Tuesday, September 8, 2015

ہم نہ چھوڑیں گے دامن

(یہ نظم اقبال نے ایک دوست کی فرمائش پر آٹھ دس منٹ میں کہی تھی) 
 
سراپا ہوا مثلِ آغوشِ دریا

نہانے کو اترا جو وہ رشک گلشن
پیٔ دید کھولیں حبابوں نے آنکھیں

اٹھائی نظارے کو موجوں نے گردن
اسیرِ خمِ زلف کیونکر نہ ہو خضر

یہ قامت، یہ عارض ،یہ سینہ ، یہ جوبن
خمِ زلف موجوں نے آکر اڑائے

غضب ہے پڑے رہزنوں کو بھی رہزن
ادھر سر حبابوں نے ساحل سے ٹپکے

نہا کر جو نکلا وہ دریا سے پرُفن
ہوئی خونفشاں چشمِ گرداب ایسی

کہ دریا ہوا غیرتِ صحنِ گلشن
جو دستِ حنائی سے دامن نچوڑا

کہا میں نے اے روکشِ شمعِ روشن
کہیں آگ سے بھی ٹپکتا ہے پانی

بجا ہے جوکہیے تجھے سامری فن
مری چشم گریاں کی تجھ کو قسم ہے
صنم چھوڑ دے ہم نہ جھوڑیں گے دامن
 
۱ -    کشمیری گزٹ ، ستمبر ۱۹۰۱ء

0 comments:

Post a Comment