Tuesday, September 8, 2015

دین و دنیا

دہلی دروازے کی جانب ایک دن جاتا تھا میں
شام کو گھر بیٹھے رہنا قابلِ الزام ہے
خضر صورت مولوی صاحب کھڑے تھے اک وہاں
ہم مسلمانوں میں ایسی مولویّت عام ہے
وعظ کہتے تھے ’’کوئی مسلم نہ انگریزی پڑھے
کفر ہے آغاز اس بولی کا ، کفر انجام ہے‘‘
میں نے یہ سن کر کیا ان کو مخاطب اس طرح
’’آپ کا ہونا بھی اپنی گردشِ ایّام ہے
کیوں مسلمانوں کی کشتی کو الٹ دیتے نہیں
آپ کے دل میں جو اتنی کاوشِ انجام ہے
کفر کی تعریف میں کہتے ہیں انگریزی ہے شرط
آپ کی منطق بھی حضرت قابلِ انعام ہے
پھر اسی پر اکتفا کرتے نہیں ، کہتے ہیں یہ
مذہبِ منصور ہے ، مقبولِ خاص و عام ہے
واہ کیا کہنا ہے ، کیا تاثیر ہے ، کیا وعظ ہے
آپ کی ہر بات گویا بمبئی کا آم ہے
ادّعائے حُبّ دیں ہے آپ کو اس وعظ پر
ایسی حُب کو لام کی تشدید سے سَلّام ہے
مسلموں کو فکرِ دیں ہو فکرِ دنیا کچھ نہ ہو
کچے حنظل کی طرح یہ بھی خیالِ خام ہے
بندہ پرور اب تو ہم چالوں میں آنے کے نہیں
آپ کی دیں داریوں کا راز طشت ازبام ہے
خوب قرآں کو بنایا دام تزویر آپ نے
کامیابی کیوں نہ ہو حضرت یہ خاصا دام ہے
صدقے جائوں فہم پر دنیا نہیں دیں سے الگ
یہ تو اک پابندیٔ احکامِ دیں کا نام ہے
بندہ پرور بندگی اپنی یہیں سے ہو قبول
وعظ اب ایسا صدائے مرغِ بے ہنگام ہے
ان سے پوچھو ہند ہی کیا رہ گیا تھا آپ کو
اور بھی تو دیس ہیں آخر جہاں آرام ہے
باندھیے بستر کہ ان وعظوں کی خاطر سامنے
انڈیمن ہے ، چین ہے ، جاپان ہے ، آسام ہے
جب کہا حضرت!کہ ہیں اب ڈھنگ ہمدردی کے اور
دین کی تائید انگریزی پڑھوں کا کام ہے‘‘
جوش میں کیا آئے اک سوڈے کی بوتل کُھل گئی
گالیوں کے بِس سے منہ ان کا چھلکتا جام ہے
ایسے دینداروں سے تنگ آئے ہیں آخر کیا کریں
آج سنتے ہیں کہ جیمسٹ (۱) جی کے ہاں ’’لیلام‘‘ ہے
آپ کی تعریف لکھنی ہے قلم کو اس طرح
جس طرح گھوڑے کے حق میں سنکھیا ، بادام ہے
موچی دروازے میں ہیں فخرِ اطّبائے جہاں
ان سے امّید شفا لیکن خیالِ خام ہے
بیچتے ہیں برف کی قفلی دسمبر میں چہ خوش
ایسے دیںداروں کا سر بے عین و قاف و لام ہے
نظم چھپوانے جو صدیقی پریس میں ، میں گیا
مطبعِ مطبوع ہے ، مشہور خاص و عام ہے
ہیں یہاں اک دوست کالج کے زمانے سے مرے
آپ کے دم سے پریس کی عزّت و اکرام ہے
نام محی الدین ہے کرتے ہیں وہ احیائے دیں
آپ کا دینی کتابوں کی اشاعت کام ہے
میں نے یہ پوچھا کہ حضرت آپ کو فرصت تو ہے
نظم چھپوانی ہے مجھ کو اک ذرا سا کام ہے
دکھ نہ جائے دیکھنا شاعر کا دل انکار سے
یہ وہ تلخی ہے کہ مثلِ تلخیِ دُشنام ہے
آج کل لوگوں کو ہے انکار کی عادت بہت
