Tuesday, September 8, 2015

خدا حافظ

منشی محبوب عالم کے یورپ روانہ ہونے پر

لیجے حاضر ہے مطلعِ رنگیں
جس پہ صدقے ہو شاہدِ تحسیں
سوئے یورپ ہوئے وہ راہ سپر

مفت میں ہو گیا ستم ہم پر
آنکھ اپنی ہے اشکِ خونیں سے

غیرتِ کاسۂ مئے احمر
فتحِ ملکِ ہنر کو جاتے ہیں

ہم رکابی کو آ رہی ہے ظفر
تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے

کھینچ کر لے چلا ہے ذوقِ نظر
فخرِ انساں کا ہے تلاشِ کمال

جستجو چاہیے مثالِ قمر
خوب تاڑا ہے سیر کا موقع

نکتہ بیں چاہیے نگاہِ بشر
سیرِ دریا میں ہیں ہزار مزے

جس کو دکھلائے خالقِ اکبر
وہ سرِ شام بحر کی موجیں

مہر کا وہ خرام پانی پر
وہ سمندر بساط کی صورت

اور وہ موجوں کا کھیلنا چوسر
اور وہ چاندنی کہ بحر جسے

اوڑھ لیتا ہے صورتِ چادر
دی خبر آپ نے یہ کیا ناگاہ

چپکے چپکے چبھو دیا نشتر
دوستوں کا فراق قاتل ہے

درد اٹھّا ہے صورتِ محشر
آنکھ میں ہیں ،نہیں رواں لیکن

اشک اپنے ہیں مثلِ آبِ گہر
جایے اور پھر کے آیے گا

صورتِ بوئے نافۂ اذفر
اس طرح راہ آنکھ دیکھے گی

جوں مؤذّن کو انتظارِ سحر
بزمِ یاراں رہے گی یوں خاموش

جیسے چپ چاپ شام کو ہوں شجر
سرِ مژگاں پہ آ گئے آنسو

نکل آیا جو دل میں تھا مضمر
مدحِ احباب فرضِ انساں ہے

لائوں اس کے لیے میں خامۂ زر
یاں خموشی گناہ ہے ایسی

جس طرح کفر ہجوِ پیغمبر
یہ سفر آپ کو مبارک ہو
یہ حضر آپ کو مبارک ہو
آپ ہیں محوِ سیرِ دریائی

چشمِ احباب غم سے بھرآئی
رقص موجوں کا جاَکے دیکھیں گے

بھیج دی ہے جہاز کو سائی
لطف اخبار کا جب آتا ہے

بزمِ یورپ سے ہو شناسائی
دم رخصت وہ گرم جوشی ہے

آتشِ عشق جس سے شرمائی
کسی کونے میں تاکتی ہے اسے

گرمیٔ آفتابِ جولائی
لب سے نکلا کہ فی امان اللہ

فخر کرتی ہے تابِ گویائی
نشۂ دوستی چڑھا ایسا

شعر میں بھی ہے رنگِ صہبائی
آب آئینے پر گراتے ہیں

’’بسلامت روی و باز آئی‘‘
عزمِ پنجاب ہو مگر جلدی

کہ نہیں طاقتِ شکیبائی
ہو نہ محبوبؔ سے جدا کوئی

اے رگِ جانِ عالم آرائی۱
الغیاث ! اے معلّمِ ثالث۲

دردِ فرقت سے جان گھبرائی
ایسی پڑیا کوئی عنایت ہو

دل سے اٹّھے کہ وہ شفا پائی
آ گیا بحر چپ رہو اقبالؔ

خامہ کرتا ہے عذرِ بے پائی
توبہ کر لی ہے شعر گوئی سے

اس کی قیمت پڑی نہ اک پائی
شعر سے بھاگتا ہوں میں کوسوں

ہے یہ توحید اور میں عیسائی
’’آں چہ دانا کند ، کند ناداں

لیک بعد از ہزار رسوائی‘‘
دوستوں کی رہے دعا حافظ
ہو سفر میں ترا خدا حافظ

۱ -     مولوی محبوب عالم
۲ -     مشہور فلسفی اور طبیب بوعلی سینا

۳ -     سرودِ رفتہ - ص ۸۳

0 comments:

Post a Comment