Tuesday, September 8, 2015

یتیم کا خطاب ہلال عید سے

بند اوّل
اے مہِ عید بے حجاب ہے تو

حسنِ خورشید کا جواب ہے تو
اے گریبانِ جامۂ شب عید

شاہدِ عیش کا شباب ہے تو
اے نشانِ رکوعِ سورئہ نور

نقشۂ کلک انتخاب ہے تو
اے جوابِ خطِ جبینِ نیاز

طاعتِ صوم کا ثواب ہے تو
ہائے اے حلقۂ پرِ طائوس

قابل ذٰلِکَ الکتاب ہے تو
فوجِ اسلام کا نشاں تو ہے

چشمِ نصرت کا انتخاب ہے تو
چشمِ طفلی نے جب تجھے دیکھا

کہہ دیا خواب کو کہ خواب ہے تو
طوفِ منزل گہِ زمیں کے لیے

ہمہ تن پائے در رکاب ہے تو
یہ ابھرتے ہی آنکھ سے چُھپنا

روشنی کا مگر حباب ہے تو
تو کمند غزال شادی ہے
لذت افزائے شور طفلی ہے
بند دوم
مقصدِ دیدئہ امید ہے کل

گوہرِ عیش کی خرید ہے کل
دیدئہ مہرِ عالم آرا میں

سرمۂ عید کی کشید ہے کل
گلشنِ نو بہارِ ہستی میں

سبزئہ عیش کی امید ہے کل
کحلِ محراب ہر جبینِ نیاز

زینت افزائے عینِ عید ہے کل
اے مہِ نو ترا پیامِ طرب

ہے شنید آج چشم دید ہے کل
اے نسیمِ نشاطِ روحانی

باغِ دل میں تری وزید ہے کل
ہے یہی نغمۂ لبِ طفلی

ہاتھ لانا ادھر کہ عید ہے کل
کمسنوں کو یہ کہہ رہا ہے ہلال

لو میاں شب بخیر عید ہے کل
سرِ بالیں لباسِ طفلی ہے

میری عریاں تنی کی عید ہے کل
اے مہ نو خوشی ہو کیا جی کو
تیرے آنے سے کیا یتیمی کو
بند سوم
جھوٹ ہے عید کا ہلال ہے تو

ساغرِ بادئہ ملال ہے تو
کہہ سنا قصۂ ستم زدگاں

کہ ہمارا لبِ مقال ہے تو
خامشی سوز ہے نظارہ ترا

غازئہ عارضِ مقال ہے تو
اے گدائے شعاعِ پرتوِ مہر

ہمہ تن کاسئہ سوال ہے تو
چشمۂ مہر پر نظر ہے تری

تشنہ کام میٔ کمال ہے تو
یہ دکھاوا ہے سب تلاشِ کمال

پا بہ منزل گہِ زوال ہے تو
ہائے شاید خبر نہیں تجھ کو

اپنی امّید کا مآل ہے تو
بڑھ گیا خم مرے مقّدر کا

کیوں نہ کہہ دیں کہ بیمثال ہے تو
میرے شوقِ لباسِ نو کے لیے

سبق آموز انفعال ہے تو
کیا بتائوں تجھے کہ کیا ہوں میں
تجھ کو حسرت سے دیکھتا ہوں میں

بند چہارم
ستمِ گوشِ باغباں ہوں میں

خبرِ آمدِ خزاں ہوں میں
شرمسارِ متاعِ ہستی ہوں

مایۂ نازشِ زیاں ہوں میں
مجھ سے شرما گیا تبسم بھی

کہ سراپا لبِ فغاں ہوں میں
بار ہوں طاقتِ شنیدن پر

کس مصیبت کی داستاں ہوں میں
آہ منزل نہیں نصیبوں میں

موجۂ گردِ کارواں ہوں میں
اپنی بے مایگی پہ نازاں ہوں

 مفت جاتا ہوں ، کیا گراں ہوں میں
اے فلک خوانِ زندگی پہ مگر

کوئی نا خواندہ میہماں ہوں میں
ستمِ ناروا سے مرتا ہوں

آسماں کا مزاج داں ہوں میں
آرزو یاس کو یہ کہتی ہے

اک مٹے شہر کا نشاں ہوں میں
ایسی قسمت کسی کی ہوتی ہے
آہ میری اثر کو روتی ہے
بند پنجم
بن کے نشتر چبھا ہے تو دل میں

