Tuesday, September 8, 2015

اشکِ خوں

اے آہ آج برقِ سرِ کوہسار ہو
یا تیر بن کے میرے کلیجے سے پار ہو
ہو ٹکڑے ٹکڑے ٹوٹ کے اے رشتہ ٔ نفس
اے مرغِ روح ، بازِ اجل کا شکار ہو
اے دامنِ دریدۂ پیراہنِ حیات
ہاں آج زیبِ دیدۂ خونابہ بار ہو
پھرتے ہیں ڈھونڈتے اجَلِ ناگہاں کو ہم
ہاں اے حیاتِ خضر نگاہوں میں خوار ہو
اے افسری کے تاج ، گریباں کو چاک کر
اے کرسیِ طلائے شہی سوگوار ہو
اے دل اگر جفا طلبی کا مذاق ہے
مرہونِ تلخیِ ستمِ روزگار ہو
پسنے کا جب مزا ہے کہ اے آسیائے غم
پِس پِس کے جان اپنی مثالِ غبار ہو
مّیت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کے لیے
اقبال اُڑ کے خاکِ سرِ رہ گزار ہو
مدت کے بعد تجھ کو ملے ہیں غمِ فراق
ہم تجھ پہ صدقے جائیں ، تو ہم پر نثار ہو
چلتے رہِ حیات ، مگر گھات میں خوشی
کونے لگی ہوئی نہ سرِ رہِ گزار ہو
آئی ادھر نشاط ، ادھر غم بھی آ گیا
کل عید تھی تو آج محرّم بھی آ گیا

بندِ دوم
ہاں اے ہلالِ عید خدا کی قسم تجھے
خواہانِ عیش کیا نظر آتے ہیں ہم تجھے!
اے جامِ بزمِ عید مقّدر یہ تھا ترا
لبریز کرنے آئے میٔ اشکِ غم تجھے
ایسی گھڑی میں تیری افق پر ہوئی نمود
سمجھا نہ کوئی حلقۂ ماتم سے کم تجھے
ایمن تھے غم سے ہم مگر اے خنجرِ ستم
کرنے تھے ذبح طائرِ بامِ حرم تجھے
کھلتی ہے کچھ ہمارے مقّدر پہ یہ کجی
سجتا نہیں نظر میں ہماری یہ خم تجھے
تیغِ ستم سے بڑھ کے رہیں تیری تیزیاں
ہم اپنے لب سے مانگ کے دیتے ہیں دم تجھے
بیماریِ نشاط اگر ہے تو صبحِ غم
پڑھ کر کرے گی سورۂ والحشر دم تجھے
ہاں اے شعاعِ ماہِ شبِ اوّلِ طرب
دل جانتا ہے تیرِ کمانِ ستم تجھے
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا
دیتے ہیں نام ماہِ محرّم کا ہم تجھے
اے شامِ عید اپنے مہِ نو سے پوچھ لے
سمجھا ہوا ہوں صبحِ دیارِ عدم تجھے
کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ، ہوا کرے
اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے
بندِ سوم
قربان تیرے اے ستمِ روزگار آج
آنکھوں میں ہر نگہ بھی ہوئی اشک بار آج
اس روزِ رنج و غم سے تو آسان تھی یہی
محشر کی صبح ہو نہ گئی آشکار آج
دل کا تو ذکر کیا ہے کہ دل کا قرار بھی
سیماب کی طرح سے ہوا بے قرار آج
سوزِ الم نے جاں کو جلایا ہے اس طرح
کانونِ دل سے اٹھتے ہیں غم کے شرار آج
ناکامیوں نے اس کو سنا دی وہ کیا خبر
امّید دل میں پھرتی ہے پروانہ وار آج
ہاں اے دلِ حزیں الموں کا یہ دور ہے
ہو طوفِ شمعِ غم تجھے دیوانہ وار آج
مثلِ سموم تھی یہ خبر کس کی موت کی
گلزارِ دل میں اگنے لگے غم کے خار آج
پژمردہ ہو گیا گُلِ بستانِ افسری
خوں رو رہی ہے باغِ جہاں میں بہار آج
اقلیمِ دل کی آہ شہنشاہ چل بسی
ماتم کدہ بنا ہے دلِ داغدار آج
تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہِ دل
رخصت ہوئی جہان سے وہ تاجدار آج
فرماں نہ ہو دلوں پہ تو شانِ شہی نہیں
سونے کا تاج کوئی نشانِ شہی نہیں
بند چہارم
شاہی یہ ہے کہ اور کا غم چشمِ تر میں ہو
شاہنشہی پہ شانِ غریبی نظر میں ہو
شاہی یہ ہے کہ آنکھ میں آنسو ہوں اور کے
چِلّائے کوئی ، درد کسی کے جگر میں ہو
غم دل میں اور کا ہو خوشی دل میں اور کی
کوئی گرے ، شکست کسی کی کمر میں ہو
بے تابیاں جو اور کی ہوں اپنے دل میں ہوں
جو درد اور کا ہو وہ اپنے جگر میں ہو
پامالِ فکرِ غیر رہے تخت گاہ پر
آئے کسی پہ تیغ ، کسی کی سپر میں ہو
معمور ہو شرابِ محبت سے جامِ دل
جو دل میں ہو نہاں وہ نمایاں نظر میں ہو
جو بات ہو ، صدا ہو لبِ جبرئیل کی
تقدیر کی مراد دلِ دادگر میں ہو
ہو چشم معدلت کے ستارے کی روشنی
مانگے اماں عدو تو مروّت نظر میں ہو
شہرت کے آسمان پہ روشن ہو اس طرح
ہو مہر میں وہ نور ، نہ وہ ضَو قمر میں ہو
فرمان ہوں دلوں کی ولایت میں اس طرح
جس طرح نور رشتۂ تارِ نظر میں ہو
اے ہند تیری چاہنے والی گذر گئی
غم میں ترے کراہنے والی گذر گئی
بندِ پنجم
اے بحر ، حکمراں جو زمینوں کی تھی ، گئی
آغوشِ موج جس کے سفینوں کی تھی ، گئی
نہریں رواں ہوں خون کی چشمِ حباب سے
وہ آبرو جو تیرے خزینوں کی تھی ، گئی
دردِ اجل کی تاک بھی کیسی غضب کی تھی
انگشتری جو دل کے نگینوں کی تھی ، گئی
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایۂ خدا
اک غم گسار تیرے حزینوں کی تھی ، گئی
اے ہند جو فضیلتِ نسواں کی تھی دلیل
تیرے گھروں کی پردہ نشینوں کی تھی ، گئی
ہو سوگوار آج خواتینِ ہند تم
جو داستاں تمہارے شبینوں کی تھی ، گئی
خونابہ بار آج ہو اے چشمِ سلطنت
واقف جو تیرے سارے قرینوں کی تھی ، گئی
اے سالِ قرنِ۱ نو یہ ستم تو نے کیا کیا
عزت ذرا جو تیرے مہینوں کی تھی ، گئی
تو آج سر بہ خاک ہو سیّارئہ زمیں
رونق جو تیرے سارے مکینوں کی تھی ، گئی
صرفِ بکا ہے جانِ سلاطینِ روزگار
دہلیز جس کی عید جبینوں کی تھی ، گئی
ہو موت میں حیات ، ممات اس کا نام ہے
صدقے ہو جس پہ خضر ، وفات اس کا نام ہے
۱ -     نئی صدی کا پہلا سال
خ
بند ششم
جانِ نزار آکے لبوں پر اٹک گئی
آنکھوں سے خون بن کے تمنا ٹپک گئی
روزِ طرب جہاں میں سیہ پوش ہو گیا
اے روزگارِ غم تری قسمت چمک گئی
آئی جو یاس خنجرِ عریاں لیے ہوئے
ڈر کر امید ، گوشئہ دل میں دبک گئی
جادو نگاہ دیدۂ صیاد تھی کوئی
دیکھا جو آنکھ بھر کے تو بلبل پھڑک گئی
اے شمعِ بزمِ ماتمِ سلطانۂ جہاں
کیا تھی جھلک تری کہ ثریّا تلک گئی
ماتم بھی وہ دیا کہ ہزاروں میں ایک ہے
آنکھ اپنی انتخابِ فلک پر پھڑک گئی
لالی افق پہ آنکھ نے دیکھی جو شامِ عید
اک بات تھی کہ خونِ جگر کو کھٹک گئی
سمجھی ہے اپنے آپ کو آئی ہوئی اجل
لو میری خامشی سے قضا بھی بہک گئی
اے درد آ مرے چمنِ دل کی سیر کر
غم کی کلی ہوائے نفس سے چٹک گئی
اے دردِ جاں گداز خدا کے لیے نہ تھم
ہم بھی اٹھیں گے ساتھ جو تیری کسک گئی
ہر آنکھ ، دل بہ ریزشِ طوفاں نہادہ ہے
مژگانِ چشم کیا رگِ ابرِ کشادہ ہے
خ


بند ہفتم
ماتم میں آ رہے ہیں یہ ساماں کیے ہوئے
داغِ جگر کو شمعِ شبستان کیے ہوئے
تاریک ہو گیا ہے زمانہ مگر قضا
آ جائے غم کی شمع کو سوزاں کیے ہوئے
رکھتا ہوں طائرِ دلِ رنگیں نوا کو میں
پہلو کو غیرتِ چمنستاں کیے ہوئے
لکھتا ہوں شعر دیدۂ خوں بار سے مگر
کاغذ کو رشکِ بابِ گلستاں کیے ہوئے
ماتم میں لے گیا ہوں دلِ پاش پاش کو
آزادِ جاں گدازیٔ درماں کیے ہوئے
ہر زخمِ دل کو ماتمِ خاتونِ دھر میں
بیٹھے ہیں مستِ ذوقِ نمکداں کیے ہوئے
مغرب کے آسماں پہ چمکتی ہے تیغِ غم
جوہر کو راز دارِ رگِ جاں کیے ہوئے
لے اے عروسِ ہند تری آبرو گئی
آنکھوں کو اشکِ غم سے دُر افشاں کئے ہوئے
برطانیہ تو آج گلے مل کے ہم سے رو
سامانِ بحر ریزیِ طوفاں کیے ہوئے
بوتے ہیں نخلِ آہ کو باغِ جہاں میں ہم
ممنونِ آبِ دیدئہ گریاں کیے ہوئے
آہم چو سرو در چمن روزگار ماند
ایں مصرع بلند ز من یاد گار ماند
بند ہشتم
کیا منزلِ عدم کو ہمارا نفس گیا
یہ سب سے پہلے صورتِ بانگِ جرس گیا
ہاں اے ہجوم غم ترے قربان جائوں میں
اجڑا ہوا تھا شہر مرے دل کا ، بس گیا
ہو ہو کے پرزے خارِ غمِ سینہ سوز سے
تن سے نکل کے دامنِ موجِ نفس گیا
ایسا اثر ہے گریۂ آہن گداز سے
اشکوں کے ساتھ مل کے ہمارا قفس گیا
اٹھا وہ ابر گوشئہ مغرب سے شعلہ ریز
مشرق سے بڑھ کے ہند پہ آ کر برس گیا
صدمہ پڑا وہ آ کے کہ ٹوٹا ہے بند بند
کیا مرغِ روح توڑ کے اپنا قفس گیا
نکلا وہ مار صحنِ گلستانِ عیش سے
دل کو ، جگر کو ،سینے کو ، پہلو کو ڈس گیا
اے روز تو پہاڑ تھا یا غم کا روز تھا
دن بن کے تو چڑھا تھا پہ ہو کر برس گیا۱
لا گلشنِ عدم سے اسے اے سمومِ غم
بوئے گلِ اجل کو مرا جی ترس گیا
آنکھوں کی راہ کیوں نہ گیا بن کے جوئے خوں
دم بھی گیا تو لے کے یہ جی میں ہوس گیا
شہرہ ہوا جہاں میں یہ کس کی وفات کا
ہے ہر ورق سیاہ بیاضِ حیات کا
۱ -     غم کے باعث دن ، سال کے برابر ہوگیا
خ
بند نہم
ہاں بھولنا نہ موجۂ بادِ سحر کہیں
ہو ملکِ نیستی میں جو تیرا گذر کہیں
مانگی تھی ہم نے آج اجل کے لیے دعا
صدقے نہ ہو گیا ہو دعا پر اثر کہیں
ٹلتی نہیں ہے شورِ بکا سے اجل کبھی
اس تیغِ جاں ستاں کی نہیں ہے سپر کہیں
دونی تھی جن کی شان سے ہیروں کی آبرو
وہ آج کر گئے ہیں جہاں سے سفر کہیں
اے کوہِ نور تو نے تو دیکھے ہیں تاجور
دیکھا ہے اس طرح کا کوئی تاجور کہیں؟
دیتے ہیں تجھ کو دامنِ کہسار کی قسم
اس شان کا ملا ہے تجھے داد گر کہیں؟
بن کر چراغ سارے زمانے میں ڈھونڈنا
کہنا ہمیں بھی آئے جو ایسا نظر کہیں
جس کی ضیا سے آنکھ چکا چوند تھی تِری
دنیا میں اب نہیں وہ جبیں جلوہ گر کہیں
تو کیا کسی پہ گوہرِ جاں تک نثار تھے
پیدا جہاں میں ہوتے ہیں ایسے بشر کہیں
صورت تری ہے اشکِ جگر سوز کی طرح
قربان ہو نہ جائے ہماری نظر کہیں
ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو ، جنازا اسی کا ہے
بند دہم
پیغامِ خانہ سوزیِ دل بار بار دے
فرصت نہ دو گھڑی نفسِ شعلہ بار دے
زورِ جنوں میں جائے جو دشتِ عدم کو دل
پہلے قدم پہ جامۂ ہستی اُتار دے
پھونکا ہے غم کی آگ نے جانِ نزار کو
ہم کو تسلیّاں دلِ آشفتہ کار دے
جس کا دلوں پہ راج ہو مرتا نہیں کبھی
صدیاں ہزار گردشِ دوراں گزار دے
رہتا ہے دل میں صورتِ حرفِ نگیں وہ نام
شہرت جسے جہان میں پروردگار دے
وکٹوریہ نمرُد کہ نام نکو گذاشت
ہے زندگی یہی جسے پروردگار دے
اے غم کشانِ دُودۂ شاہی خدا تمہیں
اس دردِ جاں گزا میں شکیب و قرار دے
رفتار اس کے نقشِ قدم پر کرے نصیب
یہ مہر مادری کی تمہیں یادگار دے
اے باغِ ہند تیرا خیاباں بجائے گل
موتی مثالِ دامنِ ابرِ بہار دے
پژمردہ کر گئی ہے جو بادِ خزاں تجھے
صد نو بہارِ ناز تجھے روزگار دے
مرحوم کے نصیب ثوابِ جزیل ہو
ہاتھوں میں اپنے دامنِ صبرِ جمیل ہو

۱ -     پمفلٹ شائع کردہ مطبع مفید عام ، لاہور۱۹۰۱ئ

0 comments:

Post a Comment