نہ ہمیں شہد ، یہ مکھّی جو نہ ہوتی
خود کھاتی ہے ، اوروں کو کھلاتی ہے یہ مکھّی
اس شہد کو پھولوں سے اڑاتی ہے یہ مکھّی
انسان کی ، یہ چیز غذا بھی ہے دوا بھی
قوّت ہے اگر اس میں تو ہے اس میں شفا بھی
رکھتے ہو اگر ہوش تو اس بات کو سمجھو
تم شہد کی مکھّی کی طرح علم کو ڈھونڈو
یہ علم بھی اک شہد ہے اور شہد بھی ایسا
دنیا میں نہیں شہد کوئی اس سے مصفّا
ہر شہد سے جو شہد ہے میٹھا ، وہ یہی ہے
کرتا ہے جو انساں کو توانا ، وہ یہی ہے
یہ عقل کے آئینے کو دیتا ہے صفائی
یہ شہد ہے انساں کی ، وہ مکھّی کی کمائی
سچ سمجھو تو انسان کی عظمت ہے اسی سے
اس خاک کے پتلے کو سنوارا ہے اسی نے
پھولوں کی طرح اپنی کتابوں کو سمجھنا
چسکا ہو اگر تم کو بھی کچھ علم کے رس کا
 
۱ -     بیاضِ اعجاز ص ۳۳۸

گھوڑوں کی مجلس

اک روز کسی گھوڑے کے دل میں یہ سمائی
انسان مری قوم سے کرتا ہے برائی
رکھّا ہے مرے بھائیوں کو اس نے جکڑ کر
تدبیر ہو ایسی کہ ملے ان کو رہائی
میں قوم کی ذلّت نہ کبھی دیکھ سکوں گا
اک آگ سی ہے اس نے مرے جی کو لگائی
یہ ٹھان کے جنگل کے رفیقوں کو بلایا
سب آئے کہ اس بات میں تھی سب کی بھلائی
حاضر ہوئے بوڑھے بھی ، بچھیرے بھی ، جواں بھی
دیتے ہوئے انسان کی سختی کی دہائی
پہلے تو ہری گھاس سے کی ان کی تواضع
مہمانوں کو پھر بات جو تھی دل کی بتائی
اک گھوڑے کو کرسی پہ صدارت کی بٹھا کر
سب نے یہ کہا ، آپ کریں راہ نمائی
ہونے لگا گھوڑوں کا بڑی دھوم سے جلسہ
دینے لگی اس قوم کی اک شان دکھائی
کچھ دیر تو ہوتی رہیں آپس میں صلاحیں
ہر ایک نے تدبیر رہائی کی بتائی
مجلس سے اٹھا آخرِ کار ایک بچھیرا
اور اٹھ کے متانت سے زباں اپنی ہلائی
تقریر پہ سو جان سے صدقے تھی فصاحت
تھی گھوڑے کی باتوں میں قیامت کی صفائی
بولا کہ مرِی قوم میں غیرت نہیں باقی
کس طرح ہو پھر غیر کے ہاتھوں سے رہائی
جینا جو ہمارا ہے وہ ذلّت کا ہے جینا
ہم نے تو بزرگوں کی بھی عزّت ہے گنوائی
ہم گاڑیاں انسان کی کھینچیں ، یہ غضب ہے
محنت کریں ہم اور یہ کھا جائے کمائی
سردی سے رہیں ہم تو طویلوں میں ٹھٹھرتے
لیٹے یہ حویلی میں لیے گرم رضائی
گُھڑ دوڑ میں ہم اپنا بہاتے ہیں پسینہ
جو اس کی بھلائی ہے ، وہ ہے اپنی برائی
کیا کہیے مصیبت ہمیں پڑ جاتی ہے کیسی
ہو جائے جو ظالم کے قبیلوں میں لڑائی
لوہے کی لگامیں ہیں تو چمڑے کے ہیں چابک
افسوس کہ غیرت نہ مِری قوم کو آئی
روئے کوئی اس قوم کے دکھڑے کو کہاں تک
ہم سمجھے ہیں اے وائے غلامی میں بڑائی
اے قوم ! یہ اچھا نہیں ہر روز کا جلنا
زیبا ہے ہمیں قید سے انساں کی نکلنا




تقریر ہوئی ختم تو بیٹھا وہ بچھیرا
ہر گھوڑے نے مجلس میں دلیلوں کو سراہا
ہر بات بچھیرے کی سراہی گئی لیکن
کچھ کہنے پہ آمادہ تھا اک اور بھی گھوڑا
لاغر تھا بہت گرچہ بڑھاپے کے سبب سے
اٹّھا کہ اسے قوم کو تھا راہ پہ لانا
بولا کہ مِرے دوست کی باتیں ہیں بہت خوب
پر جوشِ جوانی نے کیا ہے اسے اندھا
مانا کہ اسے قوم کی ذلّت نہیں بھاتی
بچّہ ہے ، ابھی اس نے زمانہ نہیں دیکھا
ہے زور دیا آپ نے انساں کے ستم پر
تقریر کو ہے خوب مثالوں سے سجایا
سختی سے ہمیں پیش وہ آتا ہے یہ مانا
سختی میں جو راحت ہو تو سختی ہے گوارا
انسان کے احسان کو سمجھا نہیں تم نے
دیتا ہے طویلوں میں تمھیں وقت پہ دانا
رہنے کو طویلوں میں سمجھتے ہو برا تم
جنگل کی رہایش میں ہے سو طرح کا کھٹکا
دن رات وہاں گھات میں رہتے ہیں درندے
پینے کا جو پانی ہے وہ اکثر نہیں ملتا
ہے قید میں انسان کی راحت ہی سراسر
ہر حال میں ہے اس کی غلامی ہمیں زیبا
دن آتے ہیں ایسے بھی کہ بارش کی کمی سے
ہو گھاس نہ پیدا تو یہ رکھتا ہے ذخیرا
یہ آپ پہنتا ہے جو کمخواب کے کپڑے
زربفت کے جھولوں سے ہے تم کو بھی سجایا
بیمار جو ہو جائو تو کرتا ہے دوا بھی
کرتا ہے ہمارے لیے نقصاں بھی گوارا
گُھڑ دوڑ کے گھوڑوں کی جو ہوتی ہے تواضع
آرام وہ حیواں کو میسر نہیں ہوتا
آرام ہیں لاکھوں ہمیں انسان کے دم سے
میرا تو شکایت پہ کبھی لب نہ کھلے گا
میں نے تو بتا دی ہے تمہیں سب کے بھلے کی
مانے جو نہ کوئی تو مجھے کچھ نہیں پروا
ان باتوں سے حیران سے کچھ رہ گئے گھوڑے
تقریر وہ کی اس نے کہ جادو تھی سراپا
سب مان گئے دور شکایت ہوئی سب کی
تھی بوڑھے کی تقریر میں تاثیر غضب کی۱
۱ -     اردو کی پانچویں کتاب ص ۹۵

بچوں کے لیے چند نصیحتیں

کاٹ لینا ہر کٹھن منزل کا کچھ مشکل نہیں
اک ذرا انسان میں چلنے کی ہمّت چاہیے
مل نہیں سکتی نکمّوں کو زمانے میں مراد
کامیابی کی جو ہو خواہش تو محنت چاہیے
خاک محنت ہو سکے گی جب نہ ہو ہاتھوں میں زور
تندرستی کے لیے ورزش کی عادت چاہیے
خوش مزاجی سا زمانے میں کوئی جادو نہیں
ہر کوئی تحسیں کہے ، ایسی طبیعت چاہیے
ہنس کے ملنا رام کر لیتا ہے ہر انسان کو
سب سے میٹھا بولنے کی تم کو عادت چاہیے
ایک ہی اللہ کے بندے ہیں سب چھوٹے بڑے
اپنے ہم جنسوں سے دنیا میں محبت چاہیے
ہے برائی سی برائی ! کام کل پر چھوڑنا
آج سب کچھ کر کے اٹّھو گر فراغت چاہیے
جو بروں کے پاس بیٹھے گا ، برا ہو جائے گا
نیک ہونے کے لیے نیکوں کی صحبت چاہیے
ساتھ والے دیکھنا تم سے نہ بڑھ جائیں کہیں
جوش ایسا چاہیے ، ایسی حمیّت چاہیے
حکمراں ہو ، کوئی ہو اپنا ہو یا بیگانہ ہو
دی خدا نے جس کو عزّت اس کی عزّت چاہیے
دیکھ کر چلنا ، کچل جائے نہ چیونٹی راہ میں
آدمی کو بے زبانوں سے بھی الفت چاہیے
ہے اسی میں بھید عزّت کا اگر سمجھے کوئی
چھوٹے بچوّں کو بزرگوں کی اطاعت چاہیے
علم کہتے ہیں جسے ، سب سے بڑی دولت ہے یہ
ڈھونڈ لو اس کو اگر دنیا میں عزّت چاہیے
سب برا کہتے ہیں لڑنے کو ، بری عادت ہے یہ
ساتھ کے لڑکے جو ہوں ، ان سے رفاقت چاہیے
ہوں جماعت میں شرارت کرنے والے بھی اگر
دور کی ان سے فقط صاحب سلامت چاہیے
دیکھنا آپس میں پھر نفرت نہ ہو جائے کہیں
اس قدر حد سے زیادہ بھی نہ ملّت چاہیے
باپ دادوں کی بڑائی پر نہ اِترانا کہیں
سب بڑائی اپنی محنت کی بدولت چاہیے
چاہتے ہو گر کہ سب چھوٹے بڑے عزّت کریں
شرم آنکھوں میں ، نگاہوں میں مروّت چاہیے
بات اونچی ذات میں بھی کوئی اترانے کی ہے؟
آدمی کو اپنے کاموں کی شرافت چاہیے
گر کتابیں ہو گئیں میلی تو کیا پڑھنے کا لطف
کام کی چیزیں ہیں جو ، ان کی حفاظت چاہیے
 
۱ -     بیاض اعجاز ص ۳۳۲

جہاں تک ہو سکے نیکی کرو!

