Tuesday, September 15, 2015

(Armaghan-e-Hijaz - 10) - Faraghat De Usse Kaar-e-Jahan Se (فراغت دے اس کار جہاں سے) Set him free of this world’s affairs

فراغت دے اسے کارِ جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش
گناہِ تازہ تر لائے کہاں سے

مطلب: اس رباعی میں اقبالؒ نے بظاہر خدا سے شیطان کی سفارش کی ہے کہ مولا کریم اگر تیری مرضی ہو تو اب اس بیچارے شیطان پر رحم کر اور اسے اہل جہاں کو ورغلانے کے کام سے فارغ کر دے۔ میں دیکھا کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرے تو اپنی اصلی یا حقیقت سے دور ہو جائے۔ اس کا فرض ہے کہ لمحہ بنی آدم کے قلوب میں وسا وس پیدا کرتا رہے یعنی ہر وقت اپنی شیطانیت کا ثبوت دیتا رہے۔
اے خدا یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان بوڑھا ہو چکا ہے (اقل تخمینہ کے مطابق اس کی عمر سات ہزار سال سے کم نہیں ہے) اس لئے اس کے تصورات و تخیلات بھی فرسودہ ہو چکے ہیں کہ ان میں کوئی حدت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب وہ ہم سے نئے گناہوں کا ارتکاب نہیں کرا سکتا تو اسے خدا ہم لوگ اب لوٹ کر پھر وہی پرانے گناہ کر رہے ہیں چونکہ اب وہ نئے گناہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے مناسب ہے کہ تو اسے اس ڈیوٹی (کارِ جہان) سے فارغ کر دے۔ یعنی اب خیر و شر کا تنازع ختم کر دے۔ جب ہم کوئی نیا گناہ نہیں کر رہے ہیں۔ (کیونکہ ان کا سارا اسٹاک ختم ہو چکا ہے) تو اب انہی پرانے گناہوں کی تکرار سے کیا حاصل؟
تبصرہ:
واضح ہو کہ اقبالؒ فلسفی ہونے کے علاوہ شاعر بھی ہیں۔ بلکہ شاعر پہلے فلسفی بعد میں ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی وہ محض شاعر کی حیثیت سے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔ یعنی شاعر وہ ہے جو انسانی فطرت کی عکاسی کرے اور جو کیفیت یا جذبہ اس کے دل پر طاری ہو اسے بے کم و کاست بیان کر دے۔ یہی خالص شاعر اور فلسفی یا پیغام گو شاعر یا مصلح شاعر میں بنیادی اور اصولی فرق ہوتا ہے۔ فلسفی شاعر اپنے جذبات کو بے کم و کاست بیان کر دیتا ہے وہ اسی وقت یہ ہرگز نہیں سوچتا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ میرے فلسفہ یا عقیدہ یا پیغام یا سوسائٹی کے قوانین کے خلاف تو نہیں ہے اس وقت تو اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جو محسوس کرتا ہے وہ بلا خوف لومۃِ لائم، واشگاف بیان کردیتا ہے۔
اقبالؒ ایک فلسفی اور پیغام گو سہی لیکن بہر حال وہ شاعر ہیں اس لئے ان کے یہاں اس قسم کے اشعار بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن میں انہوں نے وارداتِ قلبی کی ہو بہو تصویر کھینچ دی ہے:
مثلا جب انسان پر چاروں طرف سے مصائب کا نزول ہوتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ:
یہ زندگی ہے سراپا رحیل بے مقصود
حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ زندگی اگر واقعی بے مقصود ہے تو پھر خدا کا وجود ثابت نہیں ہو سکتا اور جب خدا نہیں تو نہ رسول باقی رہا نہ کتاب سلامت رہی نہ دین کا ٹھکانہ رہا نہ ایمان کا۔
یہ رباعی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے یعنی اقبال نے شاعرانہ شوخی سے کام لے کر، انسان کی ایک ایسی مخفی آرزو کا اظہار کر دیا ہے جس سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے کہ کیا اچھا ہو اگر خیر و شر کا یہ تنازع کسی طرح ختم ہو جائے۔
ضمناً اقبالؒ نے اس حقیقت کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ’’یعنی دنیا میں کوئی چیز نئی نہیں ہے۔‘‘ مثلا
۱۔ وہ تمام نظریات جو کانٹ ہیگل، ڈارون، نیٹشے اور برگسان نے موجودہ زمانہ میں پیش کئے ہیں، یہ سب نظریات قدیم فلاسفہ اپنے اپنے عہد میں مختلف لفظوں میں پیش کر چکے ہیں۔
۲۔ جو مضامین جدید شعراء اپنے اپنے کلام میں پیش کر رہے ہیں، شعرائے مقتدمین ان سب کو اس سے بہت پہلے پیش کر چکے ہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہے کہ شراب تو وہی ہے صرف بوتل کا سائز اور لیبل کا رنگ بدل گیا ہے۔
۳۔ اگر اس زمانہ کی عورتیں حسن کے مقابلہ میں شرکت کرتی ہیں تو نمائشِ حسن یعنی تبرج کا جذبہ تہیوڈورا اور کلو پڑا کے عہد میں بھی اس شدت کے ساتھ کارفرمات تھا۔
بنیادی تصور یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے لیکن اس قبیل کی رباعیوں اور نظموں کے پڑھتے وقت مذکورہ بالا نکتہ کو ہمیشہ مد نظرِ رکھنا چاہیے کہ اقبالؒ کبھی کبھی شاعرانہ شوخیوں پر بھی اتر آتے ہیں اور اس وقت ان کے اشعار کا مطلب وہی ہوتا ہے جو لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ مثلا اس رباعی میں شاعر نہایت بے تکلفی کے ساتھ خدا سے کہتا ہے کہ پرانے گناہوں کی تکرار سے دل اکتا گیا ہے۔ ان کے ارتکاب میں اب کوئی لذت محسوس نہیں ہوتی اس لئے اس قصہ کو ختم کر دیجئے۔ شیطان مخلوق ہے غیر محدود قوتوں کا مالک تو نہیں ہے۔ اس لئے قدرتی بات ہے کہ اب اس میں تازہ (جدید) گناہ ایجاد کرنے کی قوت باقی نہیں رہی ہے۔ آخر کب تک باقی رہتی؟ جب دنیا میں ہر شئے کی ایک حد ہے تو شیطان کی قوت اس سے کیسے مستثنیٰ ہو سکتی ہے؟ اس لئے اب آپ اسے ڈیوٹی سے فارغ کر دیجئے۔

0 comments:

Post a Comment