آرزو ہو گئی لہو دل میں
چاکِ دل پر نثار ہوتی ہے

حسرتِ سوزنِ رفو دل میں
یاس نقشہ جمائے جاتی ہے

چھپتی پھرتی ہے آرزو دل میں
درد یتزی سے بڑھ گیا اے غم

کیا رہی تیری آبرو دل میں
دو گھڑی بیٹھنے نہیں دیتی

ہے کوئی چیز فتنہ ُخو دل میں
گرہِ رشتۂ حیات نہ ہو

یہ جو ہوتی ہے آرزو دل میں
دیکھ اے یاس اب تلک باقی

خونِ امّید کی ہے بو دل میں
عمر تیری بڑی ہے یاد پدر

تھی ابھی تیری گفتگو دل میں
اے خیالِ مسرّتِ طفلی

آگیا ہے کدھر سے تو دل میں
دردِ دل کا بھی کیا فسانہ ہے
خون رونے کا اک بہانہ ہے
بند ششم
مصر ہستی میں شام آتی ہے

رنگ اپنا جمائے جاتی ہے
اے سبوئے میٔ شفق ، اے شام

تو میٔ بے خودی پلاتی ہے
سرمۂ دیدئہ افق بن کر

چشمِ ہستی میں تو سماتی ہے
کس خموشی سے اڑ رہے ہیں طیور

تو رہِ آشیاں دکھاتی ہے
ریزش دانہائے اختر کو

مزرعِ آسماں میں آتی ہے
تو پرِ طیرِ آشیاں رَو کو

چشمِ صیّاد سے چھپاتی ہے
صبح در آستیں ہے تو شاید

آنکھ اختر کی کھلتی جاتی ہے
تو پیامِ وفاتِ بیداری

محفلِ زندگی میں لاتی ہے
اپنے دامن میں بہر غنچۂ گل

خواب لے کر چمن میں آتی ہے
تیری تاثیر ہو گئی آخر
میری تقدیر ہو گئی آخر
بند ہفتم
آبرو جائے موت کی نہ کہیں

موت بن جائے بیکسی نہ کہیں
درد کو زندگی سمجھتے ہیں

جاوداں ہو یہ زندگی نہ کہیں
ہوں وہ بیکس کہ ڈرتا رہتا ہوں

چھوڑ دے مجھ کو بیکسی نہ کہیں
زخم منّت پذیرِ مرہم ہے

چھپ کے سنتی ہو چاندنی نہ کہیں
غنچۂ دل میں ہے چٹک ایسی

اس کلی میں ہو بے کلی نہ کہیں
ہوں نفس در کفن مثالِ سحر

موت ہو میری زندگی نہ کہیں
گاہے ماہے ہلال آتا ہے

ہو لبِ نانِ مفلسی نہ کہیں
ماہ کے بھیس میں نمایاں ہو

اپنی تقدیر کی کجی نہ کہیں
خطِ دستِ سوال ہے اپنا

ہو رگِ جانِ مفلسی نہ کہیں
قابلِ بحرِ زندگی نہ ہوا
ٹکڑے ٹکڑے مرا سفینہ ہوا
بند ہشتم
سیر میں اب نہ دل لگائیں گے

کس کی انگلی پکڑ کے جائیں گے
صبح جانا کسی کا وہ گھر سے

اور وہ رونا کہ ہم بھی جائیں گے
کھیل میں آ گئی جو چوٹ کبھی

کس کی آنکھوں سے اب چھپائیں گے
کوئی ناغہ جو ہو گیا تو کسے

ساتھ مکتب میں لے کے جائیں گے
سننے والے گزر گئے اے دل

اپنے شکوے کسے سنائیں گے
اٹھ گئے آہ قدر داں اپنے

لکھ کے تختی کسے دکھائیں گے
دردِ دل کی زباں نرالی ہے

تجھ کو اے خامشی سکھائیں گے
کس غضب کے نصیب ہیں اپنے

روتے آئے تھے روتے جائیں گے
عید آئی ہے اے لباسِ کہن

اب ترے چاک پھر سلائیں گے
عید کا چاند آشکار ہوا
تیر غم کا جگر کے پار ہوا

بند نہم
آنکھ میں تارِ اشکِ پیہم ہے

کیا رواں آبِ خنجرِ غم ہے
دیکھ اے ضبط گِر نہ جائے کہیں

اشکِ غم آبروئے ماتم ہے
اے مہِ عید تو ہلال نہیں

سینہ کاوی کو ناخنِ غم ہے
پھول ایسا ہے اشکِ چشمِ یتیم

رونقِ خانۂ محرّم ہے
اس گلستاں میں آشیاں ہے مرا

ہر شجر جس کا نخلِ ماتم ہے
کس کے نظّارئہ مصیبت کو

ماہ بامِ فلک پہ یوں خم ہے
خونِ امید ہے یہ اشک نہیں

کس بھلاوے میںچشمِ پرنم ہے
پوچھنا اے نفس نکل کے ذرا

کیوں اجل کا مزاج برہم ہے
اے فلک کیوں زمیں ہے برسرِکیں؟

میری بربادیوں کو تو کم ہے؟
ہے جو دل میں نہاں ، کہیں کیوں کر
مفلسی کے ستم سہیں کیوں کر
بند دہم
ہاتھ اے مفلسی صفا ہے ترا

ہائے کیا تیر بے خطا ہے ترا
تیرہ روزی کا ہے تجھی پہ مدار

بدنصیبی کو آسرا ہے ترا
مایۂ صد شکستِ قیمتِ دل

دہر میں ایک سامنا ہے ترا
تو بھلا مجھ پہ کیوں نثار نہ ہو

کہ یتیمی تو مدّعا ہے ترا
مسکراتا ہے تجھ کو دیکھ کے زخم

یہ کوئی صورت آشنا ہے ترا
التجا پر خموشیِ منعم

ایک فقرہ جلا بھنا ہے ترا
یہ بھی کیا دامنِ یتیمی ہے

نام کیسا نکل گیا ہے ترا
موت مانگے سے بھی نہیں آتی

درد کیا زندگی فزا ہے ترا
شورِ آوازِ چاکِ پیراہن

لبِ اظہارِ مدعا ہے ترا
ہیں جہاں کو غموں کے خار پسند
اس چمن کو نہیں بہار پسند
بند یاز دہم
چمنِ خار خار ہے دنیا

خونِ صد نو بہار ہے دنیا
زندگی نام رکھ دیا کس نے

موت کا انتظار ہے دنیا
ہے نسیم جہاں خزاں پرور

دیکھنے کو بہار ہے دنیا
ڈھونڈ لیتی ہے اک نہ اک پہلو

درد کی غم گسار ہے دنیا
ہے تمنا فزا ہوائے جہاں

کیا شکستِ خمار ہے دنیا
خون روتا ہے شوق منزل کا

رہزن و رہ گزار ہے دنیا
جان لیتی ہے جستجو اس کی

دولت زیرِ مار ہے دنیا
یاس و امید کا ملاوا ہے

کوئی جاتی بہار ہے دنیا
خندہ زن ہے فلک زدوں پہ جہاں

چرخ کی راز دار ہے دنیا
اہلِ دنیا و شرحِ دردِ جگر
رگِ بے خون و کاوشِ نشتر
بند دواز دہم
کیا قیامت ہیں غم کے آنسو بھی

