Tuesday, September 8, 2015

ماتم پسر

اندھیرا صمدؔ کا مکاں ہو گیا

وہ خورشیدِ روشن نہاں ہو گیا
بیاباں ہماری سرا بن گئی

مسافر وطن کو رواں ہو گیا
گیا اڑ کے وہ بلبلِ خوش نوا

چمن پائمالِ خزاں ہو گیا
نہیں باغِ کشمیر میں وہ بہار

نظر سے جو وہ گل نہاں ہو گیا
گیا کارواں ، اور میں راہ میں

غبارِ رہِ کارواں ہو گیا
گرا کٹ کے آنکھوں سے لختِ جگر

مرے صبر کا امتحاں ہو گیا
بڑھا اور اک دشمن جاںِ ستاں

دھواں آہ کا آسماں ہو گیا
ستم اس غضب کا خزاں نے کیا

بیاباں مرا بوستاں ہو گیا
ہوئی غم کی عادت کچھ ایسی مجھے

کہ غم مجھ کو آرامِ جاں ہو گیا
کسی نوجواں کی جدائی میں قد

جوانی میں مثلِ کماں ہو گیا
جدائی میں نالاں ہو بلبل نہ کیوں

وہ گل زیبِ باغِ جناں ہو گیا
وہ سرخی ہے اشکِ شفق رنگ میں

حریف میٔ ارغواں ہو گیا
بنایا تھا ڈر ڈر کے جو آشیاں

وہی نذرِ برقِ تپاں ہو گیا
کروں ضبط اے ہم نشیںکس طرح

کہ ہر اشک طوفاں نشاں ہو گیا
غضب ہے غلامِ حسن کا فراق

کہ جینا بھی مجھ کو گراں ہو گیا
دیا چن کے وہ غم فلک نے اسے
کہ مقبلؔ سراپا فغاں ہو گیا

۱ -     مخزن ، جولائی ۱۹۰۲ء

0 comments:

Post a Comment