نام بے چارے حسینوں کا یونہی بدنام ہے
ہنس کے فرمانے لگے یہ انجمن کا کام ہے
انجمن کاکام کیا ہے خدمتِ اسلام ہے
ہم کریں اس کام کو سو کام اپنے چھوڑ کر
آپ کیا سمجھے ہیں حضرت یہ بھی کوئی کام ہے
چھاپ دینا نظم کا مجھ پر گراں کوئی نہیں
خدمتِ دیں اپنے دل کو جامۂ احرام ہے
ہو اگر فرصت نہ مجھ کو اور سے چھپوا کے دوں
ہو نہ اتنا بھی تو جھوٹا دعویِ اسلام ہے
نظم ہے آخر کوئی طاعون کا ٹیکا نہیں
چھاپنا چاہے جو کوئی دس منٹ کا کام ہے
بات یہ چھوٹی سی ہے لیکن مروّت کو تو دیکھ
حق تو یہ ہے جوشِ ہمدردی اسی کا نام ہے
یہ مرّوت ہو عزیزوں کی نگاہوں میں اگر
پھر وہی ہم ہیں وہی شوکت وہی اسلام ہے
اس کہانی کے بیاں سے تھی غرض اک اور ہی
میرے ہر مصرع میں مخفی صنعتِ ایہام ہے
اس طرح دنیا کا بندہ بھی نہ ہونا چاہیے
ایسی دنیا ہو تو نورالدین ، گنگارام ہے
چاہیے ہر کام میں ہو دین کی خدمت کا پاس
حضرتِؐ مدفونِ یثرب کا یہی پیغام ہے
روح ہے جب تک بدن میں عشق ہم جنسوں سے ہو
عشق بھی اک مذہبِ اسلام ہی کا نام ہے
ہے دماغوں کی لطافت کچھ اسی کا سوز و ساز
عشق اس دنیا کی انگیٹھی میں عودِ خام ہے
سر جھکائے ایک دن جاتا تھا ٹکسالی کو میں
دائیں بائیں گُھورنے سے آنکھ کو کیا کام ہے
آ رہا تھا میرے پیچھے کوئی یہ کہتا ہوا
آہ یہ دنیا سراپا مایۂ آلام ہے
بابو جی درویش ہوں میں ہو چکا آٹا مرا
فکر ہے فردا کی اور دل ہے کہ بے آرام ہے
علمِ دیں کا شوق ہے دنیا سے مطلب کچھ نہیں
دال دل کو اپنے دالِ دین سے ادغام ہے
گائوں سے یاں کھینچ لایا ہے مجھے پڑھنے کا شوق
علم دیں کے ساتھ اپنے دل کو نسبت تام ہے
یہ کہا اور جھٹ دکھا دی اک پرانی سی کتاب
میں نے یہ سمجھا کوئی ڈگری ہے یا اسٹام ہے
میں نے یہ سن کر کہا دُکھتے ہوئے دل سے اسے
واہ کیا نیّت ہے ، کیا اوقات ، کیا اسلام ہے
خوار ہے تو جیسے اسٹیشن پہ ہو بلٹی کا مال
تیری دیںداری کا یہ ذلّت ہی کیا انجام ہے
نیچری مجھ کو سمجھ کر ہو گئے کافور آپ
آج کل سچی نصیحت کا یہی انعام ہے
الغرض دیں ہو تو اس کے ساتھ کچھ دنیا بھی ہو
ورنہ روزِ روشنِ اسلام کی پھر شام ہے
دین ، دنیا کا محافظ ہے اگر سمجھے کوئی
جیسے بچے کے گلے میں ناخنِ ضرغام ہے
یوں تو اس دنیائے دوں میں سیکڑوں امراض ہیں
پر بخیلوں کے لیے چندہ بھی اک سرسام ہے
چندہ جب لینے گئے کہلا دیا بیمار ہیں
ٹل گئے جس دم کہا پہلے سے کچھ آرام ہے
ذکر جب اقبال کا آیا تو بول اٹھا کوئی
رہتا ہے بھاٹی میں اک دیوانۂ اصنام ہے
 
۱ -     جیمسٹ جی ایک پارسی تھا جس کا نیلام گھر اس زمانے میں بہت مشہور تھا۔

0 comments:

Post a Comment