بڑھتا جاتا ہے دردِ پہلو بھی
نوکِ مژگاں ہے نشترِ رگِ اشک

خوں فشاں ہو رہے ہیں آنسو بھی
ٹوٹی پھوٹی زباں میں کہتا ہے

رنگِ احوال ، دردِ پہلو بھی
سوزشِ اشکِ غم ہے برقِ مژہ

جل گیا سبزئہ لبِ جو بھی
آہ اے چشمِ اشک ریزِ یتیم

خواب کا اک خیال ہے تو بھی
حسرتِ دیدِ غم گسار نہ پوچھ

چشم ریزاں ہیں میرے آنسو بھی
قطرئہ خوں تو عام ہے لیکن

دل کو کہتے ہیں دردِ پہلو بھی
آ ترے صدقے اے خیال پدر

عید کا چاند ہو گیا تو بھی
ہائے اے برق بن گئی گر کر

میرے حاصل کی آبرو تو بھی
عید کا چاند اضطراب بنا
طاقِ آتشگہِ عذاب بنا
بند سیز دہم
طعن دیتا ہے کس بلا کے مجھے

آسماں بن گیا ستا کے مجھے
ہائے بے خود کیا تصوّر نے

داستانِ عرب سنا کے مجھے
ہے تصّدق مری یتیمی پر

کوئی نقشہ دکھا دکھا کے مجھے
چاہیے اے خیال پاسِ ادب

تو کہاں لے گیا اڑا کے مجھے
ہائے اے آتشِ فراقِ پدر

خاک کر دے جلا جلا کے مجھے
اے یتیمی فتادگی بن کر

چھوڑنا خاک میں ملا کے مجھے
لبِ اظہار وا ہوا نہ کبھی

غم نے دیکھا ہے آزما کے مجھے
پردہ رکھ لے شکستہ پائی کا

کارواں لے چلے اٹھا کے مجھے
زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں

کہ مزے مل گئے فنا کے مجھے
عرش ہلتا ہے جب یہ روتے ہیں
کیا یتیموں کے اشک ہوتے ہیں


بند چہار دہم
کیا ہنسی ضبط کی اڑاتے ہیں

اشک آ آ کے چھیڑ جاتے ہیں
اک بہانہ ہلالِ عید کا ہے

قوم کو حالِ دل سناتے ہیں
کس مزے کی ہے داستاں اپنی

قوم سنتی ہے ہم سناتے ہیں
دیکھ اے زندگی مرے آنسو

یہ ترے نقشِ نو مٹاتے ہیں
ہاں بتا اے فلک کہ طفلی میں

درد کو کس طرح چھپاتے ہیں
خاک راہِ فنا میں اڑتی ہے

منہ کفن میں چھپائے جاتے ہیں
وہ بھی ہوتے ہیں اے خدا کوئی

جو مصیبت کو بھول جاتے ہیں
اس طرح کی ہے داستاں اپنی

ہے عیاں جس قدر چھپاتے ہیں
ہم نہ بولیں تو خامشی کہہ دے

یہ قیامت کے دکھ اٹھاتے ہیں
آبرو بڑھ گئی خموشی کی
یہ زباں بن گئی یتیمی کی
بند پانز دہم
رنگِ گلشن جو ہو خزاں کے لیے

قہر ہوتا ہے باغباں کے لیے
چاہیے پاس برق کا اے دل

ہو خسِ خشک آشیاں کے لیے
اڑ کے آتا ہے رنگِ عارضِ زرد

کس مصیبت کی داستاں کے لیے
حال دل کا سنا دیا سارا

کچھ بھی رکھا نہ رازداں کے لیے
ہے اقامت طلب جدار مری

قوم ہو خضر اس مکاں کے لیے
ہاتھ اے قومِ مہرباں تیرا

ابر ہے کس کے گلستاں کے لیے
حال اپنا اگر تجھے نہ کہیں

اور رکھیں اسے کہاں کے لیے
صورتِ شمعِ خانۂ مفلس

خامشی ہے مری زباں کے لیے
اب مگر ضبط کا نہیں یارا

لب ترسنے لگے فغاں کے لیے
درد مندوں کی درد خواہ ہے قوم
بے کسوں کی امید گاہ ہے قوم

1 comment: