اقبال نے یہ نظم فروری ۱۸۹۶ء میں انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور کے ایک اجلاس میں پڑھی تھی
کیا تھا گردشِ ایام نے مجھے محزوں
بدن میں جان تھی جیسے قفس میں صیدِ زبوں
چڑھائی فوجِ الم کی ہوئی تھی کچھ ایسی
علم خوشی کا مرے دل میں ہو گیا تھا نگوں
کیا تھا کوچ جو دل سے خوشی کی فوجوں نے
لگائے خیمہ تھے واں رنج کے جنود و قشوں
غم و الم نے جگر میں لگائی تھی اک آگ
بنا ہوا تھا مرا سینہ رشکِ صد کانوں
زبسکہ غم نے پریشاں کیا ہوا تھا مجھے
یہ فکر مجھ کو لگی تھی کہ ہو نہ جائے جنوں
جو سامنے تھی مرے قوم کی بری حالت
امڈ گیا مری آنکھوں سے خون کا سیحوں
انہی غموں میں مگر مجھ کو اک صدا آئی
کہ بیت قوم کی اصلاح کے ہوئے موزوں
پئے مریض یہ اک نسخۂ مسیحا تھا
کہ جس کو سن کے ہوا خرّمی سے دل مشحوں
غبار دل میں جو تھا کچھ فلک کی جانب سے
دبے اسی میں غم و رنج ، صورتِ قاروں
ہزار شکر کہ اک انجمن ہوئی قائم
یقیں ہے راہ پہ آئے گا طالعِ واژوں
ملے گا منزلِ مقصود کا پتا ہم کو
خدا کا شکر کہ جس نے دیے یہ راہ نموں
ہِلال وار اگر منہ میں دو زبانیں ہوں
ادا نہ پھر بھی ہو شکرِ خدائے ’’کن فیکوں‘‘
مثال شانہ اگر میری سو زبانیں ہوں
نہ طے ہو زلفِ رہِ شکر ایزد بے چوں
چلی نسیم یہ کیسی کہ پڑ گئی ٹھنڈک
چمن ہوئی مرے سینے میں نارِ سوزِ دروں
یہ کیا خوشی ہے کہ دل خود بخود یہ کہتا ہے
بعید رنج سے اور خرّمی سے ہوں مقروں
خوشی نے آ کے خدا جانے کیا کہا اس سے
اچھل رہا ہے مثالِ تموّجِ جیحوں
کرم سے اس کے وہ صورت فلاح کی نکلی
کہ حصنِ قوم ہر اک شر سے ہو گیا مصئوں
خدا نے ہوش دیا ، متفق ہوئے سارے
سمجھ گئے ہیں تری چال گنبدِ گردوں!
چراغِ عقل کو روشن کیا ہے ظلمت میں
ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا دُرِ مکنوں
مزا تو جب ہے کہ ہم خود دکھائیں کچھ کر کے
جو مرد ہے ، نہیں ہوتا ہے غیر کا ممنوں
بڑھے یہ بزم ترقی کی دوڑ میں یا رب
کبھی نہ ہو قدمِ تیز آشنائے سکوں
اسی سے ساری امیدیں بندھی ہیں اپنی کہ ہے
وجود اس کا پئے قصرِ قوم ، مثلِ ستوں
دعا یہ تجھ سے ہے یا رب کہ تاقیامت ہو
ہماری قوم کا ہر فرد قوم پر مفتوں
جو دوڑ کے لیے میدانِ علم میں جائیں
سبھوں سے بڑھ کے رہے ان کے فہم کا گلگوں
کچھ ان کا شوق ، ترقی کا حد سے بڑھ جائے
ہماری قوم پہ یا رب وہ پھونک دے افسوں
دکھائیں فہم و ذکا و ہنر یہ اوروں کو
زمانے بھر کے یہ حاصل کریں علوم و فنوں
جو تیری قوم کا دشمن ہو اس زمانے میں
اسے بھی باندھ لے اقبالؔ! صورت مضموں
بدن میں جان تھی جیسے قفس میں صیدِ زبوں
چڑھائی فوجِ الم کی ہوئی تھی کچھ ایسی
علم خوشی کا مرے دل میں ہو گیا تھا نگوں
کیا تھا کوچ جو دل سے خوشی کی فوجوں نے
لگائے خیمہ تھے واں رنج کے جنود و قشوں
غم و الم نے جگر میں لگائی تھی اک آگ
بنا ہوا تھا مرا سینہ رشکِ صد کانوں
زبسکہ غم نے پریشاں کیا ہوا تھا مجھے
یہ فکر مجھ کو لگی تھی کہ ہو نہ جائے جنوں
جو سامنے تھی مرے قوم کی بری حالت
امڈ گیا مری آنکھوں سے خون کا سیحوں
انہی غموں میں مگر مجھ کو اک صدا آئی
کہ بیت قوم کی اصلاح کے ہوئے موزوں
پئے مریض یہ اک نسخۂ مسیحا تھا
کہ جس کو سن کے ہوا خرّمی سے دل مشحوں
غبار دل میں جو تھا کچھ فلک کی جانب سے
دبے اسی میں غم و رنج ، صورتِ قاروں
ہزار شکر کہ اک انجمن ہوئی قائم
یقیں ہے راہ پہ آئے گا طالعِ واژوں
ملے گا منزلِ مقصود کا پتا ہم کو
خدا کا شکر کہ جس نے دیے یہ راہ نموں
ہِلال وار اگر منہ میں دو زبانیں ہوں
ادا نہ پھر بھی ہو شکرِ خدائے ’’کن فیکوں‘‘
مثال شانہ اگر میری سو زبانیں ہوں
نہ طے ہو زلفِ رہِ شکر ایزد بے چوں
چلی نسیم یہ کیسی کہ پڑ گئی ٹھنڈک
چمن ہوئی مرے سینے میں نارِ سوزِ دروں
یہ کیا خوشی ہے کہ دل خود بخود یہ کہتا ہے
بعید رنج سے اور خرّمی سے ہوں مقروں
خوشی نے آ کے خدا جانے کیا کہا اس سے
اچھل رہا ہے مثالِ تموّجِ جیحوں
کرم سے اس کے وہ صورت فلاح کی نکلی
کہ حصنِ قوم ہر اک شر سے ہو گیا مصئوں
خدا نے ہوش دیا ، متفق ہوئے سارے
سمجھ گئے ہیں تری چال گنبدِ گردوں!
چراغِ عقل کو روشن کیا ہے ظلمت میں
ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا دُرِ مکنوں
مزا تو جب ہے کہ ہم خود دکھائیں کچھ کر کے
جو مرد ہے ، نہیں ہوتا ہے غیر کا ممنوں
بڑھے یہ بزم ترقی کی دوڑ میں یا رب
کبھی نہ ہو قدمِ تیز آشنائے سکوں
اسی سے ساری امیدیں بندھی ہیں اپنی کہ ہے
وجود اس کا پئے قصرِ قوم ، مثلِ ستوں
دعا یہ تجھ سے ہے یا رب کہ تاقیامت ہو
ہماری قوم کا ہر فرد قوم پر مفتوں
جو دوڑ کے لیے میدانِ علم میں جائیں
سبھوں سے بڑھ کے رہے ان کے فہم کا گلگوں
کچھ ان کا شوق ، ترقی کا حد سے بڑھ جائے
ہماری قوم پہ یا رب وہ پھونک دے افسوں
دکھائیں فہم و ذکا و ہنر یہ اوروں کو
زمانے بھر کے یہ حاصل کریں علوم و فنوں
جو تیری قوم کا دشمن ہو اس زمانے میں
اسے بھی باندھ لے اقبالؔ! صورت مضموں
۱- کشمیری میگزین مارچ ۱۹۰۹ء
0 comments:
Post a Comment