بچوں کے لیے
کہتے ہیں ایک سال نہ بارش ہوئی کہیں
گرمی سے آفتاب کی تپنے لگی زمیں
تھا آسمان پر نہ کہیں ابر کا نشاں
پانی ملا نہ جب تو ہوئیں خشک کھیتیاں
لالے پڑے تھے جان کے ہر جاندار کو
اجڑے چمن ، ترستے ترستے بہار کو
منہ تک رہی تھی خشک زمیں آسمان کا
امّید ساتھ چھوڑ چکی تھی کسان کا
بارش کی کچھ امید نہ تھی اس غریب کو
یہ حال تھا کہ جیسے کوئی سوگوار ہو
اک دن جو اپنے کھیت میں آکر کھڑا ہوا
پودوں کا حال دیکھ کے بے تاب ہو گیا
ہر بار آسماں کی طرف دیکھتا تھا وہ
بارش کے انتظار میں گھبرا رہا تھا وہ
ناگاہ ایک ابر کا ٹکڑا نظر پڑا
لاتی تھی اپنے ساتھ اڑا کر جسے ہوا
پانی کی ایک بوند نے تاکا اِدھر اُدھر
بولی وہ اس کسان کی حالت کو دیکھ کر
ویران ہو گئی ہے جو کھیتی غریب کی
ہے آسمان پر نظر اس بدنصیب کی
دل میں یہ آرزو ہے کہ اس کا بھلا کروں
یعنی برس کے کھیت کو اس کے ہرا کروں
بوندوں نے جب سنی یہ سہیلی کی گفتگو
ہنس کر دیا جواب کہ اللّہ رے آرزو
تو اک ذرا سی بوند ہے ، اتنا بڑا یہ کھیت
تیرے ذرا سے نم سے نہ ہو گا ہرا یہ کھیت
تیری بساط کیا ہے کہ اس کو ہرا کرے
ہو خود جو ہیچ ، کیا وہ کسی کا بھلا کرے
اس بوند نے مگر یہ بگڑ کر دیا جواب
بولی وہ بات جس نے کیا سب کو لاجواب
مانا کہ ایک بوند ہوں ، دریا نہیں ہوں میں
قطرہ ذرا سا ہوں ، کوئی چھینٹا نہیں ہوں میں
مانا کہ میرا نم کوئی دریا کا نم نہیں
ہمت تو میری بحر کی ہمّت سے کم نہیں
نیکی کی راہ میں کبھی ہمّت نہ ہاریے
مقدور ہو تو عمر اسی میں گذاریے
قربان اپنی جان کروں گی کسان پر
کیا لوں گی میں ٹھہر کے یہاں آسمان پر
نیکی کے کام سے کبھی رکنا نہ چاہیے
اس میں کسی کے ساتھ کی پروا نہ چاہیے
لو میں چلی، یہ کہہ کے روانہ ہوئی وہ بوند
بوندوں کی انجمن میں یگانہ ہوئی وہ بوند
ٹپ دے سے اس کی ناک پہ وہ بوند گر پڑی
سوکھی ہوئی کسان کے دل کی کلی کھلی
دیکھا سہیلیوں نے تو حیران ہو گئیں
ہمّت کے اس کمال پہ کی سب نے آفریں
بولیں کہ چاہیے نہ سہیلی کو چھوڑنا
اچھا نہیں ہے منہ کو رفاقت سے موڑنا
ساتھی کے ساتھ سب کو برسنا ضرور ہے
گر ہم نہ ساتھ دیں تو مروّت سے دور ہے
یہ کہہ کے ایک ساتھ وہ بوندیں رواں ہوئیں
چھینٹا سا بن کے کھیت کے اوپر برس گئیں
قسمت کھلی کسان کی ، بگڑی ہوئی بنی
سوکھی ہوئی غریب کی کھیتی ہری ہوئی
پھر سامنے نظر کے بندھا آس کا سماں
تھی آس آس پاس ، گیا یاس کا سماں
اجڑا ہوا جو کھیت تھا آخر ہرا ہوا
سارا یہ ایک بوند کی ہمّت کا کام تھا
دیکھی گئی نہ اس سے مصیبت کسان کی
بے تاب ہو کے کھیت پہ اس کے برس گئی
ننھّی سی بوند اور یہ ہمّت ، خدا کی شان
یہ فیض ، یہ کرم ، یہ مروّت ، خدا کی شان !

۱ -     بیاض اعجاز ص ۳۱۰

چاند اور شاعر

شاعر
اک رات میرے دل میں جو کچھ آ گیا خیال
یوں چودھویں کے چاند سے میں نے کیا سوال
اے چاند تجھ سے رات کی عزت ہے ، لاج ہے
سورج کا راج دن کو ، ترا شب کو راج ہے
تو نے یہ آسمان کی محفل سجائی ہے
تو نے زمیں کو نور کی چادر اُڑھائی ہے
تو وہ دیا ہے جس سے زمانے میں نور ہے
ہے تو فلک پہ ، نور ترا دور دور ہے
پھیکی پڑی ہوئی ہے ستاروں کی روشنی
گویا کہ اس چمن پہ خزاں کی ہوا چلی
تیری چمک کے سامنے شرما گئے ہیں یہ
تیری ہوا بندھی ہے تو مرجھا گئے ہیں یہ
اس وقت تیرے سامنے سورج بھی مات ہے
دولھا ہے تو ، نجوم کی محفل برات ہے
پائی ہے چاندنی یہ کہاں سے ، بتا مجھے
یہ نور ، یہ کمال کہاں سے ملا تجھے؟
مجھ کو بھی آرزو ہے کہ ایسا کمال ہو
تیری طرح کمال مرا بے مثال ہو
روشن ہو میرے دم سے زمانہ اسی طرح
دنیا میں اپنا نام نکالوں تری طرح
حاصل کروں کمال ، بنوں چودھویں کا چاند
تو ہے فلک کا چاند ، بنوں میں زمیں کا چاند
ہر ایک کی نظر میں سمائوں اسی طرح
شہرت کے آسمان پہ چمکوں اسی طرح
چاند
میرا سوال سن کے کہا چاند نے مجھے
لے بھید اپنے نور کا کہتا ہوں میں تجھے
سورج اگر نہ ہو تو گزارا نہیں مرا
مانگا ہوا ہے نور یہ اپنا نہیں مرا
سورج کے دم سے مجھ کو یہ حاصل کمال ہے
کامل اسی کے نور سے میرا ہلال ہے
پھرتا ہوں روشنی کی تمنّا میں رات دن
رہتا ہوں میں کمال کے سودا میں رات دن
مجھ کو اڑائے پھرتی ہے خواہش کمال کی
کر پیروی جہان میں میری مثال کی
بے فائدہ نہ اپنے دنوں کو خراب کر
میری طرح تلاش کوئی آفتاب کر
کہتے ہیں جس کو علم وہ اک آفتاب ہے
یکتا ہے ، بے مثال ہے اور لاجواب ہے
ایسے کمال کی ہے تمنّا اگر تجھے
تو نور جا کے مانگ اسی آفتاب سے
ہے چاند کے کمال کو خطرہ زوال کا
رہتا ہے ہر گھڑی اسے دھڑکا زوال کا
محفوظ اس خطر سے ہنر کا کمال ہے
گھٹنے کا اس کو ڈر ہے نہ خوفِ زوال ہے
دنیا میں زندگی کا نہیں اعتبار کچھ
رہتی ہے اس چمن میں ہمیشہ بہار کچھ
انساں کو فکر چاہیے ہر دم کمال کی
’’کسبِ کمال کن کہ عزیزِ جہاں شوی‘‘

شمعِ زندگانی

اے شمع زندگانی کیوں جھلملا رہی ہے
شاید کہ بادِ صرصر تجھ کو بجھا رہی ہے
ہاں ہاں ذرا ٹھہر جا اس منزلِ فنا میں
بزمِ جہاں کی الفت مجھ کو ستا رہی ہے
مجھ زار و ناتواں پر لِلّٰہ اب کرم کر
کیوں نخلِ آرزو پر بجلی گرا رہی ہے

دل کا بخار کچھ تو مجھ کو نکالنے دے
گزری ہوئی کہانی اب تک رُلا رہی ہے
کیا نا امید ہو کر بزمِ جہاں سے جائوں
کیوں خاک میں ابھی سے مجھ کو ملا رہی ہے
دنیا کے یہ مناظر پیشِ نظر ابھی ہیں
مجھ کو مری تمنّا اب تک ستا رہی ہے
برباد ہو رہی ہے کشتِ مراد میری
مثلِ چنار اس کو ناحق جلا رہی ہے
ارمان و آرزو پر تجھ کو نہ رحم آیا
کیوں میری حسرتوں کو دل سے مٹا رہی ہے
اے شمع کیوں ابھی سے آنکھیں ہیں سب کی پر نم
کیا مرگِ ناگہانی تشریف لا رہی ہے
رو لیں گے بعد میرے جی بھر کے رونے والے
کیوں تو ابھی سے رو کر سب کو رُلا رہی ہے
تیری اگر خوشی ہو ، مرنے پہ میں ہوں راضی
شمعِ حیات گل ہو ، کیوں جھلملا رہی ہے

