عبیداللہ قدسی
اقبال اکادمی پاکستان
تعارف
رب کے حضور میں اقبال دعا مانگتے ہیں
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا شوق میری نظر بخش دے
مرے دیدہء ترکی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
ان کی تمنا ہے :
جوانو کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال وپر دے
خدایا آرزو مری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اقبال نوجوانوں کو حکمت کلیمی سے نوازنا چاہتے ہیں۔ جان افروز ،سینہ تاب، نور بصیرت،جو شرط راہ ہے، وہ عطا کرنا چاہتے ہیں۔ تجلی کی فراوانی سے اپنے دامن کی وسعت میں جو کچھ انہوں نے سمیٹ لیا ہے۔
حیات بر نفس یا خودی کے بحر بے رواں میں شعور وآگہی کے جو در آبدار ان کو ملے ہیں۔وہ اپنے قافلے میں لٹانے کے لئے بے چین ہیں۔
وہ نوجوانوں کو وہ عرفان وہدایت بخشنا چاہتے ہیں ،جو یقین محکم اور عمل پیہم کی بنیادیں دے سکے۔وہ دانائے راز اور درویش خدا مست ہیں۔ جن کی ذوق نگاہ نے لا الہ الا ا لا اللہ سے تاب و تب جاودانہ پا کر ان کو شرق وغرب کی قیود سے آزاد کر دیا ہے۔
انسانیت جن مصائب سے دوچار ہے۔ اس کا حل مشرق کے پاس ہے نہ مغرب کے، مغرب کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پریشان حالی کا باعث اس کی بنیادی حکمت سے محرومی ہے۔مشرق کی زبوں حالی کا باعث ترقی پذیر ماحول سے ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ایک جانب تہذیب نو اور عصر حاضر کا طلسم ہوش ربا ہے تو دوسری طرف قدامت، تنگ نظری اور جمود۔یہی دو نسلوں میں تصادم ،کشاکش، اور خلیج کا سبب ہے۔
اس انتشار میں مصنوعی شیرازہ بندی کی کوشش کار گر نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے ۔تدریجی اور اساسی انقلاب کی، جس میں ترقی اور تبدیلی کے ساتھ ازلی اور ابدی حقیقت کار فرما ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس کائنات کی پہنائی میں اپنے آپ کو کھو بیٹھے ہیں۔ہم جزئیات جمع کرکے اس میں کل کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں۔جب ناکامی ہوتی ہے ،تو اسی خود ساختہ نگار خانہ میں اپنے مقام کا تعین کرلیتے ہیں۔ جو اس میں اعلیٰ ہونے کے باوجود ادنیٰ رہتا ہے۔ہیگل نے فکر محض کے ذریعہ حل پیش کیا۔مگر اس کا صدف گوہر سے خالی اور تصور سارا کا سارا خالی رہا۔مارکس کا دل مومن اور دماغ کافر ثابت ہوا۔اور عمل کو اخلاق اور وجدان سے ہم آہنگ نہ کر سکا۔ اقبال آفاق میں گم نہیں ،بلکہ آفاقی ان میں گم ہے۔وہ خودی کاترجمان ہو کر جس سر نہاں تک پہنچتے ہیں۔وہ انہیں حقیقت کا راز داں بنا دیتا ہے۔گرمیء گفتار اور شعلہ کردار بہار فطرت ہے۔ مگر بہار فطرت کردگار فطرت سے ہے۔زمانے کے نشیب وفراز ،گردش روز گار، طلسم روز وشب، نغمہ ء حیات کا زیر وبم سب کل یوم ھو فی شان کی تفسیر ہے۔ ترقی وارتقا کے پیچھے کن فیکون کی صدا ہے۔ساری کائنات رزم گاہ شوق وعمل، حدیث ناظرہ ومنظور ہے۔
حقیقت روئے خود را پردہ باف است
کہ او را لذتے در انکشاف است
بخلوت ہم بجلوت نور ذات است
میاں انجمن بودن حیات است
کثرت میں وحدت کی جلوہ نمائی ،زیست کی گہرائیوں میں نور ازل کی جھلک انسان کو من وتو کے باوجود من وتو سے پاک کر دیتی ہے۔ وہ رنگ ونسل ،قبیلہ،و وطینت سے بلند ہو جاتا ہے۔
ہمسایہ جبریل امیں، بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
در گزر مثل کلیم از رود نیل
سوئے آتش گامزن مثل خلیل
نغمہ مردے کہ دارد بوئے دوست
مفت را می برد در کوئے دوست
تخلیق کا عمل ساری کائنات میں جاری وساری ہے۔ ذروں کی خود نمائی، تاروں کی تنک تابی، سبزہ وگل کے جوش نمو سے لے کر ذوق وشوق آرزو تک کہیں قیام وسجود میں ،کہیں رقص بسمل میں،ہر جگہ اس کی کار فرمائی ہے۔لذت انکشاف ہر جگہ ،ہر گام پر ہر سطح پر جاں فزا اور نظر نواز ہے۔ کہیں ٹھہراؤ اور رکاؤ نہیں، ایک ہی جذبہ ہے جو مظاہر فطرت اور کائنات کو قافلہ شوق کا مسافر بنا دیتا ہے۔ یہی جدت وایجاد،ترقی وانقلاب، تشکیل نو اور ارتقاء کی بنیاد ہے۔ اس سے انکار اپنی فطرت سے انکار ہے۔اور قانون الہیٰ سے انحراف ہے۔
آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
جمود وتنگ نظری،کوتاہ بینی اور بے عملی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔خواہ،ملا میں، صوفی میں، فلسفی میں،کلیسا میں ہو یا دیر وحرم میں۔
سب اپنے بتائے ہوئے زندان میں ہیں اسیر
خاور کے ثوابت ہیں کہ افرنگ کے سیار
پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نہ جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم وپیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار
ان کے یہاں تو:۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
کا معاملہ ہے۔
زندگی جز لذت پرواز نیست
آشیاں با فطرت اوساز نیست
ایشیا اس لیے پس ماندہ رہ گیا کہ اس کا قلب واردات نو بہ نو سے خالی،اور ذوق عمل سے محروم رہ گیا۔ اور اس کے روز گار اس دیرینہ در میں ساکن ویخ بستہ بے ذوق سفر ہو گئے۔ان کو سخت صدمہ ہے کہ مسلمانوں نے اجتہاد کے دروازے بند کرکے فکر وعمل کی راہیں مسدود کر دیں۔فقیہ شہر قارون لغت ہائے حجازی تو بن گئے،مگر وہ حرف لا الہ کو بھول گئے۔ جس سے سر چشمہ ہدایت پھوٹتا،اور ہر لمحہ نئی تازگی عطا کرتا ہے۔ قوم کی زندگی اور تازگی کا دار ومدار دل کی ان گہرائیوں اور دماغ کی جولانیوں پر منحصر ہے۔ جو نئے تصورات سے روشناس کر اکر تمدن کی بدلتی ہوئی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے مزید ارتقا کے امکانات پیدا کر سکے۔ اسلام نے مشاہدہ اور تجربے کی دعوت دے کر استقرائی ذہن کا آغاز کیا۔ جو سائنسی طریقہ کار ہے۔
فطرت اور تاریخ پر دعوت فکر دے کر ان بنیادوں کی نشان دہی کی،جو قوموں کے عروج وزوال کا باعث ہیں۔عقیدہ تو حید نے دین ولادین کی تقسیم کو ختم کرکے انسانی ارتقا کے لئے کائنات کو جولان گاہ اور حدیث کے مطابق مقدس مسجد بنا دیا تھا۔قرآن کا حیات آفرین پیغام ہر عہد اور عصر کے نئے تقاضوں کے مطابق اس کی ترقی میں حائل ہونے کی بجائے ،اس کو صحیح سمت عطا کرتا ہے۔وہ ہر عہد کو نیا نظام دینے کو تیار ہے۔بشرطیکہ ہم اس کو اپنے دل میں اتار کر دل کی گہرائیوں میں اتار کر اس کی روح کو پہچان لیں۔ وہ فرماتے ہیں:
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
چوں بجاں دررفت جان دیگر شود
جان چوں دیگر شود جہاں دیگر شود
مثل حق پنہاں وہم پیدا است ایں
زندہ وپائندہ وگویا است ایں
اندر او تقدیر ہائے شرق وغرب
سرعت اندیشہ پیدا کن چوں برق
چوں مسلمانان اگر داری جگر
در ضمیر خویش ودر قرآن نگر
صد جہاں تازہ در آیات اوست
عصر ہائے پیچیدہ در آنات اوست
بندہ مومن زآیات خدا است
ہر جہاں اندر برش مثل قبا است
چون کہن گردد جہانے دربرش
می دید قراں جہانے دیگرش
عالمے در سینہ ء ماگم ہنوز
عالم در انتظار قم ہنوز
اقبال اہل فکر ونظر کے لئے وہ عظیم شاہراہ کھولنا چاہتے تھے،جو ہمیں اس سفر مسلسل پر تیز گام کر دے۔جو تخلیق کا منشاء ہو۔ وہ افراتفری بے راہ روی سے محفوظ رہ کر واردات نو اور لذت پرواز سے آشنا کرنا چاہتے ہیں ،طلسم روزگار کے پیچھے نور کی وہ لہر ہے۔ جو راہوں کو ہموار کرکے سمت کا تعین کرکے منزل کا پتا دیتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان تقدیر یزداں بن جاتا ہے۔جو جادہ بھی ہے اور رہبر بھی۔
وہ لکھتے ہیں دین اسلام ،نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا۔ بلکہ عمل کے لئے حدود معین کرتا ہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الہیٰ ہے۔شریعت کوقلب کی گہرائیوں سے محسوس کرنے کا نام طریقیت ہے۔’’ یہ ہماری فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہنگامہ ء عالم کو رحمت اللعالمین سے ہم کنار کرکے جودت کردار اور جدت افکار کو تب وتاب جاودانہ عطا کرتی ہے۔
علامہ اقبال کی مناجات حقیقت میں ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کا خلاصہ ہے۔ وہ تمنائیں اور آرزوئیں جن کی انہوں نے اپنی تمام عمر اپنے کلام اور بیان سے متنوع پیرایہ ء بیان اور مختلف اسلوب سے اشاعت کی ہے۔
علامہ اقبال نے اس بے پایاں سمندر کو مناجات کے کوزے میں سمو دیا ہے۔ اور قدسی صاحب نے اس کی تفسیر بیان کرکے علامہ کے افکار اور ان کی آرزوؤں سے ایک حد تک نئی نسل کو بہرہ یاب ہونے کا موقع دیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس کتاب کی اشاعت سے نئی نسل کو علامہ کے عظیم کار ناموں اور تصورات کو تفصیل سے پڑھنے کی آرزو ہو گی۔اور علامہ کا حیات بخش، بصیرت افروز کلام جو جاوید نامہ سے پہنچا ہے۔ اسے بھی اردو میں اس نہجکی شرح کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔
(ڈاکٹر جمیلہ خاتون)
پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کراچی
مناجات
(جاوید نامہ)
آدمی اندر جہاں ہفت رنگ
ہر زمان گرم فغان مانند جنگ
آدمی : اشرف المخلوقات ہے۔ مسجود ملائک ہے۔ خدا نے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔اور یہی صرف خدا تک پہنچ سکتا ہے۔آفرینش کے نقطہ آغاز سے لے کر انتہا تک اس کی تگ وتاز کا میدان ہے۔ اس کی ترقی کا راز خیر وشر کی راہوں میں تمیز پر منحصر ہے۔اگر انسان خیر کا انتخاب کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کی ضد یعنی شر کا انتخاب کر لے۔اس طرح ہر راستے کی اپنی اپنی قدر وقیمت کا ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
’’ لیکن انسان کی مخفی قوتوں کی تربیت کچھ یو ں ممکن تھی۔کہ اس طرح کا خطرہ برداشت کر لیا جاتا۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:۔
کہ ونبلونکم بالشر والخیر فتنہ (۲۱۔ ۳۶)
لہذا اسے ترقی کرنے کائنات تسخیر کرنے اور خطرات پر حاوی آنے کے لئے علم کی طلب ہوتی ہے۔
’’ عقلی اساست کی جستجو کا آغاز آنحضرت صلعم کی ذات مبارک ہی سے ہو گیا تھا۔ آپ ہمیشہ دعا فرماتے تھے کہ ’’ اے اللہ مجھ کو اشیاء کی اصل حقیقت سے آگاہ کر ۔‘‘
اسلام سے پہلے علم انسانی کی نوعیت تصور ہی تھی چنانچہ الہام اور وحی بھی رمزیت اور اشاریت پر محمول تھی۔ جیسا کہ تخلیق آدم کے سلسلے میں تمام مذاہب میں ذکر ہے۔
۱۔ (اقبال۔ تشکیل جدید، الہیات اسلامیہ) ص۱۲۹، ۲۔ ایضا ص۴
صرف اسلام نے آدمی کا یہ مرتبہ قائم کیا ہے کہ اب انسان کی زندگی کا دار مدار اس بات پر ہے۔کہ خود اپنے تجربات کی بدولت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے۔مگر پھر بھی نفس متناہیہ (آدمی) کے ان تجربات میں جس کے سامنے ایک نہیں ،کئی امکانات ہوں،وسعت پیدا ہو گی تو امتحان وآزمائش،غلطی اور خطا کے ذریعے ،لہذا غلطی یا خطا بھی باوجود کہ ہمیں اس کو ایک قسم کی ذہنی شر سے تعبیر کرنا پڑے گا،حصول تجربات میں ضروری ہے۔
بہر کیف قرآن مجید نے انسان کے ان عزائم کوواضع کردیا ہے۔اور یہ مقصد کھول کر بیان کردیا ہے۔کہ آدمی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ صرف تصورات پر قناعت کرے۔اسے اپنے مقصود ومطلوب کا زیادہ گہرا علم ہونا چاہیئے۔اور اس سے قریب تر ہونا چاہیئے۔
اوراس قرب کی کوشش اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں آدمی ہر وقت بے چین رہتا ہے۔چنانچہ علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک تو انسان ہونا نام ہی اس بات کا ہے کہ ہر قسم کی سختیاں برداشت کی جائیں۔
ہفت رنگ: اول سیاہ رنگ،جس کاتعلق زحل سا ہے۔ غباری جو خاک رنگ کا ہے ۔اور مشتری سے متعلق ہے۔ سرخ رنگ مریخ کا ہے۔ زرد رنگ جو آفتاب کا ہے۔ سفید زہرہ کا ہے۔ نیلا عطارد کا، اور زنگاری قمر کا ہے۔(برہان قاطع)
۱۔اقبال۔تشکیل جدید الہیات اسلامیہ،ص۱۳۱،۱۳۲ ۔ ۲۔ بحوالہ تشکیل ،ص ۱۳۳،قرآن مجید والصابرین فی الباسا ء والضرا وحین الباس (۲،۱۷۷)
کتاب میں ان ہی سیاروں کی سیر کی گئی ہے۔اس لئے ہفت رنگ پوری کتاب پر حاوی ہے۔ کل کائنات کے لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کائنات کی بوقلمونی اور رنگا رنگی بھی اس سے ظاہر ہے۔ اصل رنگ صرف سات ہیں اور باقی ان کا مرکب ہے۔
کل کائنات کے لئے سات کا لفظ مختلف طریقہ سے مذاہب میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں تقدس بھی ہے اور ساحرانہ اثر بھی، سات کا عدد بائیبل میں دوسرے اعداد سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔ بائیبل میں یہ عدد طاقت، حسن اور رو حانی طاقت کی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ سے پوچھا گیا ’’ کیا آدمی کو اپنے دشمن کو سات دفعہ معاف کرنا چاہیئے؟۔ آپ نے جواب دیا ۷۰ دفعہ معاف کرنا چاہیئے۔
قدیم بادشاہوں کی سات شاخیں ہیں،یا یوں کہیئے یہودیوں کی ۷ شمعیں ہیں۔
قرآن شریف میں متعدد بار یہ عدد استعمال ہوا ہے۔(سبعہ سموات) ’’ سات آسمان،سات دن میں اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان کو پیدا کیا‘‘ زمانہ کا شمار سات دن سے ہوتا ہے۔اصحاب کہف کی تعداد سات تھی۔ حضرت یوسف نے جو خواب دیکھا تھا اس میں سات گائیں تھیں موٹی اور سات دبلی۔‘‘
غرض کل کائنات اس کے تنوع اور اس کے نظام پر ایسا حاوی اور جامع دوسرا لفظ کسی زبان میں موجود نہیں ہے۔
البتہ سنسکرت جو فارسی کی بہن ہے۔ یہی لفظ ’’سپتہ رنگ‘‘ بمعنی انجمن ہفت موجود ہے۔ لیکن ان کے وہاں یہ بنات النعش کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔
بر زمان گرم فغان:
یہ خارج کی دنیا اور داخل کی دنیا ہے۔آدمی جس کی تسخیر کے لئے اور جس میں تدبر وفکر کرکے رد وبدل کرنے میں کبھی دنیا کے اندر اس سے تصادم کرکے ،اور کبھی اس کی موافقت کرکے فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور اس آسمان وزمین کی تسخیر اور ظاہر وباطن کی نعمتوں پر اقتدار حاصل کرنے کی تگ ودو میں وہ ہر لمحہ بے چین رہتا ہے۔ اس بے چینی کا اظہار علامہ اقبال نے ہر زمان گرم فغان مانند چنگ سے کیا ہے۔
یہ بے چینی انسان کی تقدیر ہے۔ اور اس بے چینی کی انتہا کا نام عشق ہے۔علامہ اقبال کہتے ہیں:
’’ انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری آرزوؤں میں شریک ہو۔ جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے۔ اور اپنی دنیا کی تفسیر خود بن جائے۔
ع اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
کبھی اس کی قوتوں پر موافقت پیدا کرتے ہوئے،اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اپنی غرض وغایت کے مطابق ڈھال کر،اس لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتے ہوئے اور انقلاب آفرین عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو۔‘‘
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرواما بانفسھم
۱۔اقبال، تشکیل ،ص۱۸ ۲۔ قرآن مجید
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جو آدمی ہر وقت بے چین نہیں،ترقی کی لگن نہیں، وہ مردہ ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال
علامہ اقبال کہتے ہیں ’’ اگر انسان قدم آگے نہیں بڑھاتا اور پہل نہیں کرتا ،اپنی ذات کی وسعتوں اور گونا گوں صلاحیتوں کو ترقی نہیں دیتا۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی رو کا کوئی تقاضا اپنے اندرون ذات میں محسوس نہیں کرتا،تو اس کی روح پتھر کی طرح سکت ہو جاتی ہے۔اور وہ گر کر بے جان مادے کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔اس کی زندگی کا ،اور اس طرح پے بہ پے ترقی روح کا سفر کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ اس حقیقت سے رابطہ پیدا کرے۔ جس نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ (لیکن یہ بات اچھی طرح دل نشین کر لی جائے،جسے مسلماندانش وروں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ کہ) یہ رابطے علم کی بدولت قائم ہوتے ہیں۔
اور علم عبارت ہے ادراک بالحس سے،(جس کا انحصار سائنس کی ترقی پر بھی ہے) جس میں ہم اپنی عقل وفہم (یعنی فکر واستدلالاور تفصیلات وجزئیات میںنظم وترتیب) کی مدد سے اور زیادہ وسعت پیدا کر لیتے ہیں۔
چنانچہ اس نکتے کی وضاحت علامہ اقبال نے دوسری جگہ اس سے بھی زیادہ صاف الفاظ میں کی ہے،وہ لکھتے ہیں۔
۱۔ اقبال ،تشکیل ،ص۱۹۔
اسلام کا ظہور استقرائی عمل کا ظہور ہے۔اسلام میں نبوت اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی،لہذا ان کا خاتمہ ضروری ہو گیا۔اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی نہیں گزار سکتا۔اس کے شعور ذات کی تکمیل ہو گی تو بس یہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسلام نے دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا،یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا۔یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا ،یا عالم فطرت ،اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا ،تو اس لئے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔(کہ انسان اپنی عقل سے کام لے،اس کے قوائے فکر وعمل بیدار ہوں،اور وہ اپنے اعمال وافعال کا آپ جواب دہ ٹھہرے۔)
چنگ: طشت کی طرح کھلا ہوا ساز،جس کی آواز میں جھنجھناہٹ ہوتی ہے۔
ترجمہ: آدمی سات رنگ کی دنیا کے اندر ہر وقت چنگ کی طرح فریاد میں مشغول ہے۔
مطلب: پہلے ہی شعر میں علامہ اقبال نے انسان کی تخلیق اس کی سرشت اور اس کی پوری زندگی کا فلسفہ قلم بند کر دیا ہے۔
علامہ اقبال نے مناجات کے پیرائے میں تمام ماحصل بیان کر دیا،آدمی اس رنگا رنگ وسیع وعریض کائنات میں جس میں نظام شمسی کی طرح کئی نظام ہیں،جس کی وسعتوں کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے،انسان نے ابھی اس کا کچھ حصہ حاصل کیا ہے۔لہذا اس کے سامنے تسخیر کے لئے ہزاروں جہان ہیں۔جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔اور چونکہ کچھ حاصل نہیں کر سکا، اس لئے شدید اضطراب اور فریاد وفغاں میں ہے۔ہر لمحہ تڑپ اور بے چینی ہے۔
جس طرح قرآن شریف کی سب سے پہلی نازل ہونے والی سورۃ کی پہلی آیتلفظ اقراء (پڑھ) ہے کہ انسان بننے کی ابتدا ء پڑھنے سے شروع ہوتی ہے۔انسان کی برتری کا راز صرف اور صرف علم ہے۔جس کے بغیر انسان ،انسان نہیں کہلا سکتا۔ جیسا کہ فارابی نے لکھا ہے ۔’’جو فرد نور علم سے خالی ہے وہ حیوانی حالت میں ہے۔‘‘ بالکل علامہ اقبال نے اپنی کتاب کے پہلے شعر کا پہلا لفظ ’’آدمی رکھا ہے۔‘‘ کہ یہی ان کا موضوع بحث ہے۔
علامہ اقبال کی اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ آدمی کیا ہے؟۔ یہ کائنات کیا ہے؟۔ اور اس سے آدمی کا کیا رشتہ ہے؟۔ یوں سمجھیئے کہ کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے؟۔اور یہ کہ خدا سے آدمی اور کائنات کا کیا رشتہ ہے؟۔ان تینوں کے تعلقات اور ان سے بحث فلسفہ میں بھی ہوتی ہے۔اور مذہب میں بھی،علامہ اقبال نے پہلے ہی شعر میں اس مسلہ کو حمد کے پیرائے میں پیش کر دیا ہے۔
غالب نے بھی اپنے دیوان کا پہلا شعرحمد میں اس موضوع پر کہا ہے ۔لیکن وہاں عبد ومعبود کے ساتھ ایک قسم کی مجبوری کا اظہار ہے۔ جس میں کائنات کا کوئی ذکر نہیں، وہ لکھتے ہیں:۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
غالب
علامہ اقبال کے مرشد رومی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی مثنوی کے پہلے شعر میں یہی موضوع لیا ہے۔ لیکن وہاں صرف عشق الہیٰ بیان کیا گیا ہے۔
۱۔فارابی،مدینۃ الفاضلہ۔
اور قرآن شریف کی اس تفسیر سے ان الی ربک المنتھیٰ،تیری انتہا خدا کی طرف سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
بشنو از نے چوں حکایت می کنند
وز جدائی ھا شکایت می کنند
اس میں صرف ولایت ہے نیابت نہیں، انسان اپنے معبود حقیقی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ وہی اس کا مقصود اور محبوب ہے۔اصل سے ج بتک وصل نہ ہو،اضطراب رہتا ہے۔خدا کی طرف توجہ اور اس کی طرف انتہا ولایت ہے۔ اور خدا کی طرف سے مخلوق کی طرف آنا اور اس کی ہدایت یہ نبوت کاکام ہے۔اور یہی خدا کی خلافت اور نیابت ہے۔ لہذا صحیح انسان وہ ہے کہ جس اپنے مرتبے کا احساس ہے۔اور ج وآدمی شرف انسانیت سے واقف ہے۔ وہ ہر لمحہ اس دنیا میں بے چین اور فریاد وفغان میں رہتا ہے۔
آرزوئے ہم نفس می سوزدش
نالہائے دل نواز آموزدش
انسان کو ہم نفس کی آرزو بے چین رکھتی ہے۔ وہ دل نواز نالے کرنا سیکھ جاتا ہے۔
(ازروئے ہم نفس) = ہم دم، ہم خیال، اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنہا پیدا نہیں کیا۔
انسان کا مادہ انس ہے ،اور انس کے بغیر انسان نہیں بنتا۔ دو آدمیوں میں جس قدر اتحاد ہوگا۔اسی قدر کامیابی ہوگی،دنیا کی کامیابی ہوگی۔دنیا کی کام یابی اور ترقی کا راز دوسروں کے اتحاد میں ہے۔
ع۔ دو دل یک شوند بشکند کوہ را
دو مل کر سوسائٹی میں تنہا انسان کچھ نہیں،اس راز اور اس فلسفہ کو بڑی تفصیل سے ابن طفیل نے حی ابن یقظان میں سمجھایا ہے۔
یہاں ہم نفس سے ذہنی سطح پر برابر کا ہم خیال اور ہم دم شخص مراد ہے۔ جو اس کے منصوبے میں مدد دے سکے۔ اس کی تلاش دنیا میں تمام منصوبہ سازوں اور رہنماؤں کو رہی ہے۔ جنہوں نے نظام عالم کو سجھنے کے بعد سمجھا نے کی کوشش کی ہے۔چنانچہ اسرار ورموز میں دیباچہ کے طور پر علامہ اقبال نے مولانا روم کے اس معنی کے اشعار کو استعمال کیا۔
دی شیخ پا چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودد ملونم وانسانم آرزوست
زیںہمر ہان ست عناصر دلم گرفت
شیر خدا ورستم دستانم آرازوست
(مولانا جلال الدین رومی)
شروع سے ہ رپیغمبر، ہر مصلح اور ہر مرشد کو یہی تلاش رہی ہے۔ جو بات اس کی سمجھ لے اور ہم نفس بن جائے۔حضرت موسیٰ نے دعا کی اور خدا نے حضرت ہارون کو ان کے ساتھ کر دیا۔رسول اللہ صلعم نے اپنے اصحاب کو چاہا اور علامہ اقبال کی شاعری کا مقصد بھی پیغمبری کی ترجمانی ہے۔
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارث پیغمبری است
اس کی تکمیل کسی ہم نفس ،کسی ہمراز اور ہم خیال کے بغیر ناممکن ہے۔اس لئے مناجات میں سب سے پہلی یہی دعا کی ہے ،اسی دعا کے لئے انہوں نے آرزو کا لفظ استعمال کیا ہے۔جیسا کہ جدید تشکیل، جدید الہیات اسلامیہ میں دعا کے فلسفہ میں انہوں نے لکھا ہے ۔’’ دعا خواہ انفرادی ہو، خواہ اجتماعی،ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے۔کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں وہ اپنی پکار کاکوئی جواب سنے۔’’یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ بحالت اجتماع میں ایک عام انسان کی قوت ادراک کہیں زیادہ بڑھ جاتی اور اس کے جذبات میں کچھ ایسی شدت اور ارادوں میں وہ حرکت پیدا ہوتی جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ہر گز ممکن نہیں لہذا بہ لحاظ ایک جسمانی مظہر دعا ایک راز ہے۔‘‘
نالہائے دل نواز: نالہ اور فریاد انتہائی اضطراب ،بے چینی اور عشق کی علامت ہے ،غالب نے لکھا تھا۔
نلہ پابند نے نہیں ہے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
لیکن اقبال کا نالہ انتشار بے حالی اور دیوانگی کی علامت نہیں،بلکہ اس میں دل نوازی موجود ہے۔ہم نفس کی آرزو میں جب شدت ہوتی ہے ۔اور نالہ نکلتا ہے۔ تو وہ شدت آرزو دل کشی کا باعث ہوتی ہے۔ اس میں تنوع ہے۔ نئے نئے انداز اور طرح طرح کے پیرایہء بیان پیدا ہوتے ہیں۔
