Tuesday, September 8, 2015

دربارِ بہاول پور

بزمِ انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر ، زمیں
آج رفعت میں ثریّا سے بھی ہے اوپر زمیں
اوج میں بالا فلک سے ، مہر سے تنویر میں
کیا نصیبہ ہے رہی ہر معرکے میں ور زمیں
انتہائے نور سے ہر ذرّہ اختر خیز ہے
مہر و ماہ و مشتری صیغے ہیں اور مصدر زمیں
لے کے پیغامِ طرب جاتی ہے سوئے آسماں
اب نہ ٹھہرے گی کبھی اطلس کے شانوں پر زمیں
شوق بِک جانے کا ہے فیروزئہ گردوں کو بھی
مول لیتی ہے لٹانے کے لیے گوہر زمیں
بسکہ گلشن ریز ہے ہر قطرئہ ابرِ بہار
ہے شگفتہ صورتِ طبعِ سخن گستر زمیں
برگِ گل کی رگ میں ہے جنبش رگِ جاں کی طرح
ہے امیں اعجازِ عیسیٰ کی کہ افسوں گر زمیں
خاک پر کھینچیں جو نقشہ مرغِ بسم اللہ کا
قوتِ پرواز دے دے حرفِ قُم کہہ کر زمیں
صاف آتا ہے نظر صحنِ چمن میں عکسِ گل
بن گئی آپ اپنے آئینے کی روشن گر زمیں
اس قدر نظّارہ پرور ہے کہ نرگس کے عوض
خاک سے کرتی ہے پیدا چشمِ اسکندر زمیں
امتحاں ہو اس کی وسعت کا جو مقصودِ چمن
خواب میں سبزے کے آئے آسماں بن کر زمیں
چاندنی کے پھول پر ہے ماہِ کامل کا سماں
دن کو ہے اوڑھے ہوئے مہتاب کی چادر زمیں
آسماں کہتا ہے ظلمت کا جو ہو دامن میں داغ
دھوئے پانی چشمۂ خورشید سے لے کر زمیں
چومتی ہے ، دیکھنا جوشِ عقیدت کا کمال
پائے تختِ یادگارِ عّمِ پیغمبرؐ زمیں
زینت مسند ہوا عبّاسیوں کا آفتاب
ہو گئی آزادِ احسانِ شہِ خاور زمیں
یعنی نوابِ بہاول خاں ، کرے جس پر فدا
بحر موتی ، آسماں انجم ، زر و گوہر زمیں
جس کے بدخواہوں کی شمعِ آرزو کے واسطے
رکھتی ہے آغوش میں صد موجۂ صرصر زمیں
جس کی بزمِ مسند آرائی کے نظّارے کو آج
دل کے آئینے سے لائی دیدئہ جوہر زمیں
فیضِ نقشِ پا سے جس کے ہے وہ جاں بخشی کا ذوق
شمع سے لیتی ہے پروانے کی خاکستر زمیں
جس کی راہِ آستاں کو حق نے وہ رتبہ دیا
کہکشاں اس کو سمجھتا ہے فلک ، محور زمیں
آستانہ جس کا ہے اس قوم کی امّیدگاہ
تھی کبھی جس قوم کے آگے جبیں گستر زمیں
جس کے فیض پا سے ہے شفّاف مثلِ آئنہ
چشمِ اعدا میں چھپا کر خاک کا عنصر زمیں
جس کے ثانی کو نہ دیکھے مدّتوں ڈھونڈے اگر
ہاتھ میں لے کر چراغِ لالۂ احمر زمیں
وہ سراپا نور اک مطلع خطابیّہ پڑھوں
جس کے ہر مصرع کو سمجھے مطلعِ خاور زمیں
اے کہ فیضِ نقشِ پا سے تیرے گل برسر زمیں
اے کہ تیرے دم قدم سے خسروِ خاور زمیں
اے کہ تیرے آستاں سے آسماں انجم بہ جیب
اے کہ ہے تیرے کرم سے معدنِ گوہر زمیں
لے کے آئی ہے برائے خطبۂ نامِ سعید
چوبِ نخلِ طور سے ترشا ہوا منبر زمیں
تیری رفعت سے جو یہ حیرت میں ہے ڈوبا ہوا
جانتی ہے مہر کو اک مہرئہ ششدر زمیں
ہے سراپا طور عکسِ روئے روشن سے ترے
ورنہ تھی بے نور مثلِ دیدئہ عبہر زمیں
مایۂ نازش ہے تو اس خانداں کے واسطے
اب تلک رکھتی ہے جس کی داستاں ازبر زمیں
ہو ترا عہدِ مبارک صبحِ حکمت کی نمود
وہ چمک پائے کہ ہو محسودِ ہر اختر زمیں
سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں بغداد کا
ہند میں پیدا ہو پھر عبّاسیوں کی سرزمیں
محو کر دے عدل تیرا آسماں کی کج روی
کلّیات دہر کے حق میں بنے مسطر زمیں
صلح ہو ایسی ، گلے مل جائیں ناقوس و اذاں
ساتھ مسجد کے رکھے بت خانۂ آزر زمیں
نامِ شاہنشاہِ اکبر زندئہ جاوید ہے
ورنہ دامن میں لیے بیٹھی ہے سو قیصر زمیں
بادشاہوں کی عبادت ہے رعیّت پروری
ہے اسی اخلاص کے سجدے سے قائم ہر زمیں
ہے مروّت کی صدف میں گوہرِ تسخیر دل
یہ گہر وہ ہے کرے جس پر فدا کشور زمیں
حکمراں مستِ شرابِ عیش و عشرت ہو اگر
آسماں کی طرح ہوتی ہے ستم پرور زمیں
عدل ہو مالی اگر اس کا یہی فردوس ہے
ورنہ ہے مٹی کا ڈھیلا ، خاک کا پیکر زمیں
ہے گل و گلزار محنت کے عرق سے سلطنت
ہو نہ یہ پانی تو پھر سر سبز ہو کیوں کر زمیں
چاہیے پہرا دماغِ عاقبت اندیش کا
بے دری میں ہے مثالِ گنبدِ اخضر زمیں
لامکاں تک کیوں نہ جائے گی دعا اقبال کی
عرش تک پہنچی ہے جس کے شعر کی اڑ کر زمیں
خانداں تیرا رہے زیبندئہ تاج و سریر
جب تلک مثلِ قمر کھاتی رہے چکّر زمیں
مسندِ احباب رفعت سے ثریّا بوس ہو
خاک رختِ خواب ہو اعدا کا اور بستر زمیں
تیرے دشمن کو اگر شوقِ گل و گلزار ہو
باغ میں سبزے کی جا پیدا کرے نشتر زمیں
ہو اگر پنہاں تری ہیبت سے ڈر کر زیرِ خاک
مانگ کر لائے شعاعِ مہر سے خنجر زمیں
پاک ہے گردِ غرض سے آئنہ اشعار کا
جو فلک رفعت میں ہو ، لایا ہوں وہ چن کر زمیں
تھی تو پتھر ہی مگر مدحت سرا کے واسطے
ہو گئی ہے گل کی پتّی سے بھی نازک تر زمیں

0 comments:

Post a Comment