۱ -     باقیات ص ۲۲۸

دربارِ بہاول پور

بزمِ انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر ، زمیں
آج رفعت میں ثریّا سے بھی ہے اوپر زمیں
اوج میں بالا فلک سے ، مہر سے تنویر میں
کیا نصیبہ ہے رہی ہر معرکے میں ور زمیں
انتہائے نور سے ہر ذرّہ اختر خیز ہے
مہر و ماہ و مشتری صیغے ہیں اور مصدر زمیں
لے کے پیغامِ طرب جاتی ہے سوئے آسماں
اب نہ ٹھہرے گی کبھی اطلس کے شانوں پر زمیں
شوق بِک جانے کا ہے فیروزئہ گردوں کو بھی
مول لیتی ہے لٹانے کے لیے گوہر زمیں
بسکہ گلشن ریز ہے ہر قطرئہ ابرِ بہار
ہے شگفتہ صورتِ طبعِ سخن گستر زمیں
برگِ گل کی رگ میں ہے جنبش رگِ جاں کی طرح
ہے امیں اعجازِ عیسیٰ کی کہ افسوں گر زمیں
خاک پر کھینچیں جو نقشہ مرغِ بسم اللہ کا
قوتِ پرواز دے دے حرفِ قُم کہہ کر زمیں
صاف آتا ہے نظر صحنِ چمن میں عکسِ گل
بن گئی آپ اپنے آئینے کی روشن گر زمیں
اس قدر نظّارہ پرور ہے کہ نرگس کے عوض
خاک سے کرتی ہے پیدا چشمِ اسکندر زمیں
امتحاں ہو اس کی وسعت کا جو مقصودِ چمن
خواب میں سبزے کے آئے آسماں بن کر زمیں
چاندنی کے پھول پر ہے ماہِ کامل کا سماں
دن کو ہے اوڑھے ہوئے مہتاب کی چادر زمیں
آسماں کہتا ہے ظلمت کا جو ہو دامن میں داغ
دھوئے پانی چشمۂ خورشید سے لے کر زمیں
چومتی ہے ، دیکھنا جوشِ عقیدت کا کمال
پائے تختِ یادگارِ عّمِ پیغمبرؐ زمیں
زینت مسند ہوا عبّاسیوں کا آفتاب
ہو گئی آزادِ احسانِ شہِ خاور زمیں
یعنی نوابِ بہاول خاں ، کرے جس پر فدا
بحر موتی ، آسماں انجم ، زر و گوہر زمیں
جس کے بدخواہوں کی شمعِ آرزو کے واسطے
رکھتی ہے آغوش میں صد موجۂ صرصر زمیں
جس کی بزمِ مسند آرائی کے نظّارے کو آج
دل کے آئینے سے لائی دیدئہ جوہر زمیں
فیضِ نقشِ پا سے جس کے ہے وہ جاں بخشی کا ذوق
شمع سے لیتی ہے پروانے کی خاکستر زمیں
جس کی راہِ آستاں کو حق نے وہ رتبہ دیا
کہکشاں اس کو سمجھتا ہے فلک ، محور زمیں
آستانہ جس کا ہے اس قوم کی امّیدگاہ
تھی کبھی جس قوم کے آگے جبیں گستر زمیں
جس کے فیض پا سے ہے شفّاف مثلِ آئنہ
چشمِ اعدا میں چھپا کر خاک کا عنصر زمیں
جس کے ثانی کو نہ دیکھے مدّتوں ڈھونڈے اگر
ہاتھ میں لے کر چراغِ لالۂ احمر زمیں
وہ سراپا نور اک مطلع خطابیّہ پڑھوں
جس کے ہر مصرع کو سمجھے مطلعِ خاور زمیں
اے کہ فیضِ نقشِ پا سے تیرے گل برسر زمیں
اے کہ تیرے دم قدم سے خسروِ خاور زمیں
اے کہ تیرے آستاں سے آسماں انجم بہ جیب
اے کہ ہے تیرے کرم سے معدنِ گوہر زمیں
لے کے آئی ہے برائے خطبۂ نامِ سعید
چوبِ نخلِ طور سے ترشا ہوا منبر زمیں
تیری رفعت سے جو یہ حیرت میں ہے ڈوبا ہوا
جانتی ہے مہر کو اک مہرئہ ششدر زمیں
ہے سراپا طور عکسِ روئے روشن سے ترے
ورنہ تھی بے نور مثلِ دیدئہ عبہر زمیں
مایۂ نازش ہے تو اس خانداں کے واسطے
اب تلک رکھتی ہے جس کی داستاں ازبر زمیں
ہو ترا عہدِ مبارک صبحِ حکمت کی نمود
وہ چمک پائے کہ ہو محسودِ ہر اختر زمیں
سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں بغداد کا
ہند میں پیدا ہو پھر عبّاسیوں کی سرزمیں
محو کر دے عدل تیرا آسماں کی کج روی
کلّیات دہر کے حق میں بنے مسطر زمیں
صلح ہو ایسی ، گلے مل جائیں ناقوس و اذاں
ساتھ مسجد کے رکھے بت خانۂ آزر زمیں
نامِ شاہنشاہِ اکبر زندئہ جاوید ہے
ورنہ دامن میں لیے بیٹھی ہے سو قیصر زمیں
بادشاہوں کی عبادت ہے رعیّت پروری
ہے اسی اخلاص کے سجدے سے قائم ہر زمیں
ہے مروّت کی صدف میں گوہرِ تسخیر دل
یہ گہر وہ ہے کرے جس پر فدا کشور زمیں
حکمراں مستِ شرابِ عیش و عشرت ہو اگر
آسماں کی طرح ہوتی ہے ستم پرور زمیں
عدل ہو مالی اگر اس کا یہی فردوس ہے
ورنہ ہے مٹی کا ڈھیلا ، خاک کا پیکر زمیں
ہے گل و گلزار محنت کے عرق سے سلطنت
ہو نہ یہ پانی تو پھر سر سبز ہو کیوں کر زمیں
چاہیے پہرا دماغِ عاقبت اندیش کا
بے دری میں ہے مثالِ گنبدِ اخضر زمیں
لامکاں تک کیوں نہ جائے گی دعا اقبال کی
عرش تک پہنچی ہے جس کے شعر کی اڑ کر زمیں
خانداں تیرا رہے زیبندئہ تاج و سریر
جب تلک مثلِ قمر کھاتی رہے چکّر زمیں
مسندِ احباب رفعت سے ثریّا بوس ہو
خاک رختِ خواب ہو اعدا کا اور بستر زمیں
تیرے دشمن کو اگر شوقِ گل و گلزار ہو
باغ میں سبزے کی جا پیدا کرے نشتر زمیں
ہو اگر پنہاں تری ہیبت سے ڈر کر زیرِ خاک
مانگ کر لائے شعاعِ مہر سے خنجر زمیں
پاک ہے گردِ غرض سے آئنہ اشعار کا
جو فلک رفعت میں ہو ، لایا ہوں وہ چن کر زمیں
تھی تو پتھر ہی مگر مدحت سرا کے واسطے
ہو گئی ہے گل کی پتّی سے بھی نازک تر زمیں

شیشۂ ساعت کی ریگ

اے مُشتِ گردِ میداں ، اے ریگ سرخ صحرا
کس فتنہ خوُ نے تجھ سے دشتِ عرب چھڑایا
صر صر کے دوش پر تو اڑتی پھری ہے صدیوں
بلّور کے مکاں میں کرتی ہے اب بسیرا
ہے خار زارِ غربت تیرے لیے یہ شیشہ
قصرِ بلّور جس کو میری نظر نے سمجھا
تیرے سکوت میں ہے سو داستاں پرانی
عہدِ کہن بھی گویا دیکھا ہوا ہے تیرا
اس دن کی یاد اب تک باقی ہے تیرے دل میں
کنعاں کا قافلہ جب سوئے حجاز آیا
دیکھے ہوئے ہیں تیرے فرعون کے سپاہی
تو ہو چکی ہے شاید پامالِ قومِ موسیٰ
چومے تھے تو نے اڑ کر مریم کے پائے نازک
ٹوٹا جو ناصرہ کی تقدیر کا ستارا
شاید گواہ ہے تو اس روز کے ستم پر
یثرب کا چاند جس دم اپنے وطن سے نکلا
ہو کس طرح بھلا تو اس نقشِ پا سے غافل
جس نے ترے وطن کو جنت بنا دیا تھا
اے ریگِ سرخ تیرا ہر ذرّہ کہہ رہا ہے
میں جانتا ہوں قصّہ میدانِ کربلا کا
تو گردِ پا ہے شاید بصرہ کے زائروں کی
بانگِ درا سے تیرا ہر ذرّہ ہے شناسا
طرزِ نفس شماری شیشے سے تو نے سیکھی
جاسوس بن گئی تو اقلیمِ زندگی کی
 
۱ -     خواجہ محمد اقبال ، حضرت کے ایک مرید خاص کا نام تھا ، جن پر ان کی بڑی نظر عنایت تھی-
 
۲ -     سرود ِرفتہ ص ۸۶

برگِ گل

کیوں نہ ہوں ارماں مرے دل میں کلیم اللہ کے
طور در آغوش ہیں ذرّے تری درگاہ کے
میں تری درگاہ کی جانب جو نکلا ، لے اڑا
آسماں تارے بنا کر میری گردِ راہ کے
ہے زیارت کی تمنّا ، المدد اے سوزِ عشق
پھول لا دے مجھ کو گلزارِ خلیل اللہ کے
شانِ محبوبی ہوئی ہے پردہ دارِ شانِ عشق
ہائے کیا رتبے ہیں اس سرکارِ عالی جاہ کے
تر جو تیرے آستانے کی تمنّا میں ہوئی
اشک موتی بن گئے چشمِ تماشا خواہ کے
رنگ اس درگہ کے ہر ذرّے میں ہے توحید کا
طائرانِ بام بھی طائر ہیں بسم اللہ کے
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا اثبات نفیِ غیر میں
’’لا‘‘ کے دریا میں نہاں، موتی ہیں ’’اِلا اللہ‘‘ کے
سنگِ اسود تھا مگر سنگِ فسانِ تیغِ عشق
زخم میرے کیا ہیں ، دروازے ہیں بیت اللہ کے
عشق اس کو بھی تری درگاہ کی رفعت سے ہے
آہ! یہ انجم نہیں ، آنسو ہیں چشمِ ماہ کے
کس قدر سر سبز ہے صحرا محبّت کا مری
اشک کی نہریں ہیں اور سائے ہیں نخلِ آہ کے
تیرے ناخن نے جو کھولی میمِ احمدؐ کی گرہ
کھل گئے عُقدے جہاں میں ہر خدا آگاہ کے
میرے جیسے بے نوائوں کا بھلا مذکور کیا
قیصر و فغفور درباں ہیں تری درگاہ کے
محوِ اظہارِ تمنائے دلِ نا کام ہوں
لاج رکھ لینا کہ میں اقبال کا ہم نام ہوں۱
سہمی پھرتی ہے شفا میرے دلِ بیمار سے
اے مسیحا دم ! بچالے مجھ کو اس آزار سے
اے ضیائے چشمِ عرفاں ، اے چراغِ راہِ عشق
تنگ آیا ہوں جفائے چرخِ ناہنجار سے
سینۂ پاکِ علیؓ جن کا امانت دار تھا
اے شہِ ذی جاہ ! تو واقف ہے ان اسرار سے
ہند کا داتا ہے تو تیرا بڑا دربار ہے
کچھ ملے مجھ کو بھی اس دربارِ گوہر بار سے
اک نظر میں خسروِ ملکِ سخن خسرو ہوا
میں کہیں خالی نہ پھر جائوں تری سرکار سے
تاک میں بیٹھی ہے بجلی میرے حاصل کے لیے
بیر ہے بادِ بہاری کو مرے گلزار سے
آج کل اصغر جو تھے اکبر ہیں اور مولا غلام
ہیں مجھے شکوے ہزاروں چرخِ کج رفتار سے
کیا کروں اوروں کا شکوہ اے امیرِ ملکِ فقر!
دشمنی میں بڑھ گئے اہلِ وطن اغیار سے
کہہ رہے ہیں مجھ کو پربستہ قفس میں دیکھ کر
اڑ نہ جائے یہ کہیں پر کھول کر منقار سے
گریۂ شبنم پہ گل ہنستے ہیں کیا بے درد ہیں
وہ جو تھی بوئے محبت اڑ گئی گلزار سے
گھات میں صیّاد ، مائل آشیاں سوزی پہ برق
باغ بھی بگڑا ہوا ہے عندلیبِ زار سے
کہہ دیا تنگ آ کے اتنا بھی کہ میں مجبور تھا
خامشی ممکن نہیں خو کردئہ گفتار سے
ہاں قسم دیتا ہوں میں مد فونِ یثربؐ کی تجھے
کر دعا حق سے کہ میں چھٹ جائوں اس آزار سے
سخت ہے میری مصیبت ، سخت گھبرایا ہوں میں
بن کے فریادی تری سرکار میں آیا ہوں میں
کیمیا سے بھی فزوں ہے تیری خاکِ در مجھے
ہاں عطا کر دے مرے مقصود کا گوہر مجھے
تو ہے محبوبِ الٰہی ، کر دعا میرے لیے
یہ مصیبت ہے مثالِ فتنۂ محشر مجھے
آہ اس غم میں اگر تو نے خبر میری نہ لی
غرق کر ڈالے گی آخر کو یہ چشمِ تر مجھے
ہو اگر یوسف مرا زحمت کشِ چاہِ الم
چَین آئے مصرِ آزادی میں پھر کیونکر مجھے
آپ یہ وقفِ تپش ہم صورتِ سیماب ہے
کیا تسلّی دے بھلا میرا دلِ مضطر مجھے
کیا کہوں میں قصۂ ہمدردیِ اہلِ وطن
تیر کوئی بھیجتا ہے اور کوئی نشتر مجھے
یہ خوشی پھیلی مرے غم سے کہ شادی مرگ ہیں
زندگانی ہو گئی ہے موت سے بدتر مجھے
اس بڑی سرکار کے قابل مری فریاد ہے
چل، حضوری میں شہِ یثربؐ کی تو لے کر مجھے
میرا کیا منہ ہے کہ اس سرکار میں جائوں مگر
تیرے جیسا مل گیا تقدیر سے رہبر مجھے
واسطہ دوں گا اگر لختِ دل زہرا ؓ کا میں
غم میں کیوں کر چھوڑ دیں گے شافعِ محشرؐ مجھے
ہوں مریدِ خاندانِ خفتۂ خاکِ نجف
موجِ دریا آپ لے جائے گی ساحل پر مجھے
رونے والا ہوں شہیدِ کربلا کے غم میں میں
کیا دُرِ مقصد نہ دیں گے ساقیِ کوثر مجھے
دل میں ہے مجھ بے عمل کے داغِ عشقِ اہلِ بیت
ڈھونڈتا پھرتا ہے ظّلِ دامنِ حیدرؓ مجھے
جا ہی پہنچے گی صدا پنجاب سے دہلی تلک
کر دیا ہے گرچہ اس غم نے بہت لاغر مجھے
آہ ! تیرے سامنے آنے کے ناقابل ہوں میں
منہ چھپا کر مانگتا ہوں تجھ سے وہ سائل ہوں میں

دیگر

صبرِ ایوبِ وفا خُو جزوِ جانِ اہلِ درد
گریۂ آدم سرشتِ دودمانِ اہلِ درد
ہے سکوں نا آشنا طبعِ جہانِ اہلِ درد
جوں قمر سائر ہے قطبِ آسمانِ اہلِ درد
اوجِ یک مشتِ غبارِ آستانِ اہلِ درد
جوہرِ رفعت بلا گردانِ شانِ اہلِ درد
پھر رہے ہیں گلشنِ ہستی کے نظّاروں میں مست
نکہتِ گل ہے شرابِ ارغوانِ اہلِ درد
ابتدا    میں    شرحِ    رمز    آیۂ     لاتقربا
کس قدر مشکل تھا پہلا امتحانِ اہلِ درد

ہم نشیں رونا ہمارا کچھ نیا رونا نہیں
تھی ہم آہنگِ ندائے ’’کن‘‘ فغانِ اہلِ درد
شورشِ محشر جسے واعظ نے ہے سمجھا ہوا
ہے وہ گلبانگِ درائے کاروانِ اہلِ درد
بتکدے کی سمت کیوں جاتا ہے یا رب برہمن
کعبۂ دل ہی تو ہے ہندوستانِ اہلِ درد
گرمیِ جوشِ عقیدت سے کیا کرتی ہے طوف
کعبۂ برقِ بلا ہے آشیانِ اہلِ درد
ذبح ہونا کوچۂ الفت میں ہے ان کی نماز
ہے صدا تکبیر کی گویا اذانِ اہلِ درد
دار پر چڑھنا نہ تھا ، معراج تھا منصور کو
تھی وہ سولی در حقیقت نردبانِ اہلِ درد
موجِ خونِ سرمد و تبریزی و منصور سے
کس قدر رنگیں ہے یا رب داستانِ اہلِ درد
تو نے اے انسانِ غافل آہ ! کچھ پروا نہ کی
بے زباں طائر سمجھتے تھے زبانِ اہلِ درد
دیدئہ سوزن سے بھی رکھتے ہیں یہ پنہاں اسے
کوئی کیا دیکھے گا زخمِ بے نشانِ اہلِ درد
دیکھنے والے سمجھتے تھے دمِ عیسیٰ جسے
تھی وہ اک موجِ نسیمِ بوستانِ اہلِ درد
پھرتے رہتے ہیں میان کوچۂ ’’حبل الورید‘‘
ہے اسی آوارگی میں عزّو شانِ اہلِ درد
کہہ دیا اقبال اک مصرع نوازشؔ نے جو آج
وہ بہانہ ہو گیا بہرِ بیانِ اہلِ درد
 
۱ -     مخزن ، مئی ۱۹۰۳ء

اہلِ درد

زندگی دنیا کی مرگِ ناگہانِ اہلِ درد
موت پیغامِ حیاتِ جاودانِ اہلِ درد
بند ہو کر اور کھلتی ہے زبانِ اہل درد
بولتا ہے مثلِ نے ہر استخوانِ اہلِ درد
یہ وہ پستی ہے کہ اس پستی میں ہے رفعت نہاں
سر کے بل گرتا ہے گویا نردبانِ اہلِ درد
آپ بائع آپ ہی نقد و متاع و مشتری
ساری دنیا سے نرالی ہے دکانِ اہلِ درد
اس خموشی اور گویائی کے صدقے جائیے
محوِ شکرِ بے زبانی ہے زبانِ اہلِ درد
بیخودی میں یہ پہنچ جاتے ہیں اپنے آپ تک
عین بیداری نہ ہو خوابِ گرانِ اہلِ درد
کہہ رہی ہے ہر کلی گلزارِ ابراہیم کی
آگ سے ہوتا ہے پیدا گلستانِ اہلِ درد
پالیا موسیٰ نے آخر بندئہ اللہ کو
درد والوں ہی کو ملتا ہے نشانِ اہلِ درد
ان کی دنیا بھی یہی ، عرشِ معلّیٰ بھی یہی
دل مکانِ اہلِ درد و لامکانِ اہلِ درد
ہائے کیوں محشرپہ واعظ نے اٹھا رکھی ہے بات
ہے اسی دنیا میں ہوتا امتحانِ اہلِ درد
درد ہی کے دم سے ہے ان دل جلوں کی زندگی
درد سے پیدا ہوئی روح و روانِ اہلِ درد
لیتے ہیں داغِ محبّت سے گلِ جنّت مراد
ہائے کیا مرغوب ہے طرزِ بیانِ اہلِ درد
یہ اجڑ جانے کو آبادی سمجھتے ہیں مگر
ڈھونڈتا ہے راہزن کو کاروانِ اہلِ درد
ارتجالاً ہم نے اے اقبال کہہ ڈالے یہ شعر
تھی نوازش کو جو فکرِ امتحانِ اہلِ درد

فریادِ امّت

دل میں جو کچھ ہے ، نہ لب پر اسے لائوں کیوں کر
ہو چھپانے کی نہ جو بات چھپائوں کیوں کر
شوقِ نظّارہ یہ کہتا ہے قیامت آئے
پھر میں نالوں سے قیامت نہ اٹھائوں کیوں کر
میری ہستی نے رکھا مجھ سے تجھے پوشیدہ
پھر تری راہ میں اس کو نہ مٹائوں کیوں کر
صدمۂ ہجر میں کیا لطف ہے اللہ اللہ
یہ بھی اک ناز ہے تیرا ، نہ اٹھائوں کیوں کر
زندگی تجھ سے ہے اے نارِ محبّت میری
اشکِ غم سے ترے شعلوں کو بجھائوں کیوں کر
تجھ میں َسو نغمے ہیں اے تارِ ربابِ ہستی
زخمۂ عشق سے تجھ کو نہ بجائوں کیوں کر
ضبط کی تاب نہ یارائے خموشی مجھ کو
ہائے اس دردِ محبت کو چھپائوں کیوں کر
بات ہے راز کی پر منہ سے نکل جائے گی
یہ میٔ کہنہ خُمِ دل سے اچھل جائے گی
آسماں مجھ کو بجھا دے جو فروزاں ہوں میں
صورتِ شمع سرِ گورِ غریباں ہوں میں
ہوں وہ بیمار جو ہو فکرِ مداوا مجھ کو
درد چپکے سے یہ کہتا ہے کہ درماں ہوں میں
دیکھنا تو مری صورت پہ نہ جانا گُل چیں
دیکھنے کو صفتِ نو گُلِ خنداں ہوں میں
موت سمجھا ہوں مگر زندگیِ فانی کو
نام آ جائے جو اس کا تو گریزاں ہوں میں
دور رہتا ہوں کسی بزم سے اور جیتا ہوں
یہ بھی جینا ہے کوئی جس سے پشیماں ہوں میں
کنجِ عزلت سے مجھے عشق نے کھینچا آخر
یہ وہی چیز ہے جس چیز پہ نازاں ہوں میں
داغِ دل مہر کی صورت ہے نمایاں لیکن
ہے اسے شوق ابھی اور نمایاں ہوں میں
ضبط کی جا کے سنا اور کسی کو ناصح
اشک بڑھ بڑھ کے یہ کہتا ہے کہ طوفاں ہوں میں
ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا
کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آساں ہوں میں
رند کہتا ہے ولی مجھ کو ، ولی رند مجھے
سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب
کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں
ہوں عیاں سب پہ مگر پھر بھی ہیں اتنی باتیں
کیا غضب آئے نگاہوں سے جو پنہاں ہوں میں
دیکھ اے چشمِ عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ
جس پہ خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں
مزرعِ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا
درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا
خ
کچھ اسی کو ہے مزا دہر میں آزادی کا
جو ہوا قیدیٔ زنجیرِ پری خانۂ دل
خ
آتی ہے اپنی سمجھ اور پہ مائل ہو کر
آنکھ کھل جاتی ہے انسان کی بے دل ہو کر
لوگ سودا کو یہ کہتے ہیں ’’برا ہوتا ہے‘‘
عقل آئی مجھے پابندِ سلاسل ہو کر
آرزو کا کبھی رونا ، کبھی اپنا ماتم
اس سے پوچھے کوئی ، کیا دل نے لیا دل ہو کر
میری ہستی ہی تو تھی میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردئہ محفل ہو کر
عین ہستی ہوا ہستی کا فنا ہو جانا
حق دکھایا مجھے اس نکتے نے باطل ہو کر
خلق معقول ہے ، محسوس ہے خالق اے دل
دیکھ نادان ذرا آپ سے غافل ہو کر
طور پر تونے جو اے دیدئہ موسیٰ دیکھا
وہی کچھ قیس نے دیکھا پسِ محمل ہو کر
کیوں کہوں بے خودیِ شوق میں لذّت کیا ہے
تو نے دیکھا نہیں زاہد کبھی غافل ہو کر
رہِ الفت میں رواں ہوں ، کبھی افتادہ ہوں
موج ہو کر ، کبھی خاکِ لبِ ساحل ہو کر
دمِ خنجر میں دمِ ذبح سما جاتا ہوں
جوھرِ آئنۂ خنجرِ قاتل ہو کر
وہ مسافر ہوں ملے جب نہ پتا منزل کا
خود بھی مٹ جائوں نشانِ رہِ منزل ہو کر
ہے فروغِ دو جہاں داغِ محبّت کی ضیا
چاند یہ وہ ہے کہ گھٹتا نہیں کامل ہو کر
دیدئہ شوق کو دیدار نہ ہو ، کیا معنی
آئے محفل میں جو دیدار کے قابل ہو کر
عشق کا تیر قیامت تھا الٰہی توبہ
دل تڑپتا ہے مرا طائرِ بسمل ہو کر
میٔ عرفاں سے مرے کاسۂ دل بھر جائے
میں بھی نکلا ہوں تری راہ میں سائل ہو کر
’’المدد سیّدِ مکّی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی‘‘
لاکھ سامان ہے اک بے سرو ساماں ہونا
مجھ کو جمعیّتِ خاطر ہے پریشاں ہونا
تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
دل جو بربادِ محبت ہوا ، آباد ہوا
سازِ تعمیر تھا اس قصر کو ویراں ہونا
علم و حکمت کے مدینے کی کشش ہے مجھ کو
لطف دے جاتا ہے کیا کیا مجھے ناداں ہونا
کبھی یثرب میں اویسِ قرنیؓ سے چھپنا
کبھی برقِ نگہِ موسیِ عمراں ہونا
قاب قوسین بھی ، دعویٰ بھی عبودیّت کا
کبھی چلمن کو اٹھانا ، کبھی پنہاں ہونا
لطف دیتا ہے مجھے مٹ کے تری الفت میں
ہمہ تن شوقِ ہوائے عربستاں ہونا
یہی اسلام ہے میرا ، یہی ایماں میرا
تیرے نظّارئہ رخسار سے حیراں ہونا
خندئہ صبحِ تمنائے براہیم استی
چہرہ پرداز بحیرت کدئہ میم استی
حشر میں ابر شفاعت کا گہر بار آیا
دیکھ اے جنسِ عمل تیرا خریدار آیا
پیرہن عشق کا جب حسنِ ازل نے پہنا
بن کے یثرب میں وہ آپ اپنا خریدار آیا
میں گیا حشر میں جس دم تو صدا یوں آئی
دیکھنا دیکھنا وہ کافرِ دیندار آیا
لطف آنے کا تو جب ہے کہ کسی پر آئے
ورنہ دل اپنا بھی آنے کو تو سو بار آیا
جوش سودائے محبت میں گریباں اپنا
میں نے دیکھا تو نہ ہاتھوں میں کوئی تار آیا
عشق کی راہ میں اک سیر تھی ہر منزل پر
نجد کا دشت کہیں مصر کا بازار آیا
میں نے سو گلشنِ جنت کو کیا اس پہ نثار
دشتِ یثرب میں اگر زیرِ قدم خار آیا
لیں شفاعت نے قیامت میں بلائیں کیا کیا
عرقِ شرم میں ڈوبا جو گنہگار آیا
وہ مری شرمِ گنہ اور وہ سفارش تیری
ہائے اس پیار پہ کیا کیا نہ مجھے پیار آیا
ہے ترے عشق کا مے خانہ عجب مے خانہ
یعنی ہشیار گیا اور میں سرشار آیا
’’ما عَرفَنا‘‘ نے چھپا رکھی ہے عظمت تیری
’’قاَب قوسین‘‘ سے کھلتی ہے حقیقت تیری
لے چلا بحرِ محبت کا تلاطم مجھ کو
کشتیِ نوح ہے ہر موجۂ قلزم مجھ کو
حسن تیرا مری آنکھوں میں سمایا جب سے
تیر لگتی ہے شعاعِ مہ و انجم مجھ کو
تیرے قربان میں اے ساقیِ مے خانۂ عشق
میں نے اک جام کہا تو نے دیے خُم مجھ کو
خاک ہو کر یہ ملا اوج تری الفت میں
’’کہ فرشتوں نے لیا بہرِ تیمم مجھ کو‘‘
گرد آسا سرِ دامن سے لگا پھرتا ہوں
حشر کے روز بھلا دو نہ کہیں تم مجھ کو
کوئی دیکھے تو ترے عاشقِ شیدا کا مزاج
حور سے کہتا ہے چھیڑا نہ کرو تم مجھ کو
موت آ جائے جو یثرب کے کسی کوچے میں
میں نہ اٹھوں جو مسیحا بھی کہے ’’قم‘‘ مجھ کو
صفتِ نوکِ سرِ خار شبِ فرقت میں
چبھ رہی ہے نگہِ دیدئہ انجم مجھ کو
خوف رہتا ہے یہ ہر دم کہ رہِ یثرب سے
طور کی سمت نہ لے جائے توہّم مجھ کو
تو نے آنکھوں کے اشارے سے جو تسکیں کر دی
شورِ محشر ہوا گلبانگِ ترنّم مجھ کو
اپنا مطلب مجھے کہنا ہے مگر تیرے حضور
چھوڑ جائے نہ کہیں تابِ تکلّم مجھ کو
ہے ابھی امّتِ مرحوم کا رونا باقی
دیکھ اے بے خودیِ شوق نہ کر گم مجھ کو
ہمہ حسرت ہوں سراپا غمِ بربادی ہوں
ستمِ دہر کا مارا ہوا فریادی ہوں
اے کہ تھا نوح کو طوفاں میں سہارا تیرا
اور براہیم کو آتش میں بھروسا تیرا
اے کہ مشعل تھا ترا ظلمتِ عالم میں وجود
اور نورِ نگہِ عرش تھا سایا تیرا
اے کہ پرتو ہے ترے ہاتھ کا مہتاب کا نور
چاند بھی چاند بنا پاکے اشارا تیرا
گرچہ پوشیدہ رہا حسن ترا پردوں میں
ہے عیاں معنیِ ’’لولاک‘‘ سے پایا تیرا
ناز تھا حضرت موسیٰ کو یدِ بیضا پر
سو تجلی کا محل نقشِ کفِ پا تیرا
چشمِ ہستی صفتِ دیدئہ اعمٰے ہوتی
دیدئہ ’’کن‘‘ میں اگر نور نہ ہوتا تیرا
مجھ کو انکار نہیں آمدِ مہدی سے مگر
غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا
کیا کہوں امّتِ مرحوم کی حالت کیا ہے
جس سے برباد ہوئے ہم وہ مصیبت کیا ہے
حال امت کا برا ہو کہ بھلا کہتے ہیں
صفتِ آئنہ جو کچھ ہے صفا کہتے ہیں
واعظوں میں یہ تکبّر کہ الٰہی توبہ
اپنی ہر بات کو آوازِ خدا کہتے ہیں
ان کے ہر کام میں دنیا طلبی کا سودا
ہاں مگر وعظ میں دنیا کو برا کہتے ہیں
غیر بھی ہو تو اسے چاہیے اچھا کہنا
پر غضب ہے کہ یہ اپنوں کو برا کہتے ہیں
فرقہ بندی کی ہوا تیرے گلستاں میں چلی
یہ وہ ناداں ہیں اسے بادِ صبا کہتے ہیں
شاہدِ قوم ہوا خنجرِ پیکار سے خوں
ہائے غفلت یہ اسے رنگِ حنا کہتے ہیں
آہ جس بات سے ہو فتنۂ محشر پیدا
یہ وہ بندے ہیں اسے فتنہ ربا کہتے ہیں
جن کی دینداری میں ہے آرزوئے زر پنہاں
آ کے دھوکے میں انہیں راہ نماکہتے ہیں
لاکھ اقوام کو دنیا میں اجاڑا اس نے
یہ تعصّب کو مگر گھر کا دیا کہتے ہیں
خانہ جنگی کو سمجھتے ہیں بنائے ایماں
مرض الموت ہے جو اس کو دوا کہتے ہیں
یہ نصاریٰ کا خدا اور وہ علی شیعوں کا
ہائے کس ڈھنگ سے اچھوں کو برا کہتے ہیں
مقصدِ لَحمُکَ لَحُمِیُ پہ کھلی ان کی زباں
یہ تو اک راہ سے تجھ کو بھی برا کہتے ہیں
تیرے پیاروں کا جو یہ حال ہو اے شافعِ حشر
میرے جیسوں کو تو کیا جانیے کیا کہتے ہیں
بُغض لِلّٰہ کے پردے میں عداوت ذاتی
دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں ، کیا کہتے ہیں
جن کا یہ دیں ہو کہ اپنوں سے کریں ترکِ سلام
ایسے بندوں کو یہ بندے ’’صلحا‘‘ کہتے ہیں
قوم کے عشق میں ہو فکرِ کفن بھی نہ جسے
یہ اسے بندئہ بے دامِ ہوا کہتے ہیں
یہ دوا ، صفحۂ ہستی سے نہ مٹ جانا ہو
درد کے حد سے گزرنے کو دوا کہتے ہیں
وصل ہو لیلیِ مقصود سے کیوں کر اپنا
اخترِ سوختۂ قیس ہے اختر اپنا
امراء جو ہیں وہ سنتے نہیں اپنا کہنا
سامنے تیرے پڑا ہے مجھے کیا کیا کہنا
ہم جو خاموش تھے اب تک تو ادب مانع تھا
ورنہ آتا تھا ہمیں حرفِ تمنّا کہنا
درد مندوں کا کہیں حال چھپا رہتا ہے
اپنی خاموشی بھی تھی ایک طرح کا کہنا
شکوہِ منّت کشِ لب ہے کبھی منّت کشِ چشم
میرا کہنا جو ہے رونا تو ہے رونا ، کہنا
قوم کو قوم بنا سکتے ہیں دولت والے
یہ اگر راہ پہ آ جائیں تو پھر کیا کہنا
بادئہ عیش میں سرمست رہا کرتے ہیں
یاد فرماں نہ ترا اور نہ خدا کا کہنا
ہم نے سو بار کہا ’’قوم کی حالت ہے بری‘‘
پر سمجھتے نہیں یہ لوگ ہمارا کہنا
جو مرے دل میں ہے ، کہہ دوں تو کوئی کہہ دے گا
منہ پہ ہوتا نہیں ان لوگوں کو اچھّا کہنا
ہم کہیں کچھ تو کہے جائیں ، انہیں کیا  پروا
کوئی کہہ دے تو اثر کرتا ہے کیا کیا کہنا
ان کی محفل میں ہے کچھ بار انہی لوگوں کو
جن کو آتا ہو سرِ بزم لطیفا کہنا
دیکھتے ہیں یہ غریبوں کو تو برہم ہو کر
فقر تھا فخر ترا شاہِ دو عالم ہو کر
اس مصیبت میں ہے اک تو ہی سہارا اپنا
تنگ آ کر لبِ فریاد ہوا وا اپنا
ایسی حالت میں بھی امید نہ ٹوٹی اپنی
نام لیوا ہیں ترے ، تجھ پہ ہے دعوا اپنا
فرقہ بندی سے کیا راہ نمائوں نے خراب
ہائے ان مالیوں نے باغ اجاڑا اپنا
ہم تو مٹ جائیں گے معمورئہ ہستی سے مگر
صبر ان راہ نمائوں پہ پڑے گا اپنا
تری سرکار میں اپنوں کا گلہ کیا کیجیے
ہو ہی جاتا ہے مصیبت میں پرایا اپنا
ہم نے سو راہ اخوّت کی نکالی لیکن
نہ تو اپنا ہوا اپنا نہ پرایا اپنا
دیکھ اے نوح کی کشتی کے بچانے والے
آیا گرداب حوادث میں سفینہ اپنا
اس مصیبت میں اگر تو بھی ہماری نہ سنے
اور ہم کس سے کہیں جا کے فسانا اپنا
ہاں برس ابرِ کرم ، دیر نہیں ہے اچھی
کہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہونا اپنا
لطف یہ ہے کہ پھلے قوم کی کھیتی اس سے
ورنہ ہونے کو تو آنسو بھی ہے دریا اپنا
اب جو ہے ابر مصیبت کا دھواں دھار آیا
ڈھونڈتا پھرتا ہے تجھ کو دلِ شیدا اپنا
یوں تو پوشیدہ نہ تھی تجھ سے ہماری حالت
ہم نے گھبرا کے مگر تذکرہ چھیڑا اپنا
زندگی تجھ سے ہے اے فخرِ براہیم اپنی
کر دعا حق سے کہ مشکل ہوا جینا اپنا
ایک یہ بزم ہے لے دے کے ہماری باقی
ہے انہی لوگوں کی ہمّت پہ بھروسا اپنا
داستاں درد کی لمبی ہے ، کہیں کیا تجھ سے
ہے ضعیفوں کو سہارے کی تمنّا تجھ سے
قوم کو جس سے شفا ہو وہ دوا کون سی ہے
یہ چمن جس سے ہرا ہو وہ صبا کون سی ہے
جس کی تاثیر سے ہو عزّتِ دین و دنیا
ہائے اے شافعِ محشر وہ دعا کون سی ہے
جس کی تاثیر سے یک جان ہو امّت ساری
ہاں بتا دے ہمیں وہ طرزِ وفا کون سی ہے
جس کے ہر قطرے میں تاثیر ہو یک رنگی کی
ہاں بتا دے وہ میٔ ہوش ربا کون سی ہے
قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا
ناقہ وہ کیا ہے ، وہ آوازِ درا کون سی ہے
اپنی فریاد میں تاثیر نہیں ہے باقی
جس سے دل قوم کا پگھلے وہ صدا کون سی ہے
سب کو دولت کا بھروسا ہے زمانے میں مگر
اپنی امّید یہاں تیرے سوا کون سی ہے
اپنی کھیتی ہے اجڑ جانے کو اے ابرِ کرم
تجھ کو جو کھینچ کے لائے وہ ہوا کون سی ہے
ہے نہاں جن کی گدائی میں امیری سب کی
آج دنیا میں وہ بزمِ فقرا کون سی ہے
تیرے قرباں کہ دکھا دی ہے یہ محفل تونے
میں نے پوچھا جو اخّوت کی بِنا کون سی ہے
راہ اس محفلِ رنگیں کی دکھا دے سب کو
اور اس بزم کا دیوانہ بنا دے سب کو
 
