Tuesday, September 8, 2015

فریادِ امّت

دل میں جو کچھ ہے ، نہ لب پر اسے لائوں کیوں کر
ہو چھپانے کی نہ جو بات چھپائوں کیوں کر
شوقِ نظّارہ یہ کہتا ہے قیامت آئے
پھر میں نالوں سے قیامت نہ اٹھائوں کیوں کر
میری ہستی نے رکھا مجھ سے تجھے پوشیدہ
پھر تری راہ میں اس کو نہ مٹائوں کیوں کر
صدمۂ ہجر میں کیا لطف ہے اللہ اللہ
یہ بھی اک ناز ہے تیرا ، نہ اٹھائوں کیوں کر
زندگی تجھ سے ہے اے نارِ محبّت میری
اشکِ غم سے ترے شعلوں کو بجھائوں کیوں کر
تجھ میں َسو نغمے ہیں اے تارِ ربابِ ہستی
زخمۂ عشق سے تجھ کو نہ بجائوں کیوں کر
ضبط کی تاب نہ یارائے خموشی مجھ کو
ہائے اس دردِ محبت کو چھپائوں کیوں کر
بات ہے راز کی پر منہ سے نکل جائے گی
یہ میٔ کہنہ خُمِ دل سے اچھل جائے گی
آسماں مجھ کو بجھا دے جو فروزاں ہوں میں
صورتِ شمع سرِ گورِ غریباں ہوں میں
ہوں وہ بیمار جو ہو فکرِ مداوا مجھ کو
درد چپکے سے یہ کہتا ہے کہ درماں ہوں میں
دیکھنا تو مری صورت پہ نہ جانا گُل چیں
دیکھنے کو صفتِ نو گُلِ خنداں ہوں میں
موت سمجھا ہوں مگر زندگیِ فانی کو
نام آ جائے جو اس کا تو گریزاں ہوں میں
دور رہتا ہوں کسی بزم سے اور جیتا ہوں
یہ بھی جینا ہے کوئی جس سے پشیماں ہوں میں
کنجِ عزلت سے مجھے عشق نے کھینچا آخر
یہ وہی چیز ہے جس چیز پہ نازاں ہوں میں
داغِ دل مہر کی صورت ہے نمایاں لیکن
ہے اسے شوق ابھی اور نمایاں ہوں میں
ضبط کی جا کے سنا اور کسی کو ناصح
اشک بڑھ بڑھ کے یہ کہتا ہے کہ طوفاں ہوں میں
ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا
کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آساں ہوں میں
رند کہتا ہے ولی مجھ کو ، ولی رند مجھے
سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب
کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں
ہوں عیاں سب پہ مگر پھر بھی ہیں اتنی باتیں
کیا غضب آئے نگاہوں سے جو پنہاں ہوں میں
دیکھ اے چشمِ عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ
جس پہ خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں
مزرعِ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا
درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا
خ
کچھ اسی کو ہے مزا دہر میں آزادی کا
جو ہوا قیدیٔ زنجیرِ پری خانۂ دل
خ
آتی ہے اپنی سمجھ اور پہ مائل ہو کر
آنکھ کھل جاتی ہے انسان کی بے دل ہو کر
لوگ سودا کو یہ کہتے ہیں ’’برا ہوتا ہے‘‘
عقل آئی مجھے پابندِ سلاسل ہو کر
آرزو کا کبھی رونا ، کبھی اپنا ماتم
اس سے پوچھے کوئی ، کیا دل نے لیا دل ہو کر
میری ہستی ہی تو تھی میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردئہ محفل ہو کر
عین ہستی ہوا ہستی کا فنا ہو جانا
حق دکھایا مجھے اس نکتے نے باطل ہو کر
خلق معقول ہے ، محسوس ہے خالق اے دل
دیکھ نادان ذرا آپ سے غافل ہو کر
طور پر تونے جو اے دیدئہ موسیٰ دیکھا
وہی کچھ قیس نے دیکھا پسِ محمل ہو کر
کیوں کہوں بے خودیِ شوق میں لذّت کیا ہے
تو نے دیکھا نہیں زاہد کبھی غافل ہو کر
رہِ الفت میں رواں ہوں ، کبھی افتادہ ہوں
موج ہو کر ، کبھی خاکِ لبِ ساحل ہو کر
دمِ خنجر میں دمِ ذبح سما جاتا ہوں
جوھرِ آئنۂ خنجرِ قاتل ہو کر
وہ مسافر ہوں ملے جب نہ پتا منزل کا
خود بھی مٹ جائوں نشانِ رہِ منزل ہو کر
ہے فروغِ دو جہاں داغِ محبّت کی ضیا
چاند یہ وہ ہے کہ گھٹتا نہیں کامل ہو کر
دیدئہ شوق کو دیدار نہ ہو ، کیا معنی
آئے محفل میں جو دیدار کے قابل ہو کر
عشق کا تیر قیامت تھا الٰہی توبہ
دل تڑپتا ہے مرا طائرِ بسمل ہو کر
میٔ عرفاں سے مرے کاسۂ دل بھر جائے
میں بھی نکلا ہوں تری راہ میں سائل ہو کر
’’المدد سیّدِ مکّی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی‘‘
لاکھ سامان ہے اک بے سرو ساماں ہونا
مجھ کو جمعیّتِ خاطر ہے پریشاں ہونا
تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
دل جو بربادِ محبت ہوا ، آباد ہوا
سازِ تعمیر تھا اس قصر کو ویراں ہونا
علم و حکمت کے مدینے کی کشش ہے مجھ کو
لطف دے جاتا ہے کیا کیا مجھے ناداں ہونا
کبھی یثرب میں اویسِ قرنیؓ سے چھپنا
کبھی برقِ نگہِ موسیِ عمراں ہونا
قاب قوسین بھی ، دعویٰ بھی عبودیّت کا
کبھی چلمن کو اٹھانا ، کبھی پنہاں ہونا
لطف دیتا ہے مجھے مٹ کے تری الفت میں
ہمہ تن شوقِ ہوائے عربستاں ہونا
یہی اسلام ہے میرا ، یہی ایماں میرا
تیرے نظّارئہ رخسار سے حیراں ہونا
خندئہ صبحِ تمنائے براہیم استی
چہرہ پرداز بحیرت کدئہ میم استی
حشر میں ابر شفاعت کا گہر بار آیا
دیکھ اے جنسِ عمل تیرا خریدار آیا
پیرہن عشق کا جب حسنِ ازل نے پہنا
بن کے یثرب میں وہ آپ اپنا خریدار آیا
میں گیا حشر میں جس دم تو صدا یوں آئی
دیکھنا دیکھنا وہ کافرِ دیندار آیا
لطف آنے کا تو جب ہے کہ کسی پر آئے
ورنہ دل اپنا بھی آنے کو تو سو بار آیا
جوش سودائے محبت میں گریباں اپنا
میں نے دیکھا تو نہ ہاتھوں میں کوئی تار آیا
عشق کی راہ میں اک سیر تھی ہر منزل پر
نجد کا دشت کہیں مصر کا بازار آیا
میں نے سو گلشنِ جنت کو کیا اس پہ نثار
دشتِ یثرب میں اگر زیرِ قدم خار آیا
لیں شفاعت نے قیامت میں بلائیں کیا کیا
عرقِ شرم میں ڈوبا جو گنہگار آیا
وہ مری شرمِ گنہ اور وہ سفارش تیری
ہائے اس پیار پہ کیا کیا نہ مجھے پیار آیا
ہے ترے عشق کا مے خانہ عجب مے خانہ
یعنی ہشیار گیا اور میں سرشار آیا
’’ما عَرفَنا‘‘ نے چھپا رکھی ہے عظمت تیری
’’قاَب قوسین‘‘ سے کھلتی ہے حقیقت تیری
لے چلا بحرِ محبت کا تلاطم مجھ کو
کشتیِ نوح ہے ہر موجۂ قلزم مجھ کو
حسن تیرا مری آنکھوں میں سمایا جب سے
تیر لگتی ہے شعاعِ مہ و انجم مجھ کو
تیرے قربان میں اے ساقیِ مے خانۂ عشق
میں نے اک جام کہا تو نے دیے خُم مجھ کو
خاک ہو کر یہ ملا اوج تری الفت میں
’’کہ فرشتوں نے لیا بہرِ تیمم مجھ کو‘‘
گرد آسا سرِ دامن سے لگا پھرتا ہوں
حشر کے روز بھلا دو نہ کہیں تم مجھ کو
کوئی دیکھے تو ترے عاشقِ شیدا کا مزاج
حور سے کہتا ہے چھیڑا نہ کرو تم مجھ کو
موت آ جائے جو یثرب کے کسی کوچے میں
میں نہ اٹھوں جو مسیحا بھی کہے ’’قم‘‘ مجھ کو
صفتِ نوکِ سرِ خار شبِ فرقت میں
چبھ رہی ہے نگہِ دیدئہ انجم مجھ کو
