Tuesday, September 8, 2015

گھوڑوں کی مجلس

اک روز کسی گھوڑے کے دل میں یہ سمائی
انسان مری قوم سے کرتا ہے برائی
رکھّا ہے مرے بھائیوں کو اس نے جکڑ کر
تدبیر ہو ایسی کہ ملے ان کو رہائی
میں قوم کی ذلّت نہ کبھی دیکھ سکوں گا
اک آگ سی ہے اس نے مرے جی کو لگائی
یہ ٹھان کے جنگل کے رفیقوں کو بلایا
سب آئے کہ اس بات میں تھی سب کی بھلائی
حاضر ہوئے بوڑھے بھی ، بچھیرے بھی ، جواں بھی
دیتے ہوئے انسان کی سختی کی دہائی
پہلے تو ہری گھاس سے کی ان کی تواضع
مہمانوں کو پھر بات جو تھی دل کی بتائی
اک گھوڑے کو کرسی پہ صدارت کی بٹھا کر
سب نے یہ کہا ، آپ کریں راہ نمائی
ہونے لگا گھوڑوں کا بڑی دھوم سے جلسہ
دینے لگی اس قوم کی اک شان دکھائی
کچھ دیر تو ہوتی رہیں آپس میں صلاحیں
ہر ایک نے تدبیر رہائی کی بتائی
مجلس سے اٹھا آخرِ کار ایک بچھیرا
اور اٹھ کے متانت سے زباں اپنی ہلائی
تقریر پہ سو جان سے صدقے تھی فصاحت
تھی گھوڑے کی باتوں میں قیامت کی صفائی
بولا کہ مرِی قوم میں غیرت نہیں باقی
کس طرح ہو پھر غیر کے ہاتھوں سے رہائی
جینا جو ہمارا ہے وہ ذلّت کا ہے جینا
ہم نے تو بزرگوں کی بھی عزّت ہے گنوائی
ہم گاڑیاں انسان کی کھینچیں ، یہ غضب ہے
محنت کریں ہم اور یہ کھا جائے کمائی
سردی سے رہیں ہم تو طویلوں میں ٹھٹھرتے
لیٹے یہ حویلی میں لیے گرم رضائی
گُھڑ دوڑ میں ہم اپنا بہاتے ہیں پسینہ
جو اس کی بھلائی ہے ، وہ ہے اپنی برائی
کیا کہیے مصیبت ہمیں پڑ جاتی ہے کیسی
ہو جائے جو ظالم کے قبیلوں میں لڑائی
لوہے کی لگامیں ہیں تو چمڑے کے ہیں چابک
افسوس کہ غیرت نہ مِری قوم کو آئی
روئے کوئی اس قوم کے دکھڑے کو کہاں تک
ہم سمجھے ہیں اے وائے غلامی میں بڑائی
اے قوم ! یہ اچھا نہیں ہر روز کا جلنا
زیبا ہے ہمیں قید سے انساں کی نکلنا




تقریر ہوئی ختم تو بیٹھا وہ بچھیرا
ہر گھوڑے نے مجلس میں دلیلوں کو سراہا
ہر بات بچھیرے کی سراہی گئی لیکن
کچھ کہنے پہ آمادہ تھا اک اور بھی گھوڑا
لاغر تھا بہت گرچہ بڑھاپے کے سبب سے
اٹّھا کہ اسے قوم کو تھا راہ پہ لانا
بولا کہ مِرے دوست کی باتیں ہیں بہت خوب
پر جوشِ جوانی نے کیا ہے اسے اندھا
مانا کہ اسے قوم کی ذلّت نہیں بھاتی
بچّہ ہے ، ابھی اس نے زمانہ نہیں دیکھا
ہے زور دیا آپ نے انساں کے ستم پر
تقریر کو ہے خوب مثالوں سے سجایا
سختی سے ہمیں پیش وہ آتا ہے یہ مانا
سختی میں جو راحت ہو تو سختی ہے گوارا
انسان کے احسان کو سمجھا نہیں تم نے
دیتا ہے طویلوں میں تمھیں وقت پہ دانا
رہنے کو طویلوں میں سمجھتے ہو برا تم
جنگل کی رہایش میں ہے سو طرح کا کھٹکا
دن رات وہاں گھات میں رہتے ہیں درندے
پینے کا جو پانی ہے وہ اکثر نہیں ملتا
ہے قید میں انسان کی راحت ہی سراسر
ہر حال میں ہے اس کی غلامی ہمیں زیبا
دن آتے ہیں ایسے بھی کہ بارش کی کمی سے
ہو گھاس نہ پیدا تو یہ رکھتا ہے ذخیرا
یہ آپ پہنتا ہے جو کمخواب کے کپڑے
زربفت کے جھولوں سے ہے تم کو بھی سجایا
بیمار جو ہو جائو تو کرتا ہے دوا بھی
کرتا ہے ہمارے لیے نقصاں بھی گوارا
گُھڑ دوڑ کے گھوڑوں کی جو ہوتی ہے تواضع
آرام وہ حیواں کو میسر نہیں ہوتا
آرام ہیں لاکھوں ہمیں انسان کے دم سے
میرا تو شکایت پہ کبھی لب نہ کھلے گا
میں نے تو بتا دی ہے تمہیں سب کے بھلے کی
مانے جو نہ کوئی تو مجھے کچھ نہیں پروا
ان باتوں سے حیران سے کچھ رہ گئے گھوڑے
تقریر وہ کی اس نے کہ جادو تھی سراپا
سب مان گئے دور شکایت ہوئی سب کی
تھی بوڑھے کی تقریر میں تاثیر غضب کی۱
۱ -     اردو کی پانچویں کتاب ص ۹۵

0 comments:

Post a Comment