Tuesday, November 26, 2013

(Armaghan-e-Hijaz-42) (حسین احمد) Hussain Ahmad





 
عجم ہنوز نداند رموز ديں، ورنہ
ز ديوبند حسين احمد! ايں چہ بوالعجبي است
 
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عجمی لوگ ابھی تک دین اسلام کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوئے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ دیوبند کے حسین احمد مسلمانوں کو ایسی تلقین کرتے جو سراسر اسلام کی روح کے خلاف ہے.

سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربي است
 
یعنی جو شخص مسلمان ہو کر یہ کہتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بنیاد وطن ہے یا مسلمان غیرمسلموں کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت بنا سکتے ہیں یا کافر اور مسلم دونوں مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں وہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے بلا شبہ بےخبر ہے.

بمصطفي برساں خويش را کہ ديں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسيدي ، تمام بولہبي است
 
 اے مسلمان! تو وطنیت کا جدید نظریہ اختیار مت کر جس کی رو سے قومیت کی بنیاد وطن ہے، بلکہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم کو حزر جاں بنا اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وطن نہیں ہے بلکہ کلمہ توحید ہے یعنی ساری دنیا کے مسلمان ملت واحدہ  ہیں اور اس لئے وہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت نہیں بنا سکتے.
اے مسلمان! اگر حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے استفادہ نہ کر سکا یا ان کی روح سے آگاہ نہ ہو سکا تو پھر تیرا علم و فضل سب بیکار ہے بلکہ وہ تیری گمراہی کا باعث ہو جائے گا.
 
Hussain Ahmad

Ajam Hanooz Nadand Rumooz-E-Deen, Warna
Za Deoband Husain Ahmad! Aen Che Bu-ul-Ajabi Ast
 
Saroad Bar Sar-E-Minbar Ke Millat Az Watan Ast
Che Bekhabar Za-Maqam-E-Muhammad (S.A.W.) Arabi Ast
 
 
BaMustafa (S.A.W.) Barsaan Khowesh Ra Ke Deen Hama Ost
Agar Bah O Ner Sayyadi, Tamam Bu-Lahabi Ast
 
HUSSAIN AHMAD
 
Yet non arabs know not the deen’s hid signs,
From Devband Ahmad the man’s odd line.
He sings on pulpit, "Nation is known by land,"
He queer, knew not land, of the Prophet Grand.
To Mustafa reach, to him belongs deed,
If you didn’t reach him, You are Bu Lahb clean
If you didn’t reach him, You are Bu Lahh clean.
 
 
نظم کا پس منظر:
مولانا حسین احمد مدنی نے ٩ جنوری ١٩٣٨ کو دہلی میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ موجودہ زمانہ میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں اس لئے مسلمانوں کو لازم ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد دین اسلام نہیں ہے بلکہ وطن ہے. جب مولانا کی یہ تقریر حضرت علامہ اقبال کی نظر سے گزری تو انہیں سخت ملال ہوا کہ مولانا نے عالم دین ہو کر یہ خلاف اسلام تعلیم کس طرح مسلمانوں کے سامنے پیش کی اور کس طرح انہیں اس کے قبول کرنے کا مشوره دیا؟ کیونکہ قرآن، حدیث اور فقہ تینوں کی رو سے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے نہ کہ وطن.
نظم کا لہجہ قدرے درشت ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا کے اس ارشاد سے اقبال کو بہت شدید روحانی کوفت اور ذہنی اذیت پہنچی تھی.
ترجمہ و تشریح: پروفیسر یوسف سلیم چشتی

1 comment: