Tuesday, September 8, 2015

پنجۂ فولاد

(منشی محمدالدین فوق کے ہفتہ وار اخبار کے متعلق جو ۱۹۰۱ء میں جاری ہوا تھا۔)
’’پنجۂ فولاد‘‘ اک اخبار ہے

جس سے سارا ہند واقف کار ہے
دفترِ اخبار ہے لاہور میں

جس کا کوچہ مثلِ کوئے یار ہے
ہے روش اس کی پسندِ خاص و عام

واہ وا کیا معتدل اخبار  ہے
غیر سے نفرت نہ اپنوں سے بگاڑ

اپنے بیگانے کا ہر دم یار ہے
سطر سطر اس کی مفیدِ ملک و قوم

کوئی کہہ دے یہ خبر بے کار ہے
دید کے قابل نہ ہو کیوں’’بزمِ فوق‘‘

شمع اس محفل کی یہ اخبار ہے
’’ضامن صحت‘‘ کا ایسا ہے عمل

وہ ضمانت کے لیے تیار ہے
ہے ’’تجارت‘‘ کا بھی کالم کیا مفید

یوسفِ معنی کا یہ بازار ہے
وہ ’’لطائف‘‘ ہیں کہ پڑھتے ہی جنھیں

لوٹنے میں دل کبوتر وار ہے
کیوں نہ نظم و نثر کا چرچا رہے

جب اڈیٹر ناظم و نَثّار ہے
’’سیٹلمنٹ آفس‘‘ کا بھی ہے بندوبست

شاہد ان دعووں کا خود اخبار ہے
ہے مدلّل رائے اس اخبار کی

یہ زبوں تر کفر سے انکار ہے
رائے زن اس سے نہیں بڑھ کر کوئی

منصفوں کو اس کا آپ اقرار ہے
جتنے ہیں ہمعصر دیکھیں غور سے

فقرے فقرے سے ٹپکتا پیار ہے
تین رائج سکے قیمت سال کی

ایسا سستا بھی کوئی اخبار ہے؟
اور پھر انعام میں ناول ہیں مفت

واہ کیا سودا ہے کیا بیوپار ہے
آٹھویں دن حاضری لے لیجیے

تابعِ فرمان خدمت گار ہے
کیجیے گا آ کے اس گلشن کی سیر

ایک گلشن رشکِ صد گلزار ہے
رنگِ آزادی ہے ہر مضمون میں

سرو کا بوٹا بھی میوہ دار ہے
کون ہے اس بانکے پرچے کا مدیر

بات یہ بھی قابلِ اظہار ہے
لیجیے مجھ سے جواب مختصر

یہ معمّا ہے کہ جو دشوار ہے
نام ہے اس کا محمد دین فوق

عمر چھوٹی ہے مگر ہشیار ہے
شوق ہے مضموں نویسی کا اسے

طبع ہے یا ابرِ گوہر بار ہے
گشت کے عالم میں دیکھا تھا اسے

آدمی ہشیار واقف کار ہے

۱ -     کشمیری گزٹ ، جون ۱۹۰۳ء

0 comments:

Post a Comment