۱ -     سرود رفتہ ، ص ۴۲ ، رودادِ انجمن

ماتم پسر

اندھیرا صمدؔ کا مکاں ہو گیا

وہ خورشیدِ روشن نہاں ہو گیا
بیاباں ہماری سرا بن گئی

مسافر وطن کو رواں ہو گیا
گیا اڑ کے وہ بلبلِ خوش نوا

چمن پائمالِ خزاں ہو گیا
نہیں باغِ کشمیر میں وہ بہار

نظر سے جو وہ گل نہاں ہو گیا
گیا کارواں ، اور میں راہ میں

غبارِ رہِ کارواں ہو گیا
گرا کٹ کے آنکھوں سے لختِ جگر

مرے صبر کا امتحاں ہو گیا
بڑھا اور اک دشمن جاںِ ستاں

دھواں آہ کا آسماں ہو گیا
ستم اس غضب کا خزاں نے کیا

بیاباں مرا بوستاں ہو گیا
ہوئی غم کی عادت کچھ ایسی مجھے

کہ غم مجھ کو آرامِ جاں ہو گیا
کسی نوجواں کی جدائی میں قد

جوانی میں مثلِ کماں ہو گیا
جدائی میں نالاں ہو بلبل نہ کیوں

وہ گل زیبِ باغِ جناں ہو گیا
وہ سرخی ہے اشکِ شفق رنگ میں

حریف میٔ ارغواں ہو گیا
بنایا تھا ڈر ڈر کے جو آشیاں

وہی نذرِ برقِ تپاں ہو گیا
کروں ضبط اے ہم نشیںکس طرح

کہ ہر اشک طوفاں نشاں ہو گیا
غضب ہے غلامِ حسن کا فراق

کہ جینا بھی مجھ کو گراں ہو گیا
دیا چن کے وہ غم فلک نے اسے
کہ مقبلؔ سراپا فغاں ہو گیا

۱ -     مخزن ، جولائی ۱۹۰۲ء

شکریۂ انگشتری

آپ نے مجھ کو جو بھیجی ارمغاں انگشتری

دے رہی ہے مہر و الفت کا نشاں انگشتری
زینتِ دستِ حنا مالیدئہ جاناں ہوئی

ہے مثالِ عاشقاں آتش بجاں انگشتری
تو سراپا آیتے از سورئہ قرآنِ فیض

وقفِ مطلق اے سراجِ مہرباں انگشتری
میرے ہاتھوں سے اسے پہنے اگر وہ دل ربا

ہو رموزِ بے دلی کی ترجماں انگشتری
ہو نہ برق افگن کہیں اے طائرِ رنگِ حنا

تاکتی رہتی ہے تیرا آشیاں انگشتری
ساغرِ مے میں پڑا انگشتِ ساقی کا جو عکس

بن گئی گردابۂ آبِ رواں انگشتری
ہوں بہ تبدیلِ قوافی فارسی میں نغمہ خواں
ہند سے جاتی ہے سوئے اصفہاں انگشتری
یا رم از کشمر فرستادست چار انگشتری

چار در صورت بمعنی صد ہزار انگشتری
چار را گر صد ہزار آوردہ ام اینک دلیل

شد قبولِ دستِ یارم ہر چہار انگشتری
داغ داغ از موجِ مینا کاریش جوشِ بہار

میدہد چوں غنچۂ گل بوئے یار انگشتری
در لہاور۱ آمد و چشمِ تماشا شد تمام

بود در کشمیر چشمِ انتظار انگشتری
یار را ساغر بکف انگشتری در دستِ یار

حلقہ اش خمیازئہ دستِ خمار انگشتری
ما اسیرِ حلقہ اش او خود اسیرِ دستِ دوست

اللہ اللہ دام و صیّاد و شکار انگشتری
خاتمِ دستِ سلیماں حلقہ در گوشِ وے است

اے عجب انگشتری را جاں نثار انگشتری
وَہ چہ بکشاید بدستِ آں نگارِ سیم تن

ماند گر زیں پیشتر سربستہ کار انگشتری
من دلِ گم گشتہ خود را کجا جویم سراغ

دُزدیٔ دُزدِ حنا را پردہ دار انگشتری
راز دارِ دزدہم دزدست در بازارِ حسن

چشمکِ دزد حنا را راز دار انگشتری
ہر دو باہم ساختند و نقدِ دلہامی برند

پختہ مغز انگشتِ جاناں ، پختہ کار انگشتری
نو بہارِ دلفریب انگشتری دردستِ یار

بوسہ بر دستش زند لیل و نہار انگشتری
بوالہوس ز انگشتری طرزِ اطاعت یادگیر

می نہد سر بر خطِ فرمانِ یار انگشتری
ماہِ نو قالب تہی کر دست از حسرت بہ چرخ

جلوہ فرماشد چو در انگشتِ یار انگشتری
ارمغانم سلکِ گوہرہاست یعنی ایں غزل

کز سراجم نور ہا آمد چہار انگشتری
گشت اے اقبال مقبولِ امیرِ مُلک حسن

کرد وا مارا گرہ آخر ز کار انگشتری

۱ -     لاہور کا دوسرا نام جن کو امیر خسروؒ  ’’قران السعدین‘‘ میں استعمال فرماتے ہیں (اقبال)
۲ -     سرودِ رفتہ ص ۶۰

اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے

بند اوّل
ہم سخن ہونے کو ہے معمار سے تعمیر آج
آئینے کو ہے سکندر سے سرِ تقریر آج
نقش نے نقّاش کو اپنا مخاطب کر لیا
شوخیٔ تحریر سے گویا ہوئی تصویر آج
سن کے کیا کہتی ہے دیکھیں بادِ عنبر بارِ صبح
لب کشا ہونے کو ہے اک غنچۂ دلگیر آج
دیکھئے گُل کس طرح کہتا ہے احوالِ خزاں
مانگ کر لایا ہے بلبل سے لبِ تقریر آج
عشق ہر صورت سے ہے آمادئہ تزئینِ حسن
ہے پرِ پروانہ سے کارِ لبِ گل گیر آج
گرمیٔ فریاد کی آتش گدازی دیکھنا
شمع کے اشکوں میں ہے لپٹی ہوئی تنویر آج
آہ میں یارب وہ کیا انداز معشوقانہ تھا
جوشِ لذّت میں فدا ہو ہو گئی تاثیر آج
عقدے کھل جانے کو ہیں مثلِ دہانِ روزہ دار
ہے ہلالِ عید اپنا ناخنِ تدبیر آج
دیکھیے اس سحر کا ہوتا ہے کس کس پر اثر
ہے دخانِ شمعِ محفل سرمۂ تسخیر آج
زینت محفل ہیں فرہادانِ شیرینِ عطا
اس محل میں ہے رواں ہونے کو جوئے شیر آج
صبر را از منزلِ دل پابجولاں کردہ ام
گیسوئے مقصود را آخر پریشاں کردہ ام


بند دوم
آج ہم حالِ دلِ درد آشنا کہنے کو ہیں
اس بھری محفل میں اپنا ماجرا کہنے کو ہیں
ہر نفس پیچیدہ ہے مانند دُورِ شمعِ طور
داستانِ دلکشِ مہر و وفا کہنے کو ہیں
دیکھیے محفل میں تڑپاتا ہے کس کس کو یہ شور
مرثیہ اپنے دلِ گم گشتہ کا کہنے کو ہیں
بوئے گل لپٹی ہوئی ہو غنچۂ منقار میں
ورنہ مرغانِ چمن ، رنگیں نوا کہنے کو ہیں
تجھ کو اے شوقِ جراحت دیں تسلّی کس طرح
آہ ! یہ تیرِ نظر بھی بے خطا کہنے کو ہیں
قصۂ مطلب طویل و دفترِ تقریر تنگ
خود بخود کوئی سمجھ جائے کہ کیا کہنے کو ہیں
محفلِ عشرت میں ہے کیا جانے کس کا انتظار
آج ہر آہٹ کو ہم آوازِ پا کہنے کو ہیں
ہے سوئے منزل رواں ہونے کو اپنا کارواں
ہم صریرِ خامہ کو بانگِ درا کہنے کو ہیں

ہے گہر باری پہ مائل تو جو اے دستِ کرم
ہم تجھے ابرِ سخا ، بحرِ عطا کہنے کو ہیں
خود بخود منہ سے نکل جانا بھی اچھا ہے مگر
دم تو لے آخر ، تجھے اے مدّعا! کہنے کو ہیں
باز اعجازِ مسیحا را ہویدا کردہ ام
پیکرے را بازبانِ خامہ گویا کردہ ام
بند سوم
ابر بن کر تم جو اس گلشن پہ گوہر بار ہو
بخت سبزے کا مثال دیدئہ بیدار ہو
میں صدف ، تم ابرِ نیساں ، میں گلستاں ، تم بہار
مزرعِ نوخیز میں ، تم ابر دریا بار ہو
میں نتیجہ اک حدیثِ امیِؐ یثرب کا ہوں
تم اسی امیؐ کی امّت کے علمبردار ہو
اک مہِ نو آسمان علم و حکمت پر ہوں میں
تم بھی اک فوجِ ہلالی کے سپہ سالار ہو
نام لیوا اک دیارِ علم و حکمت کا ہوں میں
اور تم اگلے زمانوں کے وہی انصار ہو
یاں کبھی بادِ خزاں کا رنگ جم سکتا نہیں
میں مسلمانوں کا گلشن ، تم مری دیوار ہو
تم اگر چاہو تو اس گلشن کے ایسے بھاگ ہوں
ہر کلی گل ہو کے اس کی زینتِ دستار ہو
رہنے والے انتخابِ ہفت کشور کے ہو تم
کیوں نہ اس گلشن کی نکہت روکشِ تاتار ہو
میری دیواروں کو چھو جائے جو اکسیرِ عطا
خاک بھی میری مثالِ گوہرِ شہوار ہو
دیکھ اے ذوقِ خریداری! یہ موقع ہے کہیں
حسنِ یوسف سے نہ خالی مصر کا بازار ہو
یوسف علم استم و پنجاب کنعان منِ است
از دمیدِ صبحِ حکمت چاکِ دامانِ من است
بند چہارم
مجھ میں وہ جادو ہے روتوں کو ہنسا سکتا ہوں میں
قوم کے بگڑے ہوئوں کو پھر بنا سکتا ہوں میں
عید ہوں میں اے نگاہِ چشمِ نظّارہ تری
شاھدِ مقصود کا پردہ اٹھا سکتا ہوں میں
طیرِ حکمت باغِ دنیا میں ہوں اے صیّاد ! میں
دام تو سونے کا بنوا لے تو آ سکتا ہوں میں
طوسیؔ و رازیؔ و سیناؔ و غزالیؔ و ظہیرؔ
آہ وہ دل کش مرقع پھر دکھا سکتا ہوں میں
آئیں اڑ اڑ کر پتنگے مصر و روم و شام سے
شمع اک پنجاب میں ایسی جلا سکتا ہوں میں
آزما کر تم ذرا دیکھو مرے اعجاز کو
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ دکھا سکتا ہوں میں
گوش بر آواز تھا مغرب کبھی جس کے لیے
وہ صدا پھر اس زمانے کو سنا سکتا ہوں میں
ناز تھا جس پر کبھی غرناطہ و بغداد کو
پھر وہی محفل زمانے کو دکھا سکتا ہوں میں
گھر کسی کا جن کی ضو سے غیرتِ مشرق بنے
اس انوکھی شان کے موتی لٹا سکتا ہوں میں
کارواں سمجھے اگر خضرِ رہِ ہمّت مجھے
منزلِ مقصود کا رستا دکھا سکتا ہوں میں
از خُمِ حکمت بروں کردم شرابِ ناب را
ہاں ، مبارک سرزمینِ خطۂ پنجاب را
بند پنجم
بن گیا ہے دستِ سائل دامنِ گلزار کیا
باغ پر چھایا ہوا ہے ابرِ گوھر بار کیا
کچھ ہوا ایسی چلے یا رب کہ گلشن خیز ہو
خار کیا ، گل کی کلی کیا ، غنچۂ منقار کیا
حسن خود منّتِ کشِ چشمِ تماشائی ہوا
اب نہیں دنیا میں باقی طالبِ دیدار کیا
اک جہاں آیا ہے گل گشتِ چمن کے واسطے
باغباں باہر نہ پھینکے گا چمن کے خار کیا
زندگی اپنی زمانے میں تمہارے دم سے ہے
ہے خطِ دستِ کرم میرے نفس کا تار کیا
ہاں جسے چھونا ہو دامانِ ثریّا کو کبھی
ایک دو اینٹوں سے اٹھ سکتی ہے وہ دیوار کیا
تیغ کے بھی دن کبھی تھے اب قلم کا دور ہے
بن گئی کشور کشا یہ کاٹھ کی تلوار کیا
خوبیِ قسمت سے پہنچا علم کا یوسف یہاں
ورنہ کیا پنجاب اور پنجاب کا بازار کیا
مجھ سے وابستہ نہیں کیا آبرو پنجاب کی
تیر کی صورت نہیں ہیں طعنۂ اغیار کیا
آرزوئے دل کو بھی کہنا کوئی دشوار ہے
کام خاموشی سے تجھ کو اے لبِ اظہار کیا
گوش را جویائے آوازِ غریباں کردئہ
شانہ را مائل بہ گیسوئے پریشاں کردئہ
بند ششم
کیوں نہ دیوانے ہوں لب سوزِ نہاں کے واسطے
ڈھونڈ کر محفل نکالی داستاں کے واسطے
اس بھری محفل میں اپنا رازِ دل کہتا ہوں میں
باغ ہی زیبا ہے بلبل کی فغاں کے واسطے
طعنہ زن ہے ضبط اور لذّت بڑی افشا میں ہے
ہے کوئی مشکل سی مشکل رازداں کے واسطے
جس نے پایا اپنی محنت سے زمانے میں فروغ
ہے وہی اختر جبینِ کہکشاں کے واسطے
باغباں کا ڈر کہیں ، خطرہ کہیں صیّاد کا
مشکلیں ہوتی ہیں سو ، اک آشیاں کے واسطے
خضر ہمّت کا رفیقِ راہِ منزل ہو اگر
گلستاں تیرے لیے تو گلستاں کے واسطے
زندگی وہ چاہیے دنیا کی زینت جس سے ہو
شمعِ روشن بن کے رہ بزمِ جہاں کے واسطے
تشنہ لب کے پاس جاتا ہے کبھی اٹھ کرکنواں؟
رخت کب منزل نے باندھا کارواں کے واسطے
گلشنِ عالم میں وہ دل کش نظارہ ڈھونڈنا
آنکھ کو فرصت نہ ہو خوابِ گراں کے واسطے
یہ تو پوشیدہ ہے بے آرامیِ محنت میں کچھ
جا رہا ہے تو کہاں آرامِ جاں کے واسطے
روشن از نورِ مہِ حکمت شبستانِ من است
کآں دُرِ گم گشتۂ مومن بدامانِ من است
بند ہفتم
ہاں رگِ ہمت کو اپنی جوش میں لائے کوئی
عشقِ اخواں کا اثر دنیا کو دکھلائے کوئی
جوشِ ہمدردی میں پنہاں دولتِ ایماں ہے بس
نقشۂ خیر القروں آنکھوں کو دکھلائے کوئی
ہے پریشاں بادِ ناکامی سے گیسوئے مراد
شانۂ دستِ عطا سے اس کو سلجھائے کوئی
بہر استقبال استادہ ہے ہر گل کی کلی
اس چمن میں صورتِ بادِ صبا آئے کوئی
یہ گل و گلزار صدقہ امّیِ یثربؐ کا ہے
دیکھنا اے باغباں غنچہ نہ مرجھائے کوئی
مدّعا کو یہ سکھایا شورشِ فریاد نے
خود بخود میری طرح منہ سے نکل آئے کوئی
کہہ گئی ذوقِ کرم کو شوخی حسنِ طلب
ہاتھ سے عاشق کا دل بن کر نکل جائے کوئی
اک چھٹا دریا رواں ہونے کو ہے پنجاب میں
ابر کی صورت اٹھے ، اٹھ کر برس جائے کوئی
تاک میں بیٹھی ہوئی ہے شوخیِ دستِ طلب
دیکھیے اس بزم سے بچ کر کہاں جائے کوئی
فکرِ دیں کے ساتھ رکھنا فکرِ دنیا بھی ضرور
ہیں بہت دشمن کہیں دھوکا نہ دے جائے کوئی
خویش را مسلم ہمی گویند و با ماکار نیست
رشتۂ تسبیحِ شاں جز رشتۂ زُنّار نیست
بند ہشتم
علم کا محبوب رونق بخشِ کاشانہ تو ہو
انجمن اپنی مثالِ بزمِ جانانہ تو ہو
پھر سماں بندھ جائے گا غرناطہ و بغداد کا
پھر ذرا بھولا ہوا تازہ وہ افسانہ تو ہو
بزم میں شوقِ میٔ حکمت ہوا پیدا مگر
میَ بھی بٹ جائے گی پہلے فکرِ پیمانہ تو ہو
یہ نظامیّہ سلامت ہے تو پھر سعدیؔ بہت
پر ذرا ویسا منوّر اپنا کاشانہ تو ہو
یادگارِ فاتحانِ ہند و اندلس ہو تمھیں
شان شاہانہ نہ ہو میری، امیرانہ تو ہو
پائمالی ہے جہاں میں ترکِ حکمت کی سزا
اس چمن سے مثلِ سبزہ کوئی بیگانہ تو ہو
وہ غنی ہے علم کی دولت بھی کرتا ہے عطا
ہاں مگر پہلے رَوِش تیری گدایانہ تو ہو
آنکھ کو بیدار کر دیتی ہے یہ دیوانگی
کوئی اس حسنِ جہاں آرا کا دیوانہ تو ہو
رام کر لینا زمانے کا ترے ہاتھوں میں ہے
زندگی تیری جہاں میں دلربایانہ تو ہو
جل کے مرجانا چراغِ علم پر مشکل نہیں
پہلے تیرے دل میں پیدا نور پروانہ تو ہو
اے کہ حرف اطلَبِوا لَوکَانَ بِالسّین گفتہ ای
گوہرِ حکمت بہ تارِ جانِ امّت سفتہ ای
بند نہم
اے کہ بر دلھا رموزِ عشق آساں کردئہ ای
سینہ ہا را از تجلّی یوسفستاں کردہ ای
اے کہ صد طور است پیدا از نشانِ پائے تو
خاکِ یثرب را تجلّی گاہِ عرفاں کردہ ای
اے کہ ذاتِ تو نہاں در پردئہ عینِ عرب
روے خود را در نقابِ میم پنہاں کردہ ای
اے کہ بعد از تو نبوّت شد بہ ہر مفہوم شرک
بزم را روشن ز نورِ شمعِ ایماں کردہ ای
اے کہ ہم نامِ خدا ، بابِ دیارِ علم تو
اُمّیے بودی و حکمت را نمایاں کردہ ای
آتشِ الفت بہ دامانِ ربوبیت زدی
عالمے را صورتِ آئینہ حیراں کردہ ای
فیضِ تو دشتِ عرب را مطمحِ انظار ساخت
خاکِ ایں ویرانہ را گلشن بداماں کردہ ای
دل نہ نالد در فراقِ ماسوائے نورِ تو
خشک چوبے را ز ہجر خویش گریاں کردہ ای
گل فرستادن بہ بحرِ بے کراں می زیبدش
قطرئہ بے مایہ را ہم دستِ طوفاں کردہ ای
بے عمل را لطف تو لا ’تَقنَطُوا‘ آموز گشت
بسکہ وا بر ہر کسے بابِ دبستاں کردئہ ای
ہاں دعا کن بہرِ ما ، اے مایۂ ایمانِ ما
پرُ شود از گوہرِ حکمت سرِ دامانِ ما
 
۱ -     سرود رفتہ ص ۳۰

دین و دنیا

دہلی دروازے کی جانب ایک دن جاتا تھا میں
شام کو گھر بیٹھے رہنا قابلِ الزام ہے
خضر صورت مولوی صاحب کھڑے تھے اک وہاں
ہم مسلمانوں میں ایسی مولویّت عام ہے
وعظ کہتے تھے ’’کوئی مسلم نہ انگریزی پڑھے
کفر ہے آغاز اس بولی کا ، کفر انجام ہے‘‘
میں نے یہ سن کر کیا ان کو مخاطب اس طرح
’’آپ کا ہونا بھی اپنی گردشِ ایّام ہے
کیوں مسلمانوں کی کشتی کو الٹ دیتے نہیں
آپ کے دل میں جو اتنی کاوشِ انجام ہے
کفر کی تعریف میں کہتے ہیں انگریزی ہے شرط
آپ کی منطق بھی حضرت قابلِ انعام ہے
پھر اسی پر اکتفا کرتے نہیں ، کہتے ہیں یہ
مذہبِ منصور ہے ، مقبولِ خاص و عام ہے
واہ کیا کہنا ہے ، کیا تاثیر ہے ، کیا وعظ ہے
آپ کی ہر بات گویا بمبئی کا آم ہے
ادّعائے حُبّ دیں ہے آپ کو اس وعظ پر
ایسی حُب کو لام کی تشدید سے سَلّام ہے
مسلموں کو فکرِ دیں ہو فکرِ دنیا کچھ نہ ہو
کچے حنظل کی طرح یہ بھی خیالِ خام ہے
بندہ پرور اب تو ہم چالوں میں آنے کے نہیں
آپ کی دیں داریوں کا راز طشت ازبام ہے
خوب قرآں کو بنایا دام تزویر آپ نے
کامیابی کیوں نہ ہو حضرت یہ خاصا دام ہے
صدقے جائوں فہم پر دنیا نہیں دیں سے الگ
یہ تو اک پابندیٔ احکامِ دیں کا نام ہے
بندہ پرور بندگی اپنی یہیں سے ہو قبول
وعظ اب ایسا صدائے مرغِ بے ہنگام ہے
ان سے پوچھو ہند ہی کیا رہ گیا تھا آپ کو
اور بھی تو دیس ہیں آخر جہاں آرام ہے
باندھیے بستر کہ ان وعظوں کی خاطر سامنے
انڈیمن ہے ، چین ہے ، جاپان ہے ، آسام ہے
جب کہا حضرت!کہ ہیں اب ڈھنگ ہمدردی کے اور
دین کی تائید انگریزی پڑھوں کا کام ہے‘‘
جوش میں کیا آئے اک سوڈے کی بوتل کُھل گئی
گالیوں کے بِس سے منہ ان کا چھلکتا جام ہے
ایسے دینداروں سے تنگ آئے ہیں آخر کیا کریں
آج سنتے ہیں کہ جیمسٹ (۱) جی کے ہاں ’’لیلام‘‘ ہے
آپ کی تعریف لکھنی ہے قلم کو اس طرح
جس طرح گھوڑے کے حق میں سنکھیا ، بادام ہے
موچی دروازے میں ہیں فخرِ اطّبائے جہاں
ان سے امّید شفا لیکن خیالِ خام ہے
بیچتے ہیں برف کی قفلی دسمبر میں چہ خوش
ایسے دیںداروں کا سر بے عین و قاف و لام ہے
نظم چھپوانے جو صدیقی پریس میں ، میں گیا
مطبعِ مطبوع ہے ، مشہور خاص و عام ہے
ہیں یہاں اک دوست کالج کے زمانے سے مرے
آپ کے دم سے پریس کی عزّت و اکرام ہے
نام محی الدین ہے کرتے ہیں وہ احیائے دیں
آپ کا دینی کتابوں کی اشاعت کام ہے
میں نے یہ پوچھا کہ حضرت آپ کو فرصت تو ہے
نظم چھپوانی ہے مجھ کو اک ذرا سا کام ہے
دکھ نہ جائے دیکھنا شاعر کا دل انکار سے
یہ وہ تلخی ہے کہ مثلِ تلخیِ دُشنام ہے
آج کل لوگوں کو ہے انکار کی عادت بہت
نام بے چارے حسینوں کا یونہی بدنام ہے
ہنس کے فرمانے لگے یہ انجمن کا کام ہے
انجمن کاکام کیا ہے خدمتِ اسلام ہے
ہم کریں اس کام کو سو کام اپنے چھوڑ کر
آپ کیا سمجھے ہیں حضرت یہ بھی کوئی کام ہے
چھاپ دینا نظم کا مجھ پر گراں کوئی نہیں
خدمتِ دیں اپنے دل کو جامۂ احرام ہے
ہو اگر فرصت نہ مجھ کو اور سے چھپوا کے دوں
ہو نہ اتنا بھی تو جھوٹا دعویِ اسلام ہے
نظم ہے آخر کوئی طاعون کا ٹیکا نہیں
چھاپنا چاہے جو کوئی دس منٹ کا کام ہے
بات یہ چھوٹی سی ہے لیکن مروّت کو تو دیکھ
حق تو یہ ہے جوشِ ہمدردی اسی کا نام ہے
یہ مرّوت ہو عزیزوں کی نگاہوں میں اگر
پھر وہی ہم ہیں وہی شوکت وہی اسلام ہے
اس کہانی کے بیاں سے تھی غرض اک اور ہی
میرے ہر مصرع میں مخفی صنعتِ ایہام ہے
اس طرح دنیا کا بندہ بھی نہ ہونا چاہیے
ایسی دنیا ہو تو نورالدین ، گنگارام ہے
چاہیے ہر کام میں ہو دین کی خدمت کا پاس
حضرتِؐ مدفونِ یثرب کا یہی پیغام ہے
روح ہے جب تک بدن میں عشق ہم جنسوں سے ہو
عشق بھی اک مذہبِ اسلام ہی کا نام ہے
ہے دماغوں کی لطافت کچھ اسی کا سوز و ساز
عشق اس دنیا کی انگیٹھی میں عودِ خام ہے
سر جھکائے ایک دن جاتا تھا ٹکسالی کو میں
دائیں بائیں گُھورنے سے آنکھ کو کیا کام ہے
آ رہا تھا میرے پیچھے کوئی یہ کہتا ہوا
آہ یہ دنیا سراپا مایۂ آلام ہے
بابو جی درویش ہوں میں ہو چکا آٹا مرا
فکر ہے فردا کی اور دل ہے کہ بے آرام ہے
علمِ دیں کا شوق ہے دنیا سے مطلب کچھ نہیں
دال دل کو اپنے دالِ دین سے ادغام ہے
گائوں سے یاں کھینچ لایا ہے مجھے پڑھنے کا شوق
علم دیں کے ساتھ اپنے دل کو نسبت تام ہے
یہ کہا اور جھٹ دکھا دی اک پرانی سی کتاب
میں نے یہ سمجھا کوئی ڈگری ہے یا اسٹام ہے
میں نے یہ سن کر کہا دُکھتے ہوئے دل سے اسے
واہ کیا نیّت ہے ، کیا اوقات ، کیا اسلام ہے
خوار ہے تو جیسے اسٹیشن پہ ہو بلٹی کا مال
تیری دیںداری کا یہ ذلّت ہی کیا انجام ہے
نیچری مجھ کو سمجھ کر ہو گئے کافور آپ
آج کل سچی نصیحت کا یہی انعام ہے
الغرض دیں ہو تو اس کے ساتھ کچھ دنیا بھی ہو
ورنہ روزِ روشنِ اسلام کی پھر شام ہے
دین ، دنیا کا محافظ ہے اگر سمجھے کوئی
جیسے بچے کے گلے میں ناخنِ ضرغام ہے
یوں تو اس دنیائے دوں میں سیکڑوں امراض ہیں
پر بخیلوں کے لیے چندہ بھی اک سرسام ہے
چندہ جب لینے گئے کہلا دیا بیمار ہیں
ٹل گئے جس دم کہا پہلے سے کچھ آرام ہے
ذکر جب اقبال کا آیا تو بول اٹھا کوئی
رہتا ہے بھاٹی میں اک دیوانۂ اصنام ہے
 
۱ -     جیمسٹ جی ایک پارسی تھا جس کا نیلام گھر اس زمانے میں بہت مشہور تھا۔