Tuesday, September 8, 2015

شیشۂ ساعت کی ریگ

اے مُشتِ گردِ میداں ، اے ریگ سرخ صحرا
کس فتنہ خوُ نے تجھ سے دشتِ عرب چھڑایا
صر صر کے دوش پر تو اڑتی پھری ہے صدیوں
بلّور کے مکاں میں کرتی ہے اب بسیرا
ہے خار زارِ غربت تیرے لیے یہ شیشہ
قصرِ بلّور جس کو میری نظر نے سمجھا
تیرے سکوت میں ہے سو داستاں پرانی
عہدِ کہن بھی گویا دیکھا ہوا ہے تیرا
اس دن کی یاد اب تک باقی ہے تیرے دل میں
کنعاں کا قافلہ جب سوئے حجاز آیا
دیکھے ہوئے ہیں تیرے فرعون کے سپاہی
تو ہو چکی ہے شاید پامالِ قومِ موسیٰ
چومے تھے تو نے اڑ کر مریم کے پائے نازک
ٹوٹا جو ناصرہ کی تقدیر کا ستارا
شاید گواہ ہے تو اس روز کے ستم پر
یثرب کا چاند جس دم اپنے وطن سے نکلا
ہو کس طرح بھلا تو اس نقشِ پا سے غافل
جس نے ترے وطن کو جنت بنا دیا تھا
اے ریگِ سرخ تیرا ہر ذرّہ کہہ رہا ہے
میں جانتا ہوں قصّہ میدانِ کربلا کا
تو گردِ پا ہے شاید بصرہ کے زائروں کی
بانگِ درا سے تیرا ہر ذرّہ ہے شناسا
طرزِ نفس شماری شیشے سے تو نے سیکھی
جاسوس بن گئی تو اقلیمِ زندگی کی
 
۱ -     خواجہ محمد اقبال ، حضرت کے ایک مرید خاص کا نام تھا ، جن پر ان کی بڑی نظر عنایت تھی-
 
۲ -     سرود ِرفتہ ص ۸۶

0 comments:

Post a Comment