خوف رہتا ہے یہ ہر دم کہ رہِ یثرب سے
طور کی سمت نہ لے جائے توہّم مجھ کو
تو نے آنکھوں کے اشارے سے جو تسکیں کر دی
شورِ محشر ہوا گلبانگِ ترنّم مجھ کو
اپنا مطلب مجھے کہنا ہے مگر تیرے حضور
چھوڑ جائے نہ کہیں تابِ تکلّم مجھ کو
ہے ابھی امّتِ مرحوم کا رونا باقی
دیکھ اے بے خودیِ شوق نہ کر گم مجھ کو
ہمہ حسرت ہوں سراپا غمِ بربادی ہوں
ستمِ دہر کا مارا ہوا فریادی ہوں
اے کہ تھا نوح کو طوفاں میں سہارا تیرا
اور براہیم کو آتش میں بھروسا تیرا
اے کہ مشعل تھا ترا ظلمتِ عالم میں وجود
اور نورِ نگہِ عرش تھا سایا تیرا
اے کہ پرتو ہے ترے ہاتھ کا مہتاب کا نور
چاند بھی چاند بنا پاکے اشارا تیرا
گرچہ پوشیدہ رہا حسن ترا پردوں میں
ہے عیاں معنیِ ’’لولاک‘‘ سے پایا تیرا
ناز تھا حضرت موسیٰ کو یدِ بیضا پر
سو تجلی کا محل نقشِ کفِ پا تیرا
چشمِ ہستی صفتِ دیدئہ اعمٰے ہوتی
دیدئہ ’’کن‘‘ میں اگر نور نہ ہوتا تیرا
مجھ کو انکار نہیں آمدِ مہدی سے مگر
غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا
کیا کہوں امّتِ مرحوم کی حالت کیا ہے
جس سے برباد ہوئے ہم وہ مصیبت کیا ہے
حال امت کا برا ہو کہ بھلا کہتے ہیں
صفتِ آئنہ جو کچھ ہے صفا کہتے ہیں
واعظوں میں یہ تکبّر کہ الٰہی توبہ
اپنی ہر بات کو آوازِ خدا کہتے ہیں
ان کے ہر کام میں دنیا طلبی کا سودا
ہاں مگر وعظ میں دنیا کو برا کہتے ہیں
غیر بھی ہو تو اسے چاہیے اچھا کہنا
پر غضب ہے کہ یہ اپنوں کو برا کہتے ہیں
فرقہ بندی کی ہوا تیرے گلستاں میں چلی
یہ وہ ناداں ہیں اسے بادِ صبا کہتے ہیں
شاہدِ قوم ہوا خنجرِ پیکار سے خوں
ہائے غفلت یہ اسے رنگِ حنا کہتے ہیں
آہ جس بات سے ہو فتنۂ محشر پیدا
یہ وہ بندے ہیں اسے فتنہ ربا کہتے ہیں
جن کی دینداری میں ہے آرزوئے زر پنہاں
آ کے دھوکے میں انہیں راہ نماکہتے ہیں
لاکھ اقوام کو دنیا میں اجاڑا اس نے
یہ تعصّب کو مگر گھر کا دیا کہتے ہیں
خانہ جنگی کو سمجھتے ہیں بنائے ایماں
مرض الموت ہے جو اس کو دوا کہتے ہیں
یہ نصاریٰ کا خدا اور وہ علی شیعوں کا
ہائے کس ڈھنگ سے اچھوں کو برا کہتے ہیں
مقصدِ لَحمُکَ لَحُمِیُ پہ کھلی ان کی زباں
یہ تو اک راہ سے تجھ کو بھی برا کہتے ہیں
تیرے پیاروں کا جو یہ حال ہو اے شافعِ حشر
میرے جیسوں کو تو کیا جانیے کیا کہتے ہیں
بُغض لِلّٰہ کے پردے میں عداوت ذاتی
دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں ، کیا کہتے ہیں
جن کا یہ دیں ہو کہ اپنوں سے کریں ترکِ سلام
ایسے بندوں کو یہ بندے ’’صلحا‘‘ کہتے ہیں
قوم کے عشق میں ہو فکرِ کفن بھی نہ جسے
یہ اسے بندئہ بے دامِ ہوا کہتے ہیں
یہ دوا ، صفحۂ ہستی سے نہ مٹ جانا ہو
درد کے حد سے گزرنے کو دوا کہتے ہیں
وصل ہو لیلیِ مقصود سے کیوں کر اپنا
اخترِ سوختۂ قیس ہے اختر اپنا
امراء جو ہیں وہ سنتے نہیں اپنا کہنا
سامنے تیرے پڑا ہے مجھے کیا کیا کہنا
ہم جو خاموش تھے اب تک تو ادب مانع تھا
ورنہ آتا تھا ہمیں حرفِ تمنّا کہنا
درد مندوں کا کہیں حال چھپا رہتا ہے
اپنی خاموشی بھی تھی ایک طرح کا کہنا
شکوہِ منّت کشِ لب ہے کبھی منّت کشِ چشم
میرا کہنا جو ہے رونا تو ہے رونا ، کہنا
قوم کو قوم بنا سکتے ہیں دولت والے
یہ اگر راہ پہ آ جائیں تو پھر کیا کہنا
بادئہ عیش میں سرمست رہا کرتے ہیں
یاد فرماں نہ ترا اور نہ خدا کا کہنا
ہم نے سو بار کہا ’’قوم کی حالت ہے بری‘‘
پر سمجھتے نہیں یہ لوگ ہمارا کہنا
جو مرے دل میں ہے ، کہہ دوں تو کوئی کہہ دے گا
منہ پہ ہوتا نہیں ان لوگوں کو اچھّا کہنا
ہم کہیں کچھ تو کہے جائیں ، انہیں کیا  پروا
کوئی کہہ دے تو اثر کرتا ہے کیا کیا کہنا
ان کی محفل میں ہے کچھ بار انہی لوگوں کو
جن کو آتا ہو سرِ بزم لطیفا کہنا
دیکھتے ہیں یہ غریبوں کو تو برہم ہو کر
فقر تھا فخر ترا شاہِ دو عالم ہو کر
اس مصیبت میں ہے اک تو ہی سہارا اپنا
تنگ آ کر لبِ فریاد ہوا وا اپنا
ایسی حالت میں بھی امید نہ ٹوٹی اپنی
نام لیوا ہیں ترے ، تجھ پہ ہے دعوا اپنا
فرقہ بندی سے کیا راہ نمائوں نے خراب
ہائے ان مالیوں نے باغ اجاڑا اپنا
ہم تو مٹ جائیں گے معمورئہ ہستی سے مگر
صبر ان راہ نمائوں پہ پڑے گا اپنا
تری سرکار میں اپنوں کا گلہ کیا کیجیے
ہو ہی جاتا ہے مصیبت میں پرایا اپنا
ہم نے سو راہ اخوّت کی نکالی لیکن
نہ تو اپنا ہوا اپنا نہ پرایا اپنا
دیکھ اے نوح کی کشتی کے بچانے والے
آیا گرداب حوادث میں سفینہ اپنا
اس مصیبت میں اگر تو بھی ہماری نہ سنے
اور ہم کس سے کہیں جا کے فسانا اپنا
ہاں برس ابرِ کرم ، دیر نہیں ہے اچھی
کہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہونا اپنا
لطف یہ ہے کہ پھلے قوم کی کھیتی اس سے
ورنہ ہونے کو تو آنسو بھی ہے دریا اپنا
اب جو ہے ابر مصیبت کا دھواں دھار آیا
ڈھونڈتا پھرتا ہے تجھ کو دلِ شیدا اپنا
یوں تو پوشیدہ نہ تھی تجھ سے ہماری حالت
ہم نے گھبرا کے مگر تذکرہ چھیڑا اپنا
زندگی تجھ سے ہے اے فخرِ براہیم اپنی
کر دعا حق سے کہ مشکل ہوا جینا اپنا
ایک یہ بزم ہے لے دے کے ہماری باقی
ہے انہی لوگوں کی ہمّت پہ بھروسا اپنا
داستاں درد کی لمبی ہے ، کہیں کیا تجھ سے
ہے ضعیفوں کو سہارے کی تمنّا تجھ سے
قوم کو جس سے شفا ہو وہ دوا کون سی ہے
یہ چمن جس سے ہرا ہو وہ صبا کون سی ہے
جس کی تاثیر سے ہو عزّتِ دین و دنیا
ہائے اے شافعِ محشر وہ دعا کون سی ہے
جس کی تاثیر سے یک جان ہو امّت ساری
ہاں بتا دے ہمیں وہ طرزِ وفا کون سی ہے
جس کے ہر قطرے میں تاثیر ہو یک رنگی کی
ہاں بتا دے وہ میٔ ہوش ربا کون سی ہے
قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا
ناقہ وہ کیا ہے ، وہ آوازِ درا کون سی ہے
اپنی فریاد میں تاثیر نہیں ہے باقی
جس سے دل قوم کا پگھلے وہ صدا کون سی ہے
سب کو دولت کا بھروسا ہے زمانے میں مگر
اپنی امّید یہاں تیرے سوا کون سی ہے
اپنی کھیتی ہے اجڑ جانے کو اے ابرِ کرم
تجھ کو جو کھینچ کے لائے وہ ہوا کون سی ہے
ہے نہاں جن کی گدائی میں امیری سب کی
آج دنیا میں وہ بزمِ فقرا کون سی ہے
تیرے قرباں کہ دکھا دی ہے یہ محفل تونے
میں نے پوچھا جو اخّوت کی بِنا کون سی ہے
راہ اس محفلِ رنگیں کی دکھا دے سب کو
اور اس بزم کا دیوانہ بنا دے سب کو
 
۱ -     سرود رفتہ ، ص ۴۲ ، رودادِ انجمن

1 comment: