Tuesday, September 8, 2015

اہلِ درد

زندگی دنیا کی مرگِ ناگہانِ اہلِ درد
موت پیغامِ حیاتِ جاودانِ اہلِ درد
بند ہو کر اور کھلتی ہے زبانِ اہل درد
بولتا ہے مثلِ نے ہر استخوانِ اہلِ درد
یہ وہ پستی ہے کہ اس پستی میں ہے رفعت نہاں
سر کے بل گرتا ہے گویا نردبانِ اہلِ درد
آپ بائع آپ ہی نقد و متاع و مشتری
ساری دنیا سے نرالی ہے دکانِ اہلِ درد
اس خموشی اور گویائی کے صدقے جائیے
محوِ شکرِ بے زبانی ہے زبانِ اہلِ درد
بیخودی میں یہ پہنچ جاتے ہیں اپنے آپ تک
عین بیداری نہ ہو خوابِ گرانِ اہلِ درد
کہہ رہی ہے ہر کلی گلزارِ ابراہیم کی
آگ سے ہوتا ہے پیدا گلستانِ اہلِ درد
پالیا موسیٰ نے آخر بندئہ اللہ کو
درد والوں ہی کو ملتا ہے نشانِ اہلِ درد
ان کی دنیا بھی یہی ، عرشِ معلّیٰ بھی یہی
دل مکانِ اہلِ درد و لامکانِ اہلِ درد
ہائے کیوں محشرپہ واعظ نے اٹھا رکھی ہے بات
ہے اسی دنیا میں ہوتا امتحانِ اہلِ درد
درد ہی کے دم سے ہے ان دل جلوں کی زندگی
درد سے پیدا ہوئی روح و روانِ اہلِ درد
لیتے ہیں داغِ محبّت سے گلِ جنّت مراد
ہائے کیا مرغوب ہے طرزِ بیانِ اہلِ درد
یہ اجڑ جانے کو آبادی سمجھتے ہیں مگر
ڈھونڈتا ہے راہزن کو کاروانِ اہلِ درد
ارتجالاً ہم نے اے اقبال کہہ ڈالے یہ شعر
تھی نوازش کو جو فکرِ امتحانِ اہلِ درد

0 comments:

Post a Comment