Tuesday, September 8, 2015

شہد کی مکھّی


اس پھول پہ بیٹھی کبھی اس پھول پہ بیٹھی
بتلائو تو کیا ڈھونڈتی ہے شہد کی مکھّی؟
کیوں آتی ہے ، کیا کام ہے گلزار میں اس کا
یہ بات جو سمجھائو تو سمجھیں تمہیں دانا
چہکارتے پھرتے ہیں جو گلشن میں پرندے
کیا شہد کی مکھّی کی ملاقات ہے ان سے؟
عاشق ہے یہ قمری کی کہ بلبل پہ ہے شیدا؟
یا کھینچ کے لاتا ہے اسے سیر کا چسکا؟
دل باغ کی کلیوں سے تو اٹکا نہیں اس کا؟
بھاتا ہے اسے ان کے چٹکنے کا تماشا؟
سبزے سے ہے کچھ کام کہ مطلب ہے صبا سے
یا پیار ہے گلشن کے پرندوں کی صدا سے؟
بھاتا ہے اسے پھول پہ بلبل کا چہکنا؟
قمری کا ویا سرو پہ بیٹھے ہوئے گانا؟

پیغام کوئی لاتی ہے بلبل کی زبانی؟
کہتی ہے ویا پھول کے کانوں میں کہانی؟
کیوں باغ میں آتی ہے یہ بتلائو تو جانیں
کیا لینے کو آتی ہے ؟ یہ سمجھائو تو جانیں
بے وجہ تو آخر کوئی آنا نہیں اس کا
ہشیار ہے مکھّی ، اسے غافل نہ سمجھنا
بے ُسود نہیں باغ میں اس شوق سے اڑنا
کچھ کھیل میں یہ وقت گنواتی نہیں اپنا
کرتی نہیں کچھ کام اگر عقل تمہاری
ہم تم کو بتاتے ہیں ، سنو بات ہماری
کہتے ہیں جسے شہد وہ اک طرح کا رس ہے
آوارہ اسی چیز کی خاطر یہ مگس ہے
رکھّا ہے خدا نے اسے پھولوں میں چھپا کر
مکھّی اسے لے جاتی ہے چھتّے میں اٹھا کر
ہر پھول سے یہ چوستی پھرتی ہے اسی کو
یہ کام بڑا ہے ، اسے بے ُسود نہ جانو
مکھّی یہ نہیں ہے ، کوئی نعمت ہے خدا کی
ملتا نہ ہمیں شہد ، یہ مکھّی جو نہ ہوتی
خود کھاتی ہے ، اوروں کو کھلاتی ہے یہ مکھّی
اس شہد کو پھولوں سے اڑاتی ہے یہ مکھّی
انسان کی ، یہ چیز غذا بھی ہے دوا بھی
قوّت ہے اگر اس میں تو ہے اس میں شفا بھی
رکھتے ہو اگر ہوش تو اس بات کو سمجھو
تم شہد کی مکھّی کی طرح علم کو ڈھونڈو
یہ علم بھی اک شہد ہے اور شہد بھی ایسا
دنیا میں نہیں شہد کوئی اس سے مصفّا
ہر شہد سے جو شہد ہے میٹھا ، وہ یہی ہے
کرتا ہے جو انساں کو توانا ، وہ یہی ہے
یہ عقل کے آئینے کو دیتا ہے صفائی
یہ شہد ہے انساں کی ، وہ مکھّی کی کمائی
سچ سمجھو تو انسان کی عظمت ہے اسی سے
اس خاک کے پتلے کو سنوارا ہے اسی نے
پھولوں کی طرح اپنی کتابوں کو سمجھنا
چسکا ہو اگر تم کو بھی کچھ علم کے رس کا
 
۱ -     بیاضِ اعجاز ص ۳۳۸

0 comments:

Post a Comment