Tuesday, September 8, 2015

خیر مقدم

(لاٹ صاحب اور ڈائریکٹر تعلیم کا)
 
زہے نشاطِ فراواں کہ اخترِ تقدیر
چمک رہا ہے ابھر کر مثالِ مہرِ منیر
کیا ہے آنکھ نے ممدوحِ انتخاب ایسا
صفت سے جس کی زبانِ قلم میں ہے تاثیر
خوشا نصیب وہ گوہر ہے آج زینتِ بزم
کہ جس کی شان سے ہے آبروئے تاج و سریر
وہ کون زیب دہِ تختِ صوبۂ پنجاب
کہ جس کے ہاتھ نے کی قصرِ عدل کی تعمیر
عجب معاملہ ہے کچھ ولایتِ دل کا
کہ اک نگاہ سے ہوتا ہے یہ نگر تسخیر
حضور زینتِ محفل ہیں ، ناز ہے ہم کو
جھلک رہی ہے نصیبوں میں سبزیِ کشمیر
مزے سے سوتا ہے بے خوف دیدئہ عالم
کہ تیرے عہد کا ہے خواب بھی نکو تعبیر
بدل کے امن کے باعث ہے اصطلاحِ زباں
بجائے نالۂ زنجیر ، نغمۂ زنجیر
کوئی جو غور سے دیکھے تو امن کی ہے بہار
یہ درسگاہ ، یہ محفل ، یہ شان ، یہ تعمیر
جو بزم اپنی ہے طاعت کے رنگ میں رنگیں
تو درس گاہِ رموزِ وفا کی ہے تفسیر
اسی اصول کو ہم کیمیا سمجھتے ہیں
نہیں ہے غیرِ اطاعت جہان میں اکسیر
مدد جہان میں کرتے ہیں آپ ہم اپنی
غریب دل کے ہیں لیکن مزاج کے ہیں امیر
مگر حضور نے ہم پر کیا ہے وہ احساں
کہ جس کے ذوق سے شیریں ہوا لبِ تقریر
وہ لوگ ہم ہیں کہ نیکی کو یاد رکھتے ہیں
اِسی سبب سے زمانے میں اپنی ہے توقیر
دعا نکلتی ہے دل سے حضور شاد رہیں
رہیں جہان میں عظمت طرازِ تاج و سریر
عجب طرح کا نظارہ ہے اپنی محفل میں
کہ جس کے حسن پہ نازاں ہے خامۂ تحریر
ہوئے ہیں رونقِ محفل جنابِ ولیم بل
ضیائے مہر کی صورت ہے جن کی ہر تدبیر
یہ علم و فضل کی آنکھوں کا نور ہیں واللہ
انہی کی ذات سے حاصل ہے مہر کو تنویر
خدا انہیں بھی زمانے میں شاد کام رکھے
یہ وہ ہیں دہر میں جن کا نہیں عدیل و نظیر
قمر کے گرد ستارے ہیں ہم عناں کیا ہیں
ہے جس طرح کا شہنشہ اسی طرح کے وزیر
خوشا نصیب کہ یہ ہمرہِ حضور آئے
ہماری بزم کی یکبار بڑھ  گئی توقیر
بڑھے جہان میں اقبال ان مشیروں کا
کہ ان کی ذات سراپا ہے عدل کی تصویر
 
۱-     مخزن فروری ۱۹۰۲ء

0 comments:

Post a Comment