Tuesday, September 8, 2015

جہاں تک ہو سکے نیکی کرو!

بچوں کے لیے
کہتے ہیں ایک سال نہ بارش ہوئی کہیں
گرمی سے آفتاب کی تپنے لگی زمیں
تھا آسمان پر نہ کہیں ابر کا نشاں
پانی ملا نہ جب تو ہوئیں خشک کھیتیاں
لالے پڑے تھے جان کے ہر جاندار کو
اجڑے چمن ، ترستے ترستے بہار کو
منہ تک رہی تھی خشک زمیں آسمان کا
امّید ساتھ چھوڑ چکی تھی کسان کا
بارش کی کچھ امید نہ تھی اس غریب کو
یہ حال تھا کہ جیسے کوئی سوگوار ہو
اک دن جو اپنے کھیت میں آکر کھڑا ہوا
پودوں کا حال دیکھ کے بے تاب ہو گیا
ہر بار آسماں کی طرف دیکھتا تھا وہ
بارش کے انتظار میں گھبرا رہا تھا وہ
ناگاہ ایک ابر کا ٹکڑا نظر پڑا
لاتی تھی اپنے ساتھ اڑا کر جسے ہوا
پانی کی ایک بوند نے تاکا اِدھر اُدھر
بولی وہ اس کسان کی حالت کو دیکھ کر
ویران ہو گئی ہے جو کھیتی غریب کی
ہے آسمان پر نظر اس بدنصیب کی
دل میں یہ آرزو ہے کہ اس کا بھلا کروں
یعنی برس کے کھیت کو اس کے ہرا کروں
بوندوں نے جب سنی یہ سہیلی کی گفتگو
ہنس کر دیا جواب کہ اللّہ رے آرزو
تو اک ذرا سی بوند ہے ، اتنا بڑا یہ کھیت
تیرے ذرا سے نم سے نہ ہو گا ہرا یہ کھیت
تیری بساط کیا ہے کہ اس کو ہرا کرے
ہو خود جو ہیچ ، کیا وہ کسی کا بھلا کرے
اس بوند نے مگر یہ بگڑ کر دیا جواب
بولی وہ بات جس نے کیا سب کو لاجواب
مانا کہ ایک بوند ہوں ، دریا نہیں ہوں میں
قطرہ ذرا سا ہوں ، کوئی چھینٹا نہیں ہوں میں
مانا کہ میرا نم کوئی دریا کا نم نہیں
ہمت تو میری بحر کی ہمّت سے کم نہیں
نیکی کی راہ میں کبھی ہمّت نہ ہاریے
مقدور ہو تو عمر اسی میں گذاریے
قربان اپنی جان کروں گی کسان پر
کیا لوں گی میں ٹھہر کے یہاں آسمان پر
نیکی کے کام سے کبھی رکنا نہ چاہیے
اس میں کسی کے ساتھ کی پروا نہ چاہیے
لو میں چلی، یہ کہہ کے روانہ ہوئی وہ بوند
بوندوں کی انجمن میں یگانہ ہوئی وہ بوند
ٹپ دے سے اس کی ناک پہ وہ بوند گر پڑی
سوکھی ہوئی کسان کے دل کی کلی کھلی
دیکھا سہیلیوں نے تو حیران ہو گئیں
ہمّت کے اس کمال پہ کی سب نے آفریں
بولیں کہ چاہیے نہ سہیلی کو چھوڑنا
اچھا نہیں ہے منہ کو رفاقت سے موڑنا
ساتھی کے ساتھ سب کو برسنا ضرور ہے
گر ہم نہ ساتھ دیں تو مروّت سے دور ہے
یہ کہہ کے ایک ساتھ وہ بوندیں رواں ہوئیں
چھینٹا سا بن کے کھیت کے اوپر برس گئیں
قسمت کھلی کسان کی ، بگڑی ہوئی بنی
سوکھی ہوئی غریب کی کھیتی ہری ہوئی
پھر سامنے نظر کے بندھا آس کا سماں
تھی آس آس پاس ، گیا یاس کا سماں
اجڑا ہوا جو کھیت تھا آخر ہرا ہوا
سارا یہ ایک بوند کی ہمّت کا کام تھا
دیکھی گئی نہ اس سے مصیبت کسان کی
بے تاب ہو کے کھیت پہ اس کے برس گئی
ننھّی سی بوند اور یہ ہمّت ، خدا کی شان
یہ فیض ، یہ کرم ، یہ مروّت ، خدا کی شان !

۱ -     بیاض اعجاز ص ۳۱۰

2 comments: