Tuesday, September 8, 2015

شمعِ زندگانی

اے شمع زندگانی کیوں جھلملا رہی ہے
شاید کہ بادِ صرصر تجھ کو بجھا رہی ہے
ہاں ہاں ذرا ٹھہر جا اس منزلِ فنا میں
بزمِ جہاں کی الفت مجھ کو ستا رہی ہے
مجھ زار و ناتواں پر لِلّٰہ اب کرم کر
کیوں نخلِ آرزو پر بجلی گرا رہی ہے

دل کا بخار کچھ تو مجھ کو نکالنے دے
گزری ہوئی کہانی اب تک رُلا رہی ہے
کیا نا امید ہو کر بزمِ جہاں سے جائوں
کیوں خاک میں ابھی سے مجھ کو ملا رہی ہے
دنیا کے یہ مناظر پیشِ نظر ابھی ہیں
مجھ کو مری تمنّا اب تک ستا رہی ہے
برباد ہو رہی ہے کشتِ مراد میری
مثلِ چنار اس کو ناحق جلا رہی ہے
ارمان و آرزو پر تجھ کو نہ رحم آیا
کیوں میری حسرتوں کو دل سے مٹا رہی ہے
اے شمع کیوں ابھی سے آنکھیں ہیں سب کی پر نم
کیا مرگِ ناگہانی تشریف لا رہی ہے
رو لیں گے بعد میرے جی بھر کے رونے والے
کیوں تو ابھی سے رو کر سب کو رُلا رہی ہے
تیری اگر خوشی ہو ، مرنے پہ میں ہوں راضی
شمعِ حیات گل ہو ، کیوں جھلملا رہی ہے

۱ -     باقیات ص ۲۲۸

0 comments:

Post a Comment