علامہ اقبال نے یہ ایک بڑی نفسیاتی چیز بیان کی ہے۔ جو سبق آموز بھی ہے۔ اہل حق اور ایمان کی تبلیغ کرنے والوں کے بیان میں اکثر تلخیآجاتی ہے۔ شعلہ بیان مقرر بھی واعظ میں شدت حال میں تلخ ہو جاتے ہیں۔ لیکن خلق عظیم کے حامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اور آرزوئے دعا میں کبھی نرمی،محبت اور دل نوازی کے علاوہ کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کیا۔علامہ اقبال بھی حکیم الامت ہیں۔اخلاق کے مبلغ ہیں۔ اس لئے ازروئے ہم نفس میںان کے نالوں میں دل نوازی اور کشش ہے۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک نالہ ہم نفس کی بیداری اور اس میں تحریک پیدا کرنے کا سبب ہے۔ نہ کہ آشفتگی ،پریشانی اور اپنے اضطراب کے اظہار کا ذریعہ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے۔
نالہ تو بیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ
عشق کاریست کہ بے آہ وفغاں تیز کنند
ترجمہ:۔ہم نفس کی آرزو اسے تڑپاتی ہے۔ یہ آرزو اس میں دل نواز نالے پیدا کرتی ہے۔
مطلب: اقبال کا مدعا یہ ہے کہ تمام تعلیم،تکلم، تخاطب دوسرے ہم دم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور کتاب کا مقصد ہی زندگی کے نئے راز بیان کرنا ہے۔جو اس قوم کے لئے دوسرے جہان کی گفتگو ہے۔ لہذا یہ تمام تعلیمات اور تمام آرزوئیں کام یاب نہیں ہو سکتیں۔ جب تک دوسرا ہم نفس اور ہم خیال نہ ہو۔ اس لئے سب سے پہلی آرزو جس نے انسان کو تڑپا دیا ،جس نے شاعر کو بے چین کردیا وہ ہم نفس اور ہم خیال کی آرزو ہے۔ اور یہ آرزو شاعر کو نئے نئے پیرایہء بیان اور دل نواز طریقے سکھاتی ہے۔
لیکن ایں عالم کہ از آب وگل است
کے تواں گفتن کے دارائے دل است
لیکن اس آب وگل کی دنیا کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں دل ودماغ ہے۔
عالم آب وگل: زمین کے ارتقاء اور انسانی آبادی کے نشو ونما کے لئے ماہرین اراضیات اور ماہرین علم الحیات اور علم الحیوان کے سائنس دان جومدارج اور جو عمریں قائم کرتے ہیں۔ان میں اور مذہب اسلام اور فلسفہ ء اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مفکرین اور شارحین ہمیشہ اپنی رسائی کے موافق اس کی تشریح کرتے رہے ہیں۔لیکن قرآن شریف میں کسی ایسی بات کا وجود نہیں ہے کہ جو سائنس کے انکشافات اور ثابت شدہ نظریے کے خلاف ہو۔ فلسفیوں اور مفکرین اسلام نے جو کچھ کہا ہے۔اس کا ذکر تو بعد میں آئے گا۔ لیکن خود صوفیہ نے ارتقاء کے مسئلہ کوآج سے سینکڑوں سال پہلے اس طرح لکھا ہے ،جیسے موجودہ سائنس کا نظریہ بیان کر رہے ہیں۔ مولانا روم نے کہا ہے:
آمدہ اول بہ اقلیم جماد
وز جمادی در نباتی اوفتاد
سالہا اندر نباتی عمر کرد
وزنباتی یاد ناورد از نبرد
حیات اور وجود پہلے نباتات کی شکل میں ظاہر ہوئے پھر جمادات سے نباتات میں اوراس طرح عمریں گزر گئیں تب کہیں نباتات سے حیوانی حالت پیدا ہوئی۔اسی طرح درجہ بہ درجہ اور ملک در ملک کی تبدیلی کے بعد انسان عاقل ودانا ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انسان کا ارتقاء یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اس کی منزلیں اس عقلی دنیا سے بھی آگے ہیں۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جاحظ پہلا شخص ہے۔ جس نے ان تغیرات کی طرف اشارہ کیا۔ جو نقل مکانی اور ماحول کے زیر اثر اکثر حیوانات کی زندگی میں بالعموم رونما ہو جاتے ہیں۔ آگے چل کر جا حظ کے ان نظریات کو اس حلقے نے جو اخوان الصفا کے نام سے مشہور ہے۔ مزید وسعت دی۔ابن مسکویہ (۴۲۱) پہلا مسلمان مفکر ہے جس نے انسان کی ابتدا اور اس کے ارتقا ء کے بارے میں ایک واضع اور متعدد پہلوؤں سے جدید نظریہ پیش کیا۔‘‘
علامہ اقبال نے جنت سے آدم کے زمین پر اترنے کے سلسلے میں کہا ہے کہ یہ زمین پر ہی انسان کے ارتقا کا قصہ ہے۔ جس نے آب وگل کی دنیا میں شعور کی طرف قدم بڑھایا۔اور حیوانی حالت سے بڑھ کر انسان دانا اور ہل دل ہو گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’قرآن پاک کی‘‘ اس روایت میں لفظ جنت کا اشارہ حیات انسانی کے اس ابتدائی دور کی طرف ہے۔جس میں انسان کا اپنے ماحول سے ابھی عملا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا تھا۔اور جس میں وہ اس تکلیف دہ احساس سے بے خبر تھا۔جو اپنی ضروریات میں محتاجی کو دیکھتے ہوئے ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن جو گوای تمہید ہے تہذیب وتمدن کی۔
وہ لکھتے کہ قرآن نے آدم (یا آدم کے اترنے) کا جو قصہ بیان کیاہے۔ اس سے یہ بیان کرنا مقصود نہیں کہ زمین پر انسان کا ظہور کس طرح ہوا ہے۔ بلکہ قرآن مجید کے پیش نظر حیات انسانی کا وہ ابتدائی دور ہے۔ جب اس پر جبلی خواہشات کا غلبہ تھا۔ اور جس سے گزر کر اس نے آہستہ آہستہ محسوس کیا کہ وہ اپنی ذات میں آزاد ہے۔اس کا اشارہ اس تغیر کی طرف ہے۔ جو شعور کی صاف اور سادہ حالت میں شعور ذات کی ا ولین جھلک سیا نسان نے اپنے اندر محسوس کیا۔ وہ خواب فطرت سے بیدار ہوا۔اور اس نے اس دنیا میں خرد کو مختار اورصاحب عقل محسوس کیا۔‘‘ ۴؎
۱۔ تشکیل جدید (ص۱۸۲،۱۸۳) ۲۔ تشکیل جدید (ص ۱۲۷،۱۲۸)
دارائے دل
یہ آب وگل کا عالم جس میں شعور ذات اور عقل نہیں ہے۔ جب اس آب وگل میں صفات آدمی پیدا ہو جاتی ہیں تو یہ درائے دل اور دلا والا بن جاتا ہے۔ اور پھر یہ دل عرش کی طرف اور انتہائی بلندیوں کی طرف پرواز کرتا ہے۔بقول مولانا روم:
پس صفات آدمی شد آن جماد
بر فراز عرش پران گشت شاد
اصل میں اس آب وگل میں اگر حرکت،لگن اور عشق پیدا ہو جائے تو وہ صاحب دل ہے۔ ورنہ آب وگل کا پتلا اور راکھ کو ڈھیر ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اور اس جگہ یہ بھی واضع رہنا چاہیئے کہ یہاں دارائے دل سے وہ عشق مراد ہے ،جو عقل کا نتیجہ ہے۔ اس لئے کہ کم عقلی سے ناقص عشق پیدا ہوتا ہے۔ جس کا تعلق اس آب وگل سے ہے۔ شعور ذات سے نہیں ہے۔ بقول مولانا روم:
دانش ناقص کجا ایں عشق زاد
عشق زاید ناقص اما بر جماد
اور اسی لیے سعدی نے کہا تھا:
آدمی را عقل باید دربدن
ورنہ جان در کالبد دارد جماد
اور اس جگہ پر یہ بھی واضع رہنا چاہیئے کہ اس آب وگل کی دنیا میں انسان کو فضیلت اور قدرت حاصل ہے۔ اس کی وجہ محض اس کا ترقی یافتہ شعور اور اس کی عقل (دل) ہے۔ ورنہ اس آب وگل کی دنیا میں مادی قوت ذرے ذرے میں اتنی ہے کہ ایک ذرہ شق ہو کر پہاڑ کو اڑا دے۔ مگر شعور کی خفتگی کی وجہ سے مقررہ اور معمولی حرکت کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کر سکتا۔انسان کا شعور اس قوت کو فعل میں تبدیل کرتا ہے۔ اور شمس وقمر اس کے لئے مسخر ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ محض علم فطرت اور علم اشیاء ہے۔ جس کی بدولت کائنات کی قوتیں اس کے سامنے سر بسجود ہو جاتی ہیں۔۱؎
آدمی رازیں ہنر بے چارہ گشت
خلق دریا ھا وخلق کوہ دشت رومی
ترجمہ: لیکن یہ عالم کہ آب وگل کی دنیا ہے۔ اسے دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیا دل رکھتی ہے۔
مطلب: شاعر جب اس جہان آب وگل اور خاکدان عالم کی طرف نظر ڈالتا ہے۔ تو یہ تمام مادی دنیا اسے جمود وسکوت کی دنیا نظر آتی ہے۔ یہاں سے وہاں تک تمام عالم میں سکوت چھایا ہوا ہے۔کہیں بھی اس میں تحریک، عزم، فکر اور عقل کی کارگزاری نظر نہیں آتی ہے۔ دل خدا کا عرش ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ مومن کا دل اللہ کا گھر ہے۔ یہ دل ہی ہے جو کائنات کی رنگینی اور رنگ آمیزی کا سبب ہے۔انسان پہلے دل ودماغ اور عقل کی وجہ سے تمام مخلوقات میں برتر ہے۔اور اس دل ودماغ میں اگر پرواز کی لگن ہے تو یہ آسمانوں اور ستاروں پر کمند ڈالتا ہے۔ اور ساری کائنات کی تسخیر کا عزم رکھتا ہے۔لیکن انسان کے سو پوری کائنات بے حس اور بے ھرکت ہے۔ شاعر اس لحاظ سے جب اس آب وگل کی دنیا کو دیکھتا ہے ،تو اسے کہیں کوئی ارادہ ،عزم اورقوت فکر نظر نہیں آتی۔آخر وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس دنیا کوتو ہم دیکھتے ہیں۔کہیں دل نظر نہیں آتا،پوری دنیا بغیر دل ودماغ کے ہے۔ اور واقعی جس طرح انسان کے بدن میں دماغ ہے۔ عقل ہے۔ اس کے بغیر انسان گوشت وپوست کا ایک پتلا ہے۔ اسی طرح یہ کائنات بغیر انسان کے خالی دنیا ہے۔پھر خالی دل اور خیالی دنیا میں کچھ فرق نہیں رہتا۔
۱۔خلیفہ عبد الحکیم۔حکمت رومی، ص۴۵،۱۴۴۔
علامہ اقبال نے یہاں ارتقائے عالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بات کو انجام تک پہنچا دیا ہے۔ کہ یہ جہان آب وگل اہل دل اور خدا طلبی کے بغیر بے کار ہے۔
اگرچہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔(خلقنا کم من تراب) لیکن وہ اس خاک سے ابھر کر کائنات کی کار فرما قوتوں کا سردار بن جاتا ہے۔اس لئے کہ اسے خدا نے علم عطا کیا ہے۔جو عقل کو پختہ کرتا ہے۔ عقل پر کائنات کا نظام قا ئم ہے۔ اور انسان میں اس کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ صورت پائی جاتی ہے۔ اس لیے وہی کائنات کی تسخیر کرنے والا بھی ہے۔
بحر ودشت وکوہ کہ خاموش وکر
آسمان ومہر وماہ خاموش وکر
خاموش وکر
خاموش اور بہرے،قرآن شریف میں انسان کی بدترین صورت اس کے گونگے اور بہرے ہو جانے کی بتائی ہے۔صم بکم عم فھم لا یرجعون
انسان حواس کے ذریعے ادراک کرتا ہے۔ اور یہی علم کا ذریعہ ہیں۔ان میں حاصل کرنے کا ذریعہ زبان ہے۔ اس لئے حواس میں سے ان دو کا ذکر سب پر حاوی ہے۔
ترجمہ:
سمندر اور جنگل اور پہاڑ وسبزہ سب چپ چاپ ہیں۔ اور بہرے ہیں۔ آسمان اور سورج اور چاند خاموش ہیں۔اور سننے کی طاقت نہیں رکھتے۔
مطلب: علامہ اقبال اوپر کے شعروں میں یہ بتا چکے ہیں کہ تمام روئے زمین پر صرف انسان ہی دل ودماغ رکھتا ہے۔
اب اس شعر میں وہ اس بات کی مزید تشریح کرتے ہیں کہ روئے زمین ہی کو کیا تمام کائنات کو آپ دیکھ لیں،یہ سب ادراک بالحواس اور عقل سے خالی ہیں۔یہ بحر ذخاریہ ،جنگل ،بیابان لق ودق،یہ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے بلند وبالا پہاڑ،یہ تمام میدانوں میں لہلہاتا ہوا سبزہ،سب خاموش ،بے زبان،گویائی سے خالی، اور سماعت کی طاقت سے عاری اور بے بہرہ ہیں۔زمین ہی کے اوپر کیا انحصار ہے۔ آپ اوپر نظر اٹھا کر دیکھیئے اور غور کیجیئے۔ کہ یہ آسمان ،یہ سورج یہ چاند سب خاموش اور بے کان ہیں۔ نہ بول سکتے ہیں ،نہ سن سکتے ہیں۔یہ سب بہرے ،اندھے اور گونگے ہیں۔اللہ کی پناہ ،ایسی ایسی زبردست طاقتیں جن کو انسان نے اپنی کم عقلی، نادانی اور ناتجربہ کاری سے اپنے ابتدائے شعور قدیم زمانے میں جن کو خدا بنا لیا تھا۔کہیں سمندر کی پرستش ہوتی تھی، تو کہیں گھنے جنگلوں اور بڑے بڑے درختوں کی پوجا ہوتی تھی۔ کہیں ہوا، بادل اور شہاب چاقب کی پرستش ہوتی تھی اور کہیں اجرام سماوی، اور چاند ستاروں کو دیوتا مانا جاتا تھا۔دنیاکا کون سا خطہ اور کون سا ملک ایسا ہے کہ جو یہ دعوے کرے کہ اس کے باشندے بے عقلی،کم فہمی اور نا سمجھی کا شکار نہیں ہوئے۔ آج بھی بہت سے ملکوں میں ان کی پرستش ہوتی ہے۔اور اس بیسویں صدی تک انسان ان بہرے،گونگے،پاہج بے طاقت ،بے شعور مجبور اور بے جان چیزوں کی کسی نہ کسی شکل میں پرستش کرتا ہے۔
یہ صرف اسلام ہے،جس نے انسان کو اشرف المخلوقات،خدا کا خلیفہ اور کار خانہ قدرت کا مسخر کرنے والا قرار دیا ہے۔اور اس پر مامور کیا ہے۔بلکہ یہ یقین پیدا کیا ہے کہ تو ہی اس تمام کائنات کی تقدیر بنانے والا ہے۔
لہذا شاعر نے اس اسلامی نظریے کو سمجھانے کے لئے عبرت دلانے کے واسطے ایک تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے۔اور کائنات کی ایک ایک عظیم الشان چیز گنا کر سامنے رکھ دی کہ چشم عبرت سے دیکھو۔ یہ سبکیسے بے جان، بے حس اور بہرے گونگے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن شریف نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے بلکہ دعوت فکر دی ہے۔ کہ ہواؤں کے مسلسل تغیر وتبدل کا مشاہدہ کیا جائے۔دن رات کے اختلاف،تاروں بھرے آسمان اور بادلوں کا جو فضائے لا محدود میں تیرتے پھرتے ہیں۔ان کے اسباب حقائق معلوم کیے جائیں،مسلمانوں نے اپنے ابتدائی ایام میں اس دعوت کو قبول کیا۔اور انہوں نے بحر وبر اور افلاک کا مطالعہ کرکے ایک حد تک تسخیر کی طرف قدم بڑھایا۔اس لئے کہ قرآن شریف میں کہا گیا تھا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے قبضہ قدرت میں دیا ہے۔اب یہ انسان کے اوپر ہے کہ جد وجہد کرکے ان کے اوپر حکمران ہو جائے ،لیکن مسلمان بہت جلدی عقلی علوم اور سائنس وحکمت کو چھوڑ کر حیوانی زندگی کی طرف مائل ہو گئے۔بقول فارابی جو فرد یا معاشرہ نور علم سے خالی ہے۔وہ حیوانی حالت میں ہے۔‘‘
فارابی۔مدینۃ الفاضلہ
موجودہ یورپ کی تہذیب حقیقت میں مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے علوم ہی کا ثمرہ ہے۔جنہوں نے دنیا میں سب سے پہلے تہذیب وتمدن اور افکار کی بنیاد ادراک بالحواس پر رکھی،اور مشاہدات وتجربات کی بنیاد ڈالی۔اور اس بنیاد پر یورپ نے اپنی تہذیب کی شاندار عمارت قائم کرلی۔ یہ چیز یونان کو میسر نہیں تھی۔ مشاہدات اور تجربات پر وہاں کی بنیاد نہیں رکھی گئی تھی۔
افلاطون جو ارسطو کا استاد تھا۔ اسے بھیا دراک بالحواس سے نفرت ہی رہی۔ اس کا خیال تھا کہ ادراک بالحواس سے کوئی حقیقی علم تو حاصل نہیں ہوتا ۔
’’ برعکس اس کے قرآن مجید نے سمع وبصر کا شمار اللہ تعالیٰ کے گراں سدر انعامات میں کیا ہے۔ اور اللہ کے سامنے اپنے اعمال وافعال کا جواب دہ ٹھہرایا ہے۔
علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ مسلمانوں پر چور سوبرس سے جمود کی کیفیت طاری ہے۔۔۔ پچھلی متعدد صدیوں میں جب عالم اسلام پر غفلت اور مدہوشی کی نیند طاری تھی، یورپ نے ان مسائل میں نہایت گہرے غور وفکر سے کام لیا ہے، جن سے کبھی مسلمان فلسفیوں اور سائنسدانوں کا شغف رہا ہے۔۔۔قرون وسطی سے لے کر اب تک انسانی فکر اور تجربے کی دنیا میں غیر معمولی وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ فطرت کی تسخیر اور اس پر غلبے نے انسان کے اندر ایک تازہ یقین پیدا کر دیا ہے۔
پھر جوں جوں افکار ترقی کر رہے ہیں۔ انسانی علم وادراک کے متعلق بھی ہمارے تصورات بدل رہے ہیں،آئن سٹائن کے نظریہ نے کائنات کا ایک نئے روپ میں پیش کر دیا ہے۔
غرض یہ کہ علم ہی انسان کی فضیلت کا سبب ہے۔ جو اس تمام کائنات پر اسے فضیلت دیتا ہے۔ اور علم کا مطلب ہے کسی حقیقت کا شعور اور تجربہ میں آنا۔۔گویا علم کا دار ومدار حواس پر ہے۔لہذا یہ تمام کائنات،یہ بحر وبر ،یہ پہاڑ اور میدان،یہ آسمان اور چاند سورج سب حواس کے استعمال سے خالی ہیں۔انہیں کسی چیز کا علم نہیں ،یہ مجبور محض اور بے جان ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرچہ بر گردوں ہجوم اختر است
ہر یکے از دیگرے تنہا تر است
ترجمہ: اگر چہ آسمان پر ستاروں کا ہجوم ہے۔ لیکن ہر ایک دوسرے سے بھی زیادہ تنہا ہے۔
علامہ اقبال نے اوپر کے شعر میں یہ بتایا ہے کہ بحر،بر ،پہاڑ ،میدان ،سبزہ اور چاند سورج سب مجبور بے ارادہ اور گونگے بہرے ہیں۔اس سے انسان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ کہ وہی صرف حواس رکھتا ہے۔ اسے ہی علم حاصل ہے۔اس کی دوسری مثال اس شعر میں پیش کرتے ہیں۔
دیکھیے اگر چہ آسمان پر ستاروں کا ہجوم ہے۔ ستارے بھی ایسے بڑے کہ جن کے سامنے زمین کی حیثیت ایک ذرہ سے بھی زیادہ نہیں،پھر اس قدر کثرت ہیں کہ جن کا شمار نہیں،کہیں آپ کو ستاروں کا گچھا خوشہ پروین اور ہجوم بھی نظر آتا ہے۔ خیر وشر کا امتیاز نہیں ہے۔ ادراک بالحواس یعنی علم نہیں ہے۔ ہجوم اور کثرت طاقت اقتدار اور جمعیت کی علامت ہے۔لیکن یہ شرف اس کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ جہاں دو ہوئے سوسائٹی بن جاتی ہے۔معاشرت پیدا کرتا ہے۔ تہذیب وتمدن کا آغاز کرتا ہے۔اور اس کے مقابلے میں ستاروں کا ہجوم جو اتنے اتنے بلند بھی ہیں کہ بعض کی روشنی پانسو سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ اور بہ ظاہر روشنی کی رفتار فی سیکنڈ ایک لاکھ اسی ہزار ہے۔اور اس طرح ہم ان کی دوری کا اندازہ نہیں کر سکتے۔لیکن ہر ستارہ دوسرے ستارے سے زیادہ بے یار ومددگار اور تنہا ہے۔ یہ سعادت صرف انسان کے حصے میں آئی ہے کہ وہ تسخیر عالم کے عزائم رکھتا ہے۔اور فطری طور پر تعاون اور معاشرت پسند ہے۔
اس لیے قرآن شریف میں یہ ہدایت کی گئی ہے،کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ اور متفرق مت ہو۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ اتحاد سے رہو۔ اس طرح تمام انسان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے زیادہ مدد اور تعاون کے خواہاں اور شریک رہتے ہیں۔ لیکن ستارے اس کثرت سے ہونے کے باوجود تنہا تنہا ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں کشش بھی ہے۔ان کا نظام اضافیت پر مبنی ہے۔ اور ایک دوسرے سے نسبت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن اس کشش اور اضافیت اور تعلق کی بناء پر ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔اور ایک بندھے ٹکے نظام کے ماتحت ،اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے عزائم میں نہ شریک ہیں اور نہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ایک نکتہ قارئین کے پیش نظر اور رہنا چاہیئے کہ یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے۔ کہ ستاروں کے اثرات مسلم ہیں،ان کی تاثیر مانی ہوئی ہے۔ انقلابات عالم میں ستاروں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مثلا اٹلی میں رصد گاہ کے پروفیسر فائل بنندی نے انکشاف کیا کہ ۱۲ نومبر ۱۹۷۰ع کا قیامت خیز طوفان در اصل شمسی دھبوں کے اثرات سے آیا اور یہ ان شمسی دھبوں کا اثر تھا کہ مشرقی بنگال کے طوفان میں لاکھوں افراد کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ان کے اثرات دیکھ کر پیشین گوئیاں کرتے ہیں،اور ماہرین افلاکیات ان کے عمل وتاثیر کے انکشاف اور تجربہ میں مصروف رہتے ہیں۔اس انقلابی تاثیر سے آپ مغالطہ میں مبتلا نہ ہو جائیں،کہ خود ستارے مصروف عمل اور کائنات میں رد و بدل کے مختار ہیں۔ستاروں کے یہ اثرات خود ستاروں کے ارادے سے مرتب نہیں ہوتے۔ وہ تو بے جان اور بے حس ہیں۔ یہ اثرات فطری ہیں،جن پر انہیں خود کوئی اختیار نہیں، نہ وہ ایک دوسرے کی کوئی مدد کر سکتے ہیں۔نہ ان اثرات کو روک سکتے ہیں،ہر ستارہ اپنی جگہ تنہا اور بے بس ہے۔
ہر یکے مانند ما بے چارہ ایست
در فضائے نیلگوں آوارہ ایست
ترجمہ:ہر ستارہ ہماری طرح مجبور ہے اور نیلگوں فضا میں آوارہ ہے۔
اوپر کے شعر کے ساتھ ہی معنی کے تسلسل کے ساتھ علامہ اقبال آگے تشریح کرتے ہیں کہ دیکھیے ہر ایک ستارہ مجبور ہے۔ جیسے ہم مجبور ہیں۔ اور یہ سب اس نیل گوں فضا میں اپنے اپنے مدار پر گھوم رہے ہیں۔آوارہ۔
آوارہ کہہ کر شاعر نے یہ بات ثابت کی ہے کہ یہ سب پریشان بکھرے ہوئے اور مقصدیت اورا رادہ سے خالی ہیں۔ ان میں نہ اتحاد ہے، نہ یگانگت اور نہ جمعیت ہے۔
لیکن جو بات اس شعر میں غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ ہر ستارہ ہماری طرح بے چارہ اور مجبور ہے۔ اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ جس انسان کے اختیار عزائم اور اہل دل ہونے کی ا تنی تعریف ہو رہی تھی۔وہ ان آوارگان افلاک کی طرح کس طرح بے چارہ اور مجبور قرار دے دیا گیا۔لیکن حقیقت میں یہی نکتہ انسان کے لیے مابہ الامتیاز بھی ہے۔
انسان تمام کائنات کی کار فرما قوتوں کا سردار اور اشرف المخلوقات ہے۔ صاحب ارادہ اور صاحب دل ہے ۔تمام کائنات کے لئے خدا کا خلیفہ ہے۔ لیکن خدا کے سامنے اور خالق کے سامنے اس پیکر خاکی کی حیثیت اپنی تخلیق کے حساب سے دوسرے اجرام سے مختلف نہیں ہے۔ پیدائش اس کے اختیار میں ہے اور نہ موت، انسان اپنے عناصر کی طرح طبیعات کے قوانین کا پابند ہے۔ یہ اس کی عبودیت اور بندگی کا مقام ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنی طبعی حالت میں طبعی قانون کا پابند ہے۔ اور طبعی قانون کے سامنے بے چارہ اور مجبور ہے۔جیسا کہ قرآن شریف میں ارشاد ہے،اگر انسان چاہے کہ اس کائنات سے باہر نکل جائے تو نہیں نکل سکتا۔ لیکن سلطان اور قوت کے ذریعے نکل سکتا ہے۔۱؎
لہذا طبیعات میں وہ ان اجرام واجسام کی قسمت میں شریک ہے۔ اور عقل کی وجہ سے ان پر فضیلت رکھتا ہے۔
کاروان برگ سفر تا کردہ ساز
بیکراں افلاک وشب ہا دیر یاز
بیکران افلاک:
آسمانوں کی انتہا نہیں ہے۔ان کی وسعت ،ان کا کنارہ ان کا اختتام ہمارے وہم وگمان میں نہیں آسکتا۔ ہمارے تصور اور خیال میں بھی ان کی حد میں نہیں آسکتی۔ابھی تک ہمارے علوم کی سر حدیں ایک ہی نظام شمسی تک نہیں پہنچی ہیں۔اور یہ یقین ہو گیا ہے کہ ایسے سینکڑوں نظام شمسی ہیں،اور ان ستاروں اور نظاموں کے آگے اور کیا نظام ہیں۔ ان کا قطعی اندازہ نہیں،
۱۔من اقطار السموات الا بسلطان۔
ہماری جد وجہد اور تسخیر کے لئے اتنی وسیع کائنات ہے۔جس کے ایک پہاڑ کے میں سے ایک ذرہ بھی ہم قبضہ میں نہیں لا سکتے ہیں۔ ابھی تک انسان ستاروں کی دنیا سے آگے کاتصور نہیں کر سکا ہے۔ معلومات تو بعد کی بات ہے۔ لیکن یہ کائنات ،ستاروں اور افلاک کی دنیا غیر محدود ہے۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
شب ہائے بر یاز
راتیں بہت دراز ہیں۔راتوں سے مراد جہالت ،ناواقفیت اور کوتاہی علم ہے۔ مستقبل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے۔بلکہ انسان کو ابھی جو کچھ معلوم ہے۔ وہ بہت ہی کم ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ انسان ان تاریک اور دراز راتوں میں گھرا ہوا ہے۔نور علم کی صحیح صبح کب ہو گی۔اور حقائق عالم اور علم اشیاء سے کب آگاہ ہوگا،تسخیر کائنات کے قابل کب ہوگا؟۔ابھی کچھ اندازہ نہیں، جسے ہم آگاہی اور علم سمجھتے ہیں ۔وہ تو ابھی اس آگاہی اور علم کی ایک جھلک ہی ہے۔دنیا کے بڑے بڑے فلسفی ،عالم اور سائنسداناور عارف بھی یہی کہتے ہیں کہ جو کچھ جانا ہے۔ وہ نہ جاننے کے برابر ہے۔ اس کائنات کی راہ بڑی پر خطر ہے۔ بقول حافظ
ع ،شب تاریک وبیم موج وگرداب چناں حائل
ترجمہ: قافلہ نے سامان تیار نہیں کیا،آسمان کی وسعتوں کی انتہا نہیں ،اور راتیں دراز ہیں۔
انسانی قافلہ کا سامان سفر اور حیات انسانی کی ترقی کے ذرائع میں سب سے پہلی اور سب سے بنیادی چیز علم ہے۔انسان کی عمر طبیعی محدود ہے۔ تجربات اور مشاہدات سے اور دوسروں کی کوشش سے جو انسان کو علم حاصل ہوا ہے۔ وہ بہت محدود ہے۔پھر علم ایسی چیز نہیں ہے۔ جو بخش دی جائے،عطا کر دی جائے،یا خزانے کی طرح ایک دم مل جائے۔ بلکہ علوم کو خود حاصل کرنا پڑتا ہے۔ وہ علم انفرادی ہو یا اجتماعی ،وہ علم پوری قوم مل کر حاصل کرے یا ایک دفعہ پھر اس کے مدارج ہیں۔اور علم کے ان مراتب کا بھی کوئی شمار نہیں،لیکن جب تک انسان علم کے ایک مرتبہ میں کامل نہیں ہو جاتا۔دوسرا مرتبہ اور آگے کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا۔جب تک کسی نے مبادیات کے درجات کا علم حاصل نہیں کیا ہو۔ وہ اوسط درجے کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔اور جس نے اوسط درجے کی تعلیم حاصل نہ کی ہو۔ وہ ایک دم اعلیٰ مدارج پر نہیں پہنچ سکتا۔،ہر درجہ بلندی پر فائز ہونے کے لئے نیچے کے درجے کی تعلیم میں پختگی لازمی اور ضروری ہے۔
جو قوم کم درجے کے علم سے آگے نہیں بڑھتی ہے۔ وہ اعلیٰ مدارج میں ایک دم کبھی داخل نہیں ہو سکتی۔جب تک تمام قوم تعلیم یافتہ نہ ہو، اور اجتماعی طور پر سب جماعت اعلیٰ مدارج میں داخل نہ ہو مجموعی ترقی نہیں ہو سکتی۔ چند افراد کی اعلیٰ تعلیم سے قوموں کی ترقی نہیں ہوا کرتی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے پوری امت کی تعلیم کی طرف توجہ دی۔اور ہر پڑھے لکھے قیدی پر آزادی کی شرط یہ لگا دی کہ وہ دس آدمیوں کو لکھنا پڑھنا سمکھا دے۔
جو قوم علم کی سرحدیں جب تک وسیع کرتی چلی جائے گی۔ اس وقت تک ترقی کرتی چلی جائے گی۔ دنیا میں ترقی کے مدارج کا پیمانہ علم ہے۔ جو قوم علم میں جتنی پختہ ہے۔ ترقی میں بھی اسی قدر اعلیٰ ہے۔ مولانا روم کہتے ہیں ،جب تک ایک درجے میں استواری پیدا نہ ہو،بالا تر درجے میں ترقی کی کوشش ناکام رہتی ہے۔لیکن اعلیٰ تر مقام میں پختگی سے متمکن ہونے کے بعد پھر ادنیٰ درجے میں زوال نہیں ہوتا۔ زندگی آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔اس کی مثال یہ دیتے ہیں،کہ جب گیہوں روٹی بن جاتا ہے۔ تو پھر اس کو واپس گندم کے خوشوں میں تبدیل نہیں کر سکتے۔
ع۔ ہیچ نانے خرمن گندم نشد
اگر تم پستی کی طرف پلٹنے سے بچنا چاہتے ہو،تو پہلے اپنی موجودہ حالت میں پختگی پیدا کر لو،اور آگے اپنے درجہ میں خام رہو گے تو لازمی نیچے گر جاؤ گے۔
پہیے کی ایجاد سے لے کر درجہ بدرجہ تمام ایجادات اور معلومات کی ترقی کی تاریخ پڑھ جایئے۔جس قوم نے علم میں ترقی کرنا چھوڑ دی،وہ پستی کی طرف پلٹ جائے گی۔علم ایسی ٹھوس اور جامد چیز نہیں ہے کہ اسے کسی حد پر قرار ہو۔ اور ٹہہرایا جا سکے۔ علم یا تو بڑھتا جاتا ہے ۔ یا پختہ سے پختہ تر ہوتا ہے۔ورنہ نا پختگی اور خامی کی وجہ سے پستی کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہم نے سفر حیات کا سامان تیار نہیں کیا۔اور دوسری طرف دیکھیے تو یہ سفر انتہائی کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ قدم قدم رکاوٹیں ہیں،جن پر غالب آنا ہے۔ ’’زندگی‘‘ خوفناک جد وجہد کا سرچشمہ بھی ہے۔ جو قرن ہا قرن سے جاری ہے۔لہذا ان باہم دگر مخالفت اور متزاحم انفرادیتوں کا یہی تصادم وہ عالم گیر درد ہے۔ جس سے اس چند روزہ زندگی کا رستہ تاریک بھی ہو جاتا ہے۔اور اگر ان پر غالب آنے کی کوشش کی تو منور بھی ہو جاتا ہے۔‘‘
۱۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ،ص ۲۳۲۔
پھر یہ دور دراز سفر لاتعداد آسمانوں،شب ہائے دراز نظر آتے ہوئے ستاروں،نیلگوں گہرائیوں اور تاریکیوں تک ہی نہیں ہے۔ بلکہ زمان ومکان سے بھی آگے تک یہ سفر چلا گیا ہے۔صوفیا تو پہلے ہی سے کہتے آئے ہیں کہ حقیقت نہ زمانی ہے نہ مکانی ،بلکہ عالم رو حانی میں ان کا مطلق اطلاق نہیں ہوتا۔۔ لیکن آئن سٹائن نے تو ریاضیات اور طبیعات سے اس کا قطعی ثبوت مہیا کر دیا ہے۔ کہ زمان ومکان اضافی ہے۔ ورنہ۔۔
ع۔ نہ زماں ہے نہ مکاں لا الہ الا اللہ
بقول مولانا روم:
لا مکانے کہ در ونور خداست
ماضی است قبل وحالش کجا ست
لیکن یہ واضع رہنا چاہیئے کہ یہ دور دراز سفر ،انسانی معاشرہ کی تنظیم، اوراس کی فلاح کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔اس لیے قرآن شریف نے ملی تنظیم اور معاشرت کے لئے چند خطوط قائم کر دیئے ہیں۔یہ ترقی کا سامان سفر ہے۔ جس کے بغیر قافلہ کا آگے بڑھنا ممکن نہیں،قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
’’ تم یتیم کی تکریم نہیں کرتے،مسکینوں کے طعام کے لئے ایک دوسرے کو نہیں اکساتے،اور سب کو چٹ کرتے ہوئے میراث چٹ کر جاتے ہو۔ اور مال سے تمہاری محبت بہت زیادہ ہے۔‘‘
۱۔ قرآن شریف (۷۹: ۱۷)۔
معاشرہ کی ترقی کا انحصار اس پر ہے کہ بے سہارا یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت کا اور برابر سے رہنے سہنے کا انتظام ہو، معاشرہ میں کوئی ننگا ،بھوکا اور غریب نہ رہ سکے۔ ایک دوسرے کے حقوق غصب نہ کریں۔(لوگ ایک دوسرے کا مال چٹ نہ کریں) یعنی میراث اجتماعی ہو یا انفرادی ،اس پر اپنا قبضہ نہ جمائیں۔اور لوگوں میں مال ومتاع کی بے لگام محبت کا دستور نہ ہو۔یہ بے لگام محبت معاشی مسابقت سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کو قرآن نے ختم کر دیا ہے۔
مسکین قرآن کی بڑی جامع اصطلاح ہے۔جو معاشی نظام کا احاطہ کرتی ہے۔ایسا نظام جس میں کوئی مسکین نہ رہے، کوئی مغلوب اور محتاج نہ رہے۔ پھر یہ کہ ان رکاوٹوں کو دور کریں ،جو محتاجی اور مغلوبیت پیدا کرتیہیں،ایک دوسرے کو اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں،ایسی پالیسی بنانا ایک مشکل نظام ہے۔ اس لئے خدا نے سفر حیات کی اس مشکل پسندی کو ترقی کے لئے لازمی اور فطری قرار دیا ہے۔ارشاد ہے:
’’ بے شک ہم نے انسان کو مشکلات میں گھرا ہوا پیدا کیا ہے۔ ’’ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لئے دو راستے ہیں۔ ایک آسان اور دوسرا مشکل،یہ دوسرا راستہ مشقت طلب اور صبر آزما ہے۔مگر جیسا کہ خدا نے کہا ہے کہ انسان کو خدا نے پیدا ہی مشکلات میں کیا ہے۔ اسکے لیے سیدھا راستہ وہی ہے ۔جو پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔ اور مثل چڑھائی کے نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دشوار گزار ہے۔
اگر یہ نظام قائم ہوتا ہے۔ تو یتیم بچوں کی برابر سے نگہداشت ہوتی ہے۔ کسی پر مسکینت طاری نہیں ہوتی۔اور لوگ دولت کی محبت میں ایک دوسرے پر سبقت نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کو کھانے کی کوشش نہیں کرتے ،بلکہ صبر سے کام لیتے ہیں،قربانی کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔اور ان کا یہ عہد عمرانی ہوتا ہے،تو ایسے معاشرے میں محنت کشی کی عادت لازمی ہوتی ہے۔ اور یہی اس کائنات کے دور دراز سفر کو طے کرنے لگتا ہے۔‘‘
خون دل وجگر سے ہے سرمایہ حیات
فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جل ترنگ
ایں جہاں صید است وصیادیم ما؟
یا اسیر رفتہ از بادیم ما
ترجمہ: کیا یہ جہاں شکار ہے اور ہم اس کے شکاری ہیں۔یا ہم ایسے قیدی ہیں ،جسے بھلا دیا گیا ہو۔اس میں پہلے کے شعر میں بتایا گیا تھا۔کہ کائنات ہمارے خواب وخیال سے زیادہ وسیع ہے۔ان آسمانوں کے کوئی کنارے نہیں،ان بلندیوں کا کوئی شمار نہیں،لاتعداد بے حد۔۔ پھر تاریکی ہی تاریکی ہے۔ غیب ہی غیب ہے۔ اور ناواقفیت ہی ناواقفیت ہے۔
اسی شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ یہ وسیع کائنات اور یہ تمام مواقع اور مشکلات موجود ہیں۔ کیا ہم اس جہاں اور اس کائنات کے تسخیر کرنے والے ہیں۔یہ تمام کار خانہ قدرت ہمارے قبضہ کے لئے وجود میں آیا ہے۔ کیا ہماری تگ وتاز کا میدان یہ وسیع عرصہء حیات ہے۔ کیا ہم اس کے فاتح ہیں؟۔
جب ہم غور وفکر سے کام لیتے ہیں اور علم وعمل سے کام لیتے ہیں،تو فورا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہر چیز اس کائنات میں ہماری تسخیر کی محتاج ہے۔صرف انسان ہی کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ وہ اس کائنات کی تسخیر کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کرے،اور یہ وہی سب کچھ ہے ،جس کی رہنمائی قرآن شریف میں کی گئی ہے۔
۱۔اقبال ریویو ،جولائی ۱۹۷۰ع ص۱۷،۲۳
لیکن جب گرد وپیش پر نظر پڑتی ہے اور اپنے معاشرہ اور مسلمانوں کی حالت کی طرف شاعر کی نظر پڑتی ہے تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ اور شاعر کی زبان سے بے ساختہ نکل جاتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم اس دنیا میں قید ہو گئے ہیں۔اس میں ایسے پھنس گئے ہیں کہ گویا ہم اس میں گرفتار ہیں۔ اور اس بے جان مادے دنیاکے کار خانے اور اس کی چیزوں کے ہم غلام بن گئے ہیں۔ہمارے اخلاق ،ہماری عادتیں،ہماری عقل اور ہماری تدبیریں سب الٹی ہو گئی ہیں۔جنہوں نے ہمیں غالب آنے کی بجائے اس دنیا کا قیدی اور اسیر بنا دیا ہے۔اور اسیر بھی ایسا کہ دنیا میں کہیں ہمارا نام ونشان ہی نہ رہے۔جیسے تہہ خانے میںکسی کو قید کرکے قید کرنے والا بھول جاتا ہے۔پھر باہر کی دنیا میں اس کا وجود اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ کہاں گیا یا پھر وہ ہے بھی یا نہیں۔
علامہ اقبال نے اس مسئلہ کو کئی کئی طرح سے اور کئی کئی جگہ بیان کیا ہے۔اور شروع ہی سے اس حالت زار کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔
سن اے غافل صدا میری،یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک لذت پرواز پیدا کر
زمین پر تو ہو؟۔ اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
یہی آئین فطرت ہے،یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن،محبوب فطرت ہے
(بانگ درا)
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اس شعر میں انسان کے عروج وزوال کی پوری داستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دونوں راہوں کی نشان دہی کر دی ہے۔اور انسانی فکر پر ایک مہمیز بھی لگائی ہے۔ کہ انسان غور کرے کہ کیا ہم تسخیر فطرت کے لئے آئے ہیں یا عالم فطرت کے تابع ہو کر بے نام ونشان ہونے کے لئے آئے ہیں۔اس شعر کی روشنی میں ان کی تعلیم کا خلاصہ خود ان کی زبانی یہ ہو سکتا ہے۔
’’قرآن مجید کے نزدیک کائنات کے اندر کوئی بہت بڑا مقصد کام کر رہا ہے۔یہ فطرت کے ہی پیہم انقلابات ہیں،جن کے پیش نظر ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ آپ کو نئے نئے سانچوں میں ڈھال دیں۔پھر جوں جوں ہم ذہنی کاوشوں سے علائق فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔(اور عالم فطرت کی تسخیر کرتے ہیں،اس کا شکار کرتے ہیں۔)ہماری زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا ہوتا ہے۔اور ہماری بصیرت تیز تر ہو جاتی ہے۔(اور جو لوگ کم علم اور مسائل زندگی میں محتاج ہیں)(اور اگر سخت کوشش سے کام لے کر بصیرت تیز کرتے ہیں تو) یونہی ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ محسوسات ومدرکات (علوم وفنون) کے زیادہ نازک پہلو اپنی گرفت میں لے آئیں۔اور یونہی اشیاء کے حالات پر غور وفکر کرتے ہوئے ہم اپنے اندر یہ استعداد پیدا کر لیتے ہیں کہ لازمانی کیفیت کو بھی سمجھ سکیں۔حقیقت اپنے تمام تر مظاہر میں موجود ہے۔اور انسان جو ایک متزاحم ماحول میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس نظر آنے والے جہان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ لہذا قرآن پاک نے ہمیں انقلاب عالم یعنی تغیر جیسی زبردست حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے۔اگر ہم اس پر غور کرنے سے غفلت برتتے ہیں ۔یا اسے اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرتے ہیں(اور اس جہان کا شکار نہیں کرتے تو) ناممکن ہے کہ کوئی زندہ اور پائیدار تمدن قائم کر سکیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیائے قدیم کے سارے تمدن صرف اس لیے قائم رہے کہ انہوں نے حقیقت کی طرف داخل کی راہ سے قدم بڑھایا اور پھر داخل سے خارج کا،یوں انہوں نے نظریات تو قائم کر لیے مگر طاقت سے محروم رہ گئے۔تو ظاہر ہے کہ صرف نظریوں کی بنیاد پر کوئی پائیدار تمدن قائم نہیں ہو سکتا۔۱؎
اور مسلمانوں کا اب بھی یہی حال ہے کہ وہ اسلام کے نظریات تو بڑے جوش وخروش سے واعظانہ طور پر بیان کرتے ہیں،لیکن عملی زندگی میں وہ ا سے جاری نہیں کر سکے۔اس لیے نہ ان کی بصیرت تیز ہوئی اور نہ ہی وہ اس جہان کو تسخیر کر سکے۔
زار نالیدم صدائے بر نخواست
ہم نفس فرزند آدم را کجا است
زار نالیدم: زارز ار رویا۔ انتہائی اندوہ ،سوز ودرد کے ساتھ اور آہ سرد کے ساتھ (شرفنامہ منیری)گریہ کرنا،شدت وسوز کے ساتھ (برہان قطع)
زار نالہ حزیں آواز حزیں کے ساتھ، زار عجز واندوہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (آنند راج)
عاجزی اور شدت وسوز کے ساتھ نالہ کرنا (لغت نامہ دہ خدا)
ع زہر مز بہ یزداں بنالید زار (فردوسی)
ترجمہ: انتہائی اندوہ درد وسوز کے ساتھ اور آہ سرد کے ساتھ میں رویا۔لیکن کہیں سے کسی کی آواز نہیں نکلی۔(کیا انسانیت مر چکی ہے؟۔) کیا اولاد آدم اور بنی نوع انسان کے دکھ درد کو سننے والا ہمدرد اور ہم نفس بالکل ناپید ہے؟۔
۱۔تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ،ص۲۱،۲۲۔
اقبال نے اس سے پہلے آخر شعر میں یہ بات کہی تھی۔کیا ساری دنیا ،تمام لوگ اس زمانہ میں اپنی زندگی ختم کر بیٹھے۔ کیا سب ہی دنیا میں پھنس گئے اور بے حس وحرکت اور بے عمل ہو گئے۔ کارواں کے دل سے احساس سود وزیاں جاتا رہا۔ انتہائی جمود کا عالم ہے ۔یہ سوچ کرایک عجیب عالم طاری ہو گیا ہے۔ وہ زار وقطار اور انتہائی شدت ودرد کے ساتھ رویا۔اور رو رو کر مخلوق کو آگاہ کرنا چاہا کہ غور کرو ہم اس کاروان حیات میں زوال کے کس مقام پر پہنچ گئے ہیں۔تباہی اور بربادی ہم پر چھائی ہوئی ہے۔ فلاکت اور افلاس نے پوری قوم کو گھیر رکھا ہے۔بے علمی اور بے عملی نے ہمیں پست سے پست کر دیا ہے۔غلامی اور ذلت کی تمام نحوست ہم پر چھا گئی ہے۔ لیکن ہم پھر بھی بے حس وحرکت پڑے ہوئے ہیں۔گویا اس زوال کے ساتھ راضی ہو گئے ہیں۔اور اسی تباہی میں مست ہیں، اس عبرت ناک حال اور درد ناک سوز وگداز اور آہ وفریاد کے باوجود بھی کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی۔ کسی نے لبیک نہیں کہا۔اور اس مخلوق کا کوئی ہمدرد اور ہم نفس نہیں ملا۔
اقبال کے سامنے تاریخ عالم کے صفحے کھلے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی تباہی اور مغربی قوم کے استحصال کی الم انگیز اور حیرت آمیز داستان آنکھوں کے سامنے ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ سفید اقوام نے خاص طور پر انگریزوں نے مسلمانوں کو ہر ملک میں کس کس طرح بر باد کیا ہے۔
عربوں کو ورغلا کر شریف مکہ کو دام ہوس میں پھانس کرترکوں کا قتل عام کیا۔انکو برباد کرنے کے بعد عربوں کے ساتھ بے وفائی کی۔ اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلی سلطنت کے بیج بوئے اور عربوں کو انہی کے ملک میں ذلیل اور قتل کرکے کمزوروں کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا۔
ایک طرف تو ان کے سامنے مشرق وسطیٰ میںمسلمانوں کی حالت زار ،دکھ درد، تکلیف والم اور مصائب کی یہ خونچکاں داستان تھی اور دوسری طرفاس برصغیر کے مسلمانوں کی بربادی کا حال آنکھوں کے سامنے پھر رہا تھا۔
۱۸۵۷ء کی فتح کے بعد انگریزوں کے دماغ عرش پر پہنچ گئے،تو انہوں نے پھر کبھی زمین کی طرف نہیں دیکھا۔شروع ہی سے انہوں نے کاشکاروں ،صناعوں،اور اہل حرفت کو برباد کیا۔ علوم وفنون اور زبان پر قبضہ کرکے تمام قوم کو جاہل بے کار اور اپنی ضرورت کا غلام بنا لیا۔اپنے ملک کی صنعت وحرفت کو ہندوستان میں فروخت کیا اور یہاں کی دولت کو اندھا دھند لوٹنا شروع کر دیا۔
ہندوستان کے معاشرہ کی پوری سماجی اور اقتصادی بنیادیں ہلا دیں۔ تعلق داروں، ساہوکاروں اور کسانوں ،مزدوروں اور غریبوں پر اپنی جکڑ زیادہ مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا۔کہیں انہیں اپنا ایجنٹ بنایا، کہیں انہیں نمائندگی دی ،اور کہیں انہیں خطابوں اور تمغوں سے نوازا۔
غرض ہندوستان میں انگریزوں نے نئے نئے طریقوں کو جنم دیا،ساہوکار،زمیندار ،لینڈ لارڈ، سند یافتہ ،خطاب یافتہ، اعزازی مجسٹریٹ اور آئی ،سی ،ایس وجود میں آئے۔ جن کی وفاداریاں غلاموں سے بد تر حالت کے ساتھ انگریز کے ساتھ تھیں۔عدل وانصاف،حقوق وفرائض یا انسانی ہم دردی کے جذبات کو ان لوگوں نے ختم کر دیا تھا اور ایک خاص قسم کی غلامانہ ذہنیت ان وفا دار طبقوں میں پیدا کر دی تھی۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں سے بھی انگریز دماغ رکھنے والے ہندوستانی شکل کے لوگ پیدا ہو رہے تھے۔’’کہیں نصاب میں حریت ایثار اور قوم کے ساتھ ہمدردی وانصاف پیدا کرنے والا باب داخل نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘سیاست ،اقتصادیات اور عمرانی مسائل میں دنیا کے دوسرے ملکوں کے حالات سے بالکل بے خبر رکھا جاتا تھا۔
ان حالات میں اقبال کا دل پگھل گیا۔ ایک طرف دیو استبداد دھما دھم رقص کرکے مستی کے عالم میں اپنا ڈنڈا گھما رہا تھا،اور دوسری طرف جرات وہمت کا فقدان اور بے حسی کا عالم طاری تھا۔ اقوام عالم جو بر سر اقتدار تھی۔ وہ ہر طرح سے دنیا کے انسانوں کے استحصال میں مصروف تھیں۔ ان میں انسانیت اور روح کی بے داری کا شائبہ بھی نہیں رہا تھا۔ورنہ دنیا یہاں تک پہنچ جاتی کہ بیسویں صدی ختم ہو رہی ہے ۔اور انیسیویں صدی سے زیادہ درندگی اور ظلم کا مظاہرہ طاقت ور قومیں کر رہی ہیں۔
علامہ اقبال کو شکایت ہے کہ ان حالات میں میں نے انتہائی درد اور شدت غم کے ساتھ رو رو کر آگاہ کیا۔لیکن افسوس ایسی بے حسی اور غفلت طاری ہے کہ کوئی آواز نہیں آئی،کہ ہم تیرے شریک ہیں۔کوئی مرد خدا ہمت کرکے میدان میں نہیں آیا کہ ہم تیرے ہم خیال اور ہمدرد ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر ملک میں کچھ لوگ اٹھتے رہے،کہیں بغاوتیں کرکے شہید ہوتے رہے۔اور کہیں اندر ہی اندر بیداری کی روح پھونکتے رہے۔ بہت سی تحریکیں اٹھیں اور ختم ہو گئیں،بہت سی جماعتیں بنیں اور مٹ گئیں۔اگرچہ تاریخ حریت میں ان کا نام ثبت ہے۔ لیکن اقبال اپنا ہم نفس اور ہم دم یا بنی آدم یا اولاد آدم کی ہمدردی کرنے والے کو سمجھتے ہیں۔اور صرف وہی ہم نفس ہو سکتا ہے،جو تمام صفات نیابت سے آراستہ ہو،خدا کا خلیفہ ہو،اور انسانیت اور فضیلت کی خوبیوں کا ھامل ہو۔اگر یہ تمام صفات نہ ہوں تو اندھے جذبے،بے راہ حریت ، خالی زہد، لادینی علم، اور استحصالی قوت سے کوئی فائدہ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک اعلیٰ خیال ہم نفس اور متحد الخیال انسان کے بغیر مقاصد کی تکمیل نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ان کی تلاش اور افراد وقوم میں ان صفات کی آرزو اولین چیز ہے۔ علامہ اقبال ایک اعلیٰ معاشرہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔اور ایک عملی دنیا ان کی نظر میں تھی۔ اس کی تشکیل کے لئے ہم نفسوں کی ضرورت تھی۔علامہ کی سماجی نشو ونما کی شرائط کا اگر آپ مختصر احاطہ کریں تو وہ پانچ ہیں ۔ ۱۔مبارز طلبی یا مہمات کے مقابلہ میں موثر عمل، 2۔تخلیقی صلاحیت 3.علم، 4۔اخلاق۔ 5۔منصوبہ بندی
علامہ اقبال نے سماجی تشکیل کے لئے انہیں پانچ باتوں پر زور دیا ہے۔ اور ان کی تعبیر قرآن شریف کی روشنی میں کی ہے۔اس تشکیل میں معرکہ آرائی اور متزاحم قوتوں کی مدافعت اولین شرط ہے۔ لیکن معرکہ آرائی کے ساتھ ساتھ ہم مقاصد کی تخلیق بھی ضروری ہے۔ حالی کی زبان میں خوب سے خوب تر کی تلاش اور علامہ اقبال کی زبان میں تگ وتاز کے لئے نئی جولاں گاہیں سامنے آتی رہیں اور نئے تقاضے عزم وہمت کو برابر للکارتے رہیں۔
ہر لحظہ نیا طور،نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
معاشرہ کے ارتقا کی دوسری شرط رہنماؤں کی اختراعی قوت یا تخلیقی جوہر ہے۔لیکن معاشرہ کایہ تخلیقی عنصر ایک فرد میں ہوتا ہے۔ افراد کی اس اقلیت اور فرد کو اقبال نے ہم جنس کہا ہے۔ اس فرد یا اقلیت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو اپنا پیرو بنا لیں۔
ان اخلاقی رہنماؤں کی تقلید کا جذبہ عوام کے دلوں میں ان کے شاندار ناموں کی کشش سے پیدا ہوتا ہے۔ جب اس کشش سے متاثر ہو کر عوام اس کی تقلید شروع کر دیتے ہیں۔ تو غیر شعوری طور پر وہ خود بخود ترقی کے علم بردار بن جاتے ہیں۔ ساری کی ساری جماعت ایک ہی ثقافتی منزل کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔تہذیب کی شعائیں آس پاس کے ماحول کو منور کرتی ہوئیںجغرافیائی حدود سے نک کر بیرونی اقوام پر بھی سایہ فگن ہوتی ہیں۔اس کشش وجاذبیت کی موجودگی ترقی کی علامت ہے۔ اس کافقدان ظاہر کرتا ہے کہ یاتوترقی کادور شروع ہی نہیں ہوا یا پھر اس کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ یہی پاکستانی ثقافت کے ساتھ ہوا۔ہندوستان کی تمام مسلمان قوم قائد اعظم کی تخلیقی قوت اور عظیم شخصیت کی تقلید میں اپنی ترقی محسوس کرتی تھی۔ اور اس نے بتائے ہوئے نشان منزل کو ان کی تقلید میں پا لیا۔ اس کے بعد قائد اعظم کا انتقال ہو گیا۔لیڈر شپ اور رہنمائی ختم ہو گئی۔اور ثقافت کی ترقی شروع نہیں ہوئی۔
حالانکہ ثقافتی نشو ونما سماجی ترقی کی جان ہے۔ اس کے علاوہ دو اورعنصر ہیں،جو ترقی پزیر اور انحطاط پذیر معاشرے کے پاس مشترک ہیں۔ ’’ یعنی سیاسی اور اقتسادی عنصر،جس معاشرے کی ثقافتی اساس کمزور ہو چکی ہو۔ اس کے اقتصادی اور سیاسی عناصر ممکن ہے کہ بظاہر طاقت حاصل کر لیں،لیکن ثقافتی عناصر کے بغیریہ ترقی حقیقی ترقی کے رک جانے کی علامت ہوگی۔ اقتصادی اور سیاسی ترقی پر زور دینا اچھا ہے۔ لیکن یہ بذات خودو حقیقی نشو نما کی ضامن نہیں ہو سکتی۔‘‘
۱۔اقبال ،لاہور،اکتوبر ۱۹۶۱ع (سماجی نشو ونما ،شریف صاحب کے مضمون سے استفادہ کیا گیا۔)
پاکستان میں یہی کچھ ہوا، خاص کر دور ایوبی میں اقتصادی اور سیاسی ترقی پر زور دیا گیا۔لہذا سماجی ترقی کے دونوں گروہ جو اقلیتوں میں ہوتے ہیں ناکام ہو گئے،پہلا فریق ارباب فکر یعنی مذہب، فلسفہ،سائنس ،ادب ،فنون لطیفہ اور صنعتی علوم وفنون کے پیشواؤں کا ترقی نہ کر سکا۔ اور تخلیقی قوتوں سے محروم ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترقی تو درکنار اس کا باقی رہنا بھی دشوار ہو گیا۔ اقلیت کے اس گروہ کو فعال ہونے کا اس لیے موقع نہیں ملا کہ دوسرے گروہ یعنی عدلیہ اور قانون سازی کے ماہر یہی دوسرا گروہ حکمران اقلیت ہوتا ہے۔ یہ اختراعیت اور تخلیقی صلاحیت سے محروم رہا۔ نئے زمانے اور تغیر پذیر حالات کے ساتھ اس نے تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر قدم آگے نہیں بڑھایا۔لہذا جب با اقتدار اقلیت اپنی عدم قابلیت کی وجہ سے حکومت نہ سنبھال سکے تو طاقت سے بھی تھوڑے عرصے کے لئے کام ضرور چل جاتا ہے۔لیکن جلد یا بدیر حسد ورقابت کے باعث طرح طرح کے مناقشات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور اس طرح مقتدر اقلیت جب کمزور ہو جاتی ہے تو عوام اسے نیچے گھسیٹ لیتے ہیں۔اور اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی لے ڈوبتے ہیں۔ اگر یہ اقلیتیں تخلیقی صفات سے مزین ہوں تو جمہور کو بلندی کی طرف ابھارتی ہیں۔
تخلیقی صفات پیدا کر نے کے لئے یقینا علم سب سے مقدم ذہنی تفوق کی خوبی ہے۔ اس میں علم سائنس بھی انسانی ارتقاء کا فیصلہ کن ذریعہ ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے اس پر بھی زور دیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے ۔عقل ا نسانی زمان ومکان اور علمیت ایسے مقولات کی دنیا سے بھی آگے نکل جائے گی۔ پھر جوں جوں افکار سائنس ترقی کر رہے ہیں،انسانی علم وادراک کے متعلق بھی ہمارے تصورات بدل رہے ہیں۔ لیکن سائنس نتیجہ ہے نظریاتی علم کی ترقی کا، اس لئے انسان سے روابط کا برتر شعور صرف علم کے ذریعے ہی سے پیدا کر سکتا ہے۔ جس کے لئے سائنس ایک آلہ ہے۔ علامہ اقبال نے لکھا ہے،قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گونا گوں روابط کا ایک اعلیٰ برتر شعور پیدا کرے،جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔ قرآنی تعلیمات کا یہی وہ بنیادی پہلو ہے، جس کے پیش نظر گوئٹے نے یہ اعتبار ایک تعلیمی قوت اسلام پر من حیث الکل تبصرہ کرتے ہوئے انکومن سے کہا تھا،تم نے دیکھا کہ اس تعلیم میں کوئی خامی نہیں،ہمارا کوئی نظام اور ہمیں پر کیا موقوف ہے، کوئی انسان بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
۱۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ،ص۱۱۔
یہ تو ظاہر ہوا کہ سماجی ترقی کے لئے علمی ترقی واحد بنیادی چیز ہے۔ اور علم ہی کی وجہ سے دنیا از سر نو تشکیل پاتی ہے۔ اور نئی دنیا پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے پس ماندہ قوموں کو فوری طور پر خصوصیت سے عام تعلیم کی فوری اور آسان تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ آج کل علوم وفنون کی رفتار ترقی اتنی تیز ہے کہ جب تک پس ماندہ قومیں غیر معمولی تدابیر اختیار نہ کریں،انہیں ہمیشہ پیچھے ہی رہنا پڑے گا۔ علامہ اقبال کے زمانے میں بھی علم کی رفتار مسلمانوں میں سست تھی،تخلیقی عمل جاری نہیں تھا،اور پاکستان میں بھی یہی ہوا۔ اس لئے اقبال کے ہم نفس کی کمی اسی طرح باقی ہے۔
علم کی ترقی کے ساتھ ہی فطرت اور نطام معاشرت پر غلبہ پانے کا بڑھتا ہوا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس سے ایک ایسی سماجی ذہنیت پیدا ہوتی ہے کہ جو بڑھ کر تشویش ناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس وقت اپنی بے لگام خواہشات کو ہی انسان اپنا مقصد بنا لیتا ہے۔ اور تمام بلند مقاصد اور اعلیٰ اقدار کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔
۱۔ تشکیل، ص۱۳
ابنائے جنس کو صید زبوں سمجھ کر دام ہوس میں گرفتار کرنے لگتا ہے۔اور اپنی محدود طبقاتی اغراض کی تکمیل کے لئے ایسی قوتوں کو استعمال کرنے لگتا ہے۔ جس سے تمام نوع انسانی معرض خطرے میں پڑ جاتی ہے۔لہذا ایک حقیقی معاشرے کی نشو ونما کے لئے اخلاقی کردار کی ترقی بھی بہت ضروری ہے۔
علامہ اقبال کے سامنے علم کے بل بوتے پر فسطائی طاقتیں ابھر چکی تھیں۔ اور یورپ کا دیو پیکر عفریت مختلف قباؤں میں مشرق کے استحصال پر کمر باندھے ہوئے تھے۔ چنانچہ علامہ اقبال نے ان تمام طاقتوں کے فتنہ سے مسلمانوں کو آگاہ کیا۔ ان کی پیش بینی صحیح ثابت ہوئی۔چنانچہ بعد میں یورپ ،امریکہ ،روس اور بر طانیہ نے الگ الگ اور اجتماعی طور پر پس ماندہ اقوام کے کچلنے اور انہیں غلام بنانے کے لئے وہ طریقے اختیار کیے۔ جو نوع انسانی کی زندگی میں بد نما داغ شمار ہوں گے۔ اس لئے علامہ اقبال کو ایسے ہم جنس کی تلاش تھی۔ جو ان اقدار کو سمجھ سکے۔ اور عمل میں توازن پیدا کر سکے۔ اس لئے کہ دنیا کی تمام بڑی بڑی تہذیبوں کا عروج وزوال اخلاقی معیار کی بلندی وپستی سے وابستہ رہا ہے۔ وہ قوم کسی مصیبت کا شکار نہیں ہو سکتی جو جذبہ اخلاق سے معمور اور زیور اخلاق سے آراستہ ہو۔
جب ایثار اور زیور اخلاق کی بات چل نکلی ہے تو یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں۔ کہ علامہ اقبال نے اتحاد ،جمعیت،استحکام،استقامت، حریت،مساوات،آزاد اقدام کے مواقع اور احساس تحفظ ناموس کو زندگی میں ترقی کے لیے اساس قرار دیا ہے۔
یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ان اوصاف کے لیے علامہ اقبال نے فرد اور قوم میں کن شرائط کو لازمی قرار دیا ہے۔
اتحاد منفی بھی ہوتا ہے۔ اور مثبت بھی،کسی خطرہ یا وقتی ضرورت کے پیش نظر اتحاد ہو تو ایسا اتحاد پھر کافور ہو جاتا ہے۔ جیسے پاکستان بنانے اور ۱۹۶۵ء کی جنگ کے لیے پوری قوم میں اتحاد ہو گیا تھا۔
مثبت اور با مقصد اتحاد تعمیری کاموں کے موقع پر اس کے زمانہ میں اجاگر ہوتا ہے۔اور اسے زندہ اور تازہ رکھنے کے لئے تخلیق مقاصد کا سلسلہ ضروری ہے۔ مقاصد کی تخلیق اور ان کے حصول کے لئے پہیم جد وجہد ضروری ہے۔
اس اتحاد کے لیے طبقاتی اور نسلی امتیازات کے زہریلے عناصر سے مبرا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ شرف سب سے پہلے دنیا میں اسلامی ثقافت کو حاصل ہوا۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ یہ اتحاد رضا مندانہ طریق پر ہو ،اس میں کوئی جبر نہ ہو۔
جمعیت:
جمعیت کا تعلق قوم کی کثرت سے ہے۔ جمعیت سے وہ یک جہتی اور ہم آہنگی کی مراد ہے۔ جو افراد جماعت کے مفادات،میلانات،مقاصد وتعلقات میں پائی جاتی ہے۔
استحکام واستقامت:
استحکام واستقامت سے مراد وہ توازن ہے جوجماعت کی اندرونی قوتوں کے ما بین اور بیرونی قوتوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔یعنی استحکام عدل اور اعتدال سے حاصل ہوتا ہے۔تمام فرقوں ،نسلوں، خطوں میں باہم تعاون ہو۔اور تمام بیرونی ممالک کے ساتھ اعتدال اور توازن ہو۔ اور اس استحکام کے لئے اولین شرط فوجی طاقت ہے۔عدالت بغیر شجاعت کے قائم نہیں رہ سکتی۔لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ مرکز اتنا قوی ہو کہ صوبے بیکار ہو جائیں۔ اور نہ اتنا کمزور ہو کہ ہر وحدت اپنا خطبہ اور سکہ چلا سکے۔
استحکام کی دوسری شرط عوام کی خوش حالی ہے۔اور تیسری شرط آبادی کی باقاعدگی ہے۔اور اس کے ساتھ صحت،روز گار،تفریح اور اقدام عمل کا سب کے لئے مناسب بندوبست ہو۔ ان تمام باتوں پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں تفصیل سے لکھا ہے۔اور علامہ نے ابن خلدون کے اس حصہ کی خاص طور پر تعریف کی ہے۔
مساوات،حریت اور مواقع کار:
سماجی کردار کے تین بنیادی عناصر میں سے ہیں۔چونکہ حریت اور مواقع کار میں مساوات سے تصادم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ صنعتوں اور تجارتوں میں اجارہ داری کے ادارے تشکیل پاتے ہیں۔اس لیے ان میں اعتدال اور توازن کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
منصوبہ بندی:
سماجی ترقی کی آخری شرط منصوبہ بندی ہے۔ منصوبہ بندی پر سب سے پہلے تفصیل سے ابن خلدون نے لکھا اور جدید زمانہ روس نے اسے مکمل نظام کے طور پر پیش کیا۔اور اس سے امریکا نے استفادہ حاصل کیا۔ منصوبہ بندی میں مختلف عناصر استحصال کرتے ہیں۔اور کچھ قوتیں دوسروں کو کچل کر رکھ دیتی ہیں۔اس لیے اس میں توازن ،اعتدال، اور بنی نوع انسان کی مجموعی فلاح بنیادی شرط ہے۔
ان منصوبہ بندیوں سے بالا اور سب سے زیادہ اہم اخلاقی ترقی کے لیے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ جس کا تعلق ذرائع سے نہیں ،بلکہ مقاصد سے ہے۔اور اسی چیز کو اس مادی ترقی کی دوڑ میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔علامہ اقبال کو اس لیے ایسے ہم نفس کی تلاش ہے۔ جو مرد مومن اور رہنما،ان افکار کو سمجھ کر ان کی اشاعت کر سکے۔
دیدہ ام روز جہاںچار سو
آنکہ نورش بر فروزد کاخ وکو
از رم سیارہء او را وجود
نیست الا اینکہ گوئی رفت وبود
ترجمہ: اس چار سمت والی دنیا کا دن میں نے دیکھا ہے۔اس کی روشنی مکان اور گلی کو روشن کر دیتی ہے۔
ستاروں کی گردش سے اس دن کا وجود ہے۔بس اس کا وجود اتنا ہی ہے کہ تھا اور گزر گیا۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یہ دنیا جو رات دن، اندھیرے ،اجالے، دور ونزدیک اور پست وبلند کے شمار سے سمجھی جاتی ہے۔ چاند اور سورج کی گردش کے ساتھ ہمارے روز وشب اور مہہ وسال کا شمار ہے۔ بس اس ظاہری دنیا کی حقیقت تو اتنی ہی ہے۔کہ ہر لمحہ گزرتا جاتا ہے اور ہم اسے معدوم سمجھ لیتے ہیں۔عام طور پر آج کل امروز وفردا کے شمار تک زندگی کو محدود سمجھ لیا گیا ہے۔ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہ سارا عالم کیسے پیدا ہو گیا۔ اس کی ابتداء کیسے ہوئی؟۔ ہمارا مستقبل کیا ہے؟۔ بعض لوگ اس کار خانہ عالم کو اسی طرح معدوم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ ہماری نظر اس سے آگے بڑھنا چاہیئے۔ دنیا کو اس روز وشب اور ستاروں کی رفتار تک محدود نہ سمجھیے۔ زندگی کی حدود اس سے بھی آگے ہے۔
تو اسے پیمانہء امروز وفردا سے نہ ناپ
جاوداں،پہیم دواں،ہر دم رواں ہے زندگی
انسانی فکر کا یہ ابتدائی درجہ تھا کہ وہ اپنی زندگی اس روز وشب تک محدود سمجھتا تھا۔ یہ اس کی کم عقلی اور نا واقفیت کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ اسلام سے پہلے عرب کے بدو اور بادیہ نشین،صحرائی لوگ بھی یہی سمجھتے تھے کہ دن رات کے ساتھ عمر گھٹتی ہے۔ یہی زمانہ ہمیں ہلاک کرتا ہے۔ یہی قاطع اعمار ہے۔ دہر (زمانہ) کو سب کچھ سمجھتے تھے۔چنانچہ ان کے اس اعتقاد کا قرآن شریف میں بھی تذکرہ ہے۔ وقالوا ما ھی الا حیاتنا الدنیا ونحیا وما یھلکنا الا الدہر۔ ان لوگوں نے کہا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر یہی دنیا کی زندگی جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں،ہمیں کوئی نہیں مارتا ،سوائے زمانہ کے۔
لہذا اگر انسان کی نظر گہری نہیں ہے۔ وہ اس دن رات کی دنیا ہے تو خود اس کی عقل نشو ونما کے ابتدائی دور سے گزر رہی ہے۔ انہوں نے ابھی علم کے نور سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
علامہ اقبال کے کلام میں بار بار زمانہ کا ذکر آتا ہے،اس کو سمجھنے میں لوگوں نے ٹھوکریں کھائی ہیں۔چنانچہ وہ زمانہ، زندگی، خودی،خدا اور کائنات کی تعریف میں الجھ جاتے ہیں۔نہ تو ذات باری تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور نہ دنیا اور مافیھا کے مسائل کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ یہ حقائق عالم کی بات ہے۔ قرآن شریف اور احادیث میں جس طرح زمانہ کا بیان ہوا ہے۔ وہ خود اس مسئلہ کوسمجھنے پر منحصر ہے۔ حدیث شریف میں زمانہ کو برا کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔زمانہ کو برا نہ کہو، خدا خود زمانہ ہے۔ لیکن اس کا سمجھنا اتنا مشکل بھی نہیں۔کہ اسے عقدہ لانیحل سمجھ لیا جائے۔
۱۔عبید اللہ قدسی تصورات عرب قبل اسلام، ادارہ ثقافت اسلامیہ ،لاہور،ص ۹۱، ۲۔ رسالہ اقبال لاہور ،اپریل ۱۹۶۲ء (زمان میاں محمد شریف صاحب مرحوم)۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کے زمان کو سجھے بغیر دنیا اور آخرت کے تعلق کو نہیں سمجھ سکتے،اور نہ جبر وقدر کی بات سمجھی جا سکتی ہے۔ حالانکہ ان باتوں کے سمجھنے پر ہی جمود اور فعالیت کا انحصار ہے۔ غلط فہمی نے لوگوں کو قنوطیت پسند بنا دیا ہے۔اور جن کو ان کی معرفت حاصل ہوئی،وہ تسخیر کائنات کی طرف قدم بڑھا سکے۔ مسلمانوں کے عقائد اسی مسئلہ کے گرد گھومتے ہیں۔اور انہیں مسائل کے سمجھنے پر فرد اور جماعت کے عروج وزوال کا انحصار ہے۔
عام خیال کے مطابق زمانہ ایک دھارے کی مانند ہے۔ جو لمحہ بہ لمحہ مستقبل کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اور واقعات اس دھارے میں ماضی کی سمت بہتے چلے جا رہے ہیں۔ گویا زمانہ کی ندی آگے جا رہی ہے۔ اور زمانے پیچھے جا رہے ہیں۔یہ کھلا ہوا تضاد ہے۔جسے ہر زمانے کے فلسفیوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
تین ہزار سال ہوئے جب ویدوں کے مصنفین نے تغیر سے پیدا ہونے والی مشکلات کا کچھ مبہم سا احساس کیا تھا۔ لہذا انہوں نے کہا کہ ہمارے تجربات کی دنیا حقیقت کا ایک عکس اور مجازی روپ ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو اس دنیا کو مایا سمجھنے لگے۔اور اصل دنیا کی تلاش میں نجات سمجھی۔ اس اعتقاد نے ترقی کے دروازے بند کر دیئے۔اور بے علمی کی دنیا غالب آگئی۔
اے خوش آں روزے کہ از ایام نیست
صبح او را نیم روز وشام نیست
۱۔(رسالہ) اقبال لاہور، اپریل ۱۹۶۲ء (زمان ،میاں محمد شریف صاحب مرحوم )۔
ترجمہ: کیا اچھا وہ زمانہ ہے ،جس میں رات دن نہیں ہے۔ اس کی صبح کی دوپہر اور شام نہیں ہے۔
علامہ اقبال نے بیان کیا ہے۔ کہ ہم اس روز وشب اور ماضی وحال اور مستقبل کی دنیا میں سیر کرتے ہیں۔اور امروز وفردا کے پیمانہ سے ناپتے ہیں۔ایک تو یہ دنیا ہے۔ لیکن یہ دنیا بے غور وفکر کی دنیا ہے۔ اس دنیا کو اگر صحیح طور سے سمجھنا ہے تو کچھ دیر کے لئے غور وفکر سے کام لیجئے ۔اور زمانہ کی حقیقت سمجھیئے۔
بر گساں کا خیال ہے کہ ’’حقیقت ہمیشہ متغیر اور متحرک ہے،کسی چیز کو ثبات نہیں ہے۔‘‘ ایک ہی ندی میں دوسری مرتبہ قدم رکھنا ناممکن ہے۔ دوسری دفعہ جب ہم قدم رکھیں گے تو پانی بدل جائے گا۔ اس طرح تفصیل میں جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر لمحہ ہر چیز بدل رہی ہے۔خواہ تبدیلی کیسی ہی غیر محسوس کیوں نہ ہو؟۔ ہر شے مسلسل حرکت میں ہے۔ اور برابر بدلتی جا رہی ہے۔ اشیاء کا یہ مستقل تغیر ان کی باہمی کش مکش اور تصادم کا نتیجہ ہے۔
علامہ اقبال کا نظریہ یہ بھی ہے کہ زمان خالص (روز بے ایام) زندگی کا عین یا اس کا مترادف ہے، یہ ایک مسلسل حرکت اور مستقل روانی ہے۔
دما دم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شے سے پیدا رم زندگی
سکون وثبات کا در حقیقت کہیں وجود ہی نہیں ہے۔
۱۔ رسالہ اقبال لاہور۔ اپریل ۱۹۶۲ع ، ص۲۱۔
فریب نظر ہے سکون وثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود
زمان حقیقی یا دوران خالص، ماضی ،حال اور مستقبل کے امتیازات سے مبرا ہے۔ اس کے بہاؤ میں ماضی حال سے ہم آغوش ہو کر ایک جان ہو جاتا ہے۔
دوش در آغوش آموزش نگر
دوش را پیوند با امروز بین
اور مستقبل محض ہوئے امکانات پر مشتمل ہے۔ نہ تو مستقبل کا کوئی علیحدہ اور مستقل وجود ہے۔ (جسے عام طور پر تقدیر کا تصور کہا گیا ہے۔ کہ وہ پہلے ہی سے لکھی ہوئی ہے۔) اور نہ ماضی کا زمان خالص جس میں صبح وشام اور روز وشب کے امتیازات بھی نہیں ہوتے۔
ع۔ اک زمانے کی رو جس میں دن ہے نہ رات
اقبال کے نزدیک دوران خالص اس لحاظ سے ابدیت کا مترادف ہے کہ اس میں تسلسل کے بغیر تغیر ہے۔
آپ اپنی خودی کے مطالعہ سے دوران خالص کا عرفان حاصل کر سکتے ہیں اس لیے کہ یہ نفس ہی کے دو حال ہیں۔
من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ۔جس نے اپنے نفس کا پہچانا ۔اس نے خدا کو پہچانا۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
علامہ اقبال نے زمان خالص کو واضع کر نے کے لیے امام شافعی کا یہ قول ’’الوقت سیف‘‘ نقل کیا ہے۔ اور اسرار خودی میں اس عنوان کے تحت ۶۱ اشعار لکھے ہیں۔
دوران خالص جو زندگی سے اس درجہ مشابہ ہے۔ کہ دونوں میں وجہ امتیاز نہیں ملتی۔ ایک شمشیر بران ہے،خودی اس تلوار کی چمکتی ہوئی دھار ہے۔
خودی اپنے عمل سے دوران خالص کو گرفت میں لاتی ہے۔ دوران خالص میں جینا ہی خودی ہے۔
خودی کے دو پہلو ہیں ۔ایک اصلی خودی ،دوسری سماجی خودی ،یا علامہ اقبال کی زبان میں ایک مبصر خودی اور کار آفرین یا عامل خودی ہے، جو ابدیت سے ہمکنار ہے۔ اس کی زندگی میں بصیرت سے عمل کی جانب یا نفس کے مطالعہ سے کردار کی جانب حرکت کرنے پر منحصر ہے۔
انسانی خودی کے قیاس پر اقبال حقیقت مطلق کو انائے مطلق اور فطرت کو اس کا کردار قرار دیتے ہیں۔ انسانی خودی میں زمان خالص کا تصور اس تصور کی اساس ہے کہ حقیقت مطلق دوران خالص ہے۔ جس میں خیال، حیات اور مقصد باہم گھل مل کر ایک وحدت پیدا کرتے ہیں۔
علامہاقبال نے اس ترقی یافتہ دنیا کے علم سے استفادہ پر بے حد زور دیا ہے۔ تا کہ ہم مسائل کو آسانی سے سلجھا سکیں۔
بقول ابن رشد علم نے جہاں تک ترقی کر لی ہے۔ اسے ہم اگر حاصل نہیں کریں گے تو خود ہم کچھ ترقی نہیں کر سکیں گے۔علامہ اقبال لکھتے ہیں۔
بہر حال اب ہمارے سامنے کوئی راستہ ہے۔تو وہ یہ ہے کہ علم حاضر کے احترام اور قدر ومنزلت کے باوجود ہم اپنی آزادی رائے برقرار رکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسلامی تعلیمات کی تعبیرات علم حاضر کے پیش نظر کس رنگ میں کرنی چاہیئے۔ خواہ ایسا کرنے میں ہمیں اپنے اسلاف سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو ،۱؎
اب آپ خودی سے لے کر خدا تل کے سلسلہ کو آسان طریقہ سے علامہ اقبال کی زبان میں ایک اور طریقہ سے سمجھیئے۔
علم کی ابتدا محسوس سے ہوتی ہے۔کیونکہ جب تک ہمارا ذہن اسے قابو اور گرفت میں نہیں لاتا۔فکر انسانی میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوتی کہ اس سے آگے بڑھ سکے۔۲؎ ۔قرآن کا ارشاد ہے ،یا معشر الجن ۳؎
لہذا علم پہلے انسان کو اپنے کردار اور معرفت نفس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ آپ اگر سچ مچ مجھ کو جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو مجھے دیکھنا ہو گا۔ کہ میں جب کسی شے پر حکم لگاتا یا کوئی ارادہ کرتا ہوں،تو اس میں میرا رویہ کیا ہوتا ہے؟۔ میرے مقاصد کیا ہیں ؟۔ اور تمنائیں کیا ہیں؟۔ یونہی آپ میری زات کی ترجمانی کریں گے مجھ کو سمجھیں گے۔
آدمی دید است وباقی پوست است
دید آن باشد کہ دید دوست است
جملہ تن رادر گزار اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر رو
ارتقائے حیات پر نظر رکھی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ شروع شروع میں تو مادی خواہشوں کا نفس اور ذہن پر غلبہ ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے ترقی ہوتی ہے۔ نفسی قوت،طبیعی اور مادی پر چھا جاتی ہے۔ اور آخر یہ بھی ممکن ہے کہ مادی خواہش سے بالکل آزاد ہو جائے۔
۱۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ،ص۱۴۶۔ ۲۔ ایضا ص ۲۰۲، ۳۔قرآن مجید (۵۵۔۳۳)
چنانچہ اس کی مزید تشریح وہ اس طرح کرتے ہیں کہ مادہ کیا ہے؟۔ وہ بستی جن کا اجتماع اور عمل وتعامل ایک نسق پر پہنچ جاتا ہے۔تو اس سے ایک اعلیٰ تر خودی کا صدور ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ ہدایت بالذات مرتبہ ہے۔ کہ جب کائنات اس میں قدم رکھتی ہے۔تو حقیقت مطلقہ شاید اپنا راز افشا کرتی ہے۔اور یوں اپنی ماہیئت کے انکشاف کا راستہ کھولتی ہے۔
اور زیادہ آسان طریقہ سے اسے یوں سمجھیے کہ انسانی نشو ونما کی ابتدا انسان کی ہدایت کے لئے وحی کی رہنمائی کی ضرورت تھی۔لیکن وہ بغیر ہدایت اور رہنمائی کے ترقی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن جب ذہن انسانی ترقی پا کر خود اپنی عقل سے اپنی ترقی کی راہ تلاش کرنے کے قابل ہو گیا ۔اور اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی تو بقول علامہ اقبال قرآن شریف نے یہ اعلان کر دیا کہ اب نبوت ختم ہوئی۔اب انسان کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی۔وہ اپنی ترقی خود کر سکتا ہے۔
لہذا زندگی اور موت اور دوزخ وجنت یہ سب ذہنی ارتقا کی منزلیں ہیں۔
۱۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ۔ص ۱۶۰۔
چنانچہ علامہ نے لکھا ہے۔ زندگی وہ فرصت ہے۔ جس میں خودی کو عمل کے لا انتہا مواقع میسر آتے ہیں۔ اور جس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے۔ تاکہ وہ دیکھ سکے کہ اسے اپنے اعمال وافعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ لہذا خودی کی فنا اور بقا کا انحصار عمل پر موقوف ہے۔ اسی لیے خودی کو برقرار رکھیں گے تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے ۔ کہ ہم بلا امتیاز من وتو خودی کا احترام کریں،بقائے دوام کے حصول کا دار مدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
دراصل بعث بعد الموت کوئی خارجی حادثہ نہیں،یہ خودی کے اندر ہی ایک حیاتی عمل کی تکمیل ہے۔
حشر ملا شق قبر ونفخ صور
عشق شور انگیز خود صبح نشور
(جاویدنامہ)
اور جسے انفرادی یا اجتماعی جن حالات سے دیکھیے،دونوں صورتوں میں محاسبہ ذات کی وہ ساعت ہے۔ جس میں خودی اپنے گزشتہ اعمال کا جائزہ لیتی ہے۔ اور مستقبل میں اپنے ممکنات کا اندازہ کرتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی عین روح کے مطابق کہ رومی بقائے دوام کے مسلے ہی کو ارتقائے حیات ہی کا ایک مسئلہ ٹھہراتا ہے ۔۱؎
۱۔ تشکیل جدید الہیہ۔ ص ۱۸۰ ،۲۔ ایضا ص ۸۳،
جنت اور دوزخ انسان کے احوال ہیں۔ وہ کسی مقام یاجگہ، کے نام نہیں ہیں۔چنانچہ قر آن پاک میں ان کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے۔اس سے مقصود بھی یہی ہے کہ ایک داخلی حقیقت یعنی انسان کے اندرونی احوال کا نقشہ اس کی آنکھوں میں پھر جائے ۔جیسا کہ دوزخ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اللہ کی جلائی ہوئی آگ جو دلوں تک پہنچتی ہے۔ بالفاظ دیگر وہ انسان کے اندر بحیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے۔جیسے بہشت کامطلب ہے فنا اور ہلاکت کے توتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت۔
’’ دراصل مذہب اور سائنس کی منزل مقصود ایک ہے۔ اگر چہ ان کے طریقہ کار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔دونوں کو آرزو ہے کہ حقیقت کی تہہ تک پہنچیں۔ یہاں تک کہ مذہب سائنس سے بھی بڑھ کر حقیقت تک پہنچنے کا خواہش مند ہے۔ پھر دونوں کے نزدیک موجود حقیقی تک رسائی کا کوئی ذریعہ ہے۔ تو یہی کہ ہم اپنے محسوسات ومدرکات کی چھان بین کرتے رہیں۔
لیکن یہاں پر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے محسوسات ومدرکات کی چھان بین اور غور میں سائنس اور مذہب میںکیسے امتیاز کر سکتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ سائنس سے محسوساتو مدرکات میں بحیثیت حقائق طبیعی جن سے حقیقت کے کردار کی ترجمانی ہوتی ہے۔( جیسا کہ دوسری جگہ علامہ نے لکھا ہے کہ یہ کائنات حقیقت مطلق کا کردار ہے۔)
جیسا کہ عام طور پر ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔یہ سب کچھ حقیقت کی ترجمانی ہے۔ لیکن سائنس کی دنیا میں تو ہم ان کے معانی حقیقت کے خارجی کردار کی رعایت سے سمجھتے ہیں۔ (یعنی نفسیاتی اور عضویاتی پہلوؤں سے) لیکن مذہب کی دنیا میں اس طرح کہ وہ جس حقیقت کی نمائندگی کر رہے ہیں،ان کے معانی اس حقیقت کی اندرونی ماہیئت کی رو سے سمجھیں۔
یعنی یہ کہ کل کائنات اور جہاں تک ہمارے غور وفکر اور نفس کی ماہیئت کا نتیجہ ہے۔ہم اس حد تک سمجھ گئے ہیں کہ یہ ایک جسم نامی ہے۔ سب کی روح ایک ہے۔ حقیقت کل ہے۔ جو متغیر اور بے تسلسل ہے۔ اور یہی حقیقت اس کے ظاہری کردار میں نمودار ہونی چاہیئے۔جہاں تک انسان اس کائنات کے کردار سے اس حقیقت کا ہم آہنگ کر سکے گا۔ اسی قدر وہ حقیقت مطلقہ سے قریب اور متصل ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام نے مقام ،وطن،رنگ، نسل وغیرہ کے امتیازات کو یک قلم موقوف کر دیا ہے۔لہذا جو شخص یا جماعت ان امتیازات کو ختم کرے گی ۔اور صرف نوع انسانی کی ترقی کے لئے جد وجہد کرے گی۔اسی قدر محبوب اور باقی اللہ ہو گی۔ یہی عالم بے روز وشب ہے ،جس میں کوئی امتیاز نہیں۔
روشن از نورش اگر گردد رواں
صورت را چوں رنگ دیدن می تواں
ترجمہ: خدا کے نور سے اگر روح رو شن ہو جائے،آواز کو رنگ کی طرح دیکھ سکتے ہیں۔
نور: نور کے معنے روشنی کے ہیں۔ لیکن نور اپنے استعارے اور اپنی نسبت کے لحاظ سے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ نوری اور ناری ایک دوسرے کے مقابل استعمال ہوتے ہیں۔حالانکہ نار میں بھی روشنی ہے۔ یہاں نور کی نسبت اللہ کی جانب ہے، نور خدا چنانچہ علامہ اقبال نے نور کے سلسلہ میں جو وضاحت کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہاں درج ہے۔
اللہ نور السموات والارض مثل نورہ‘ کمشکوہ فیھا مصباح المصباح فی الزجاجہ‘ الزجاجہ کانہ کوکب دری (۱۴‘۳۵)
اس آیت میں بطور استعارہ نور استعمال ہوا ہے اور اس استعارے نے نور کو ایک شعلہ پر مرتکز کر دیا ہے۔ پھر اس کی انفرادیت پر مزید زور اس طرح دیا ہے کہ یہ شعلہ ایک شیشے میں ہے اور شیشہ ستارے کی مانند ہے طبیعیات حاضرہ کی رو سے نور کی رفتار میں کوئی اضافہ ممکن نہیں(یعنی روشنی کی رفتار ایک لاکھ اسی ہزار فی سیکنڈ معین ہے) اور اس لیے ناظر کا تعلق خواہ کسی بھی نظام حرکت سے ہو‘ ااس کی یکسانی میںفرق نہیں آئے گا۔ بہ الفاظ دیگر تغیر کی اس دنیا میں نور ہی ہے وہ شے ہے جس کو ذات مطلق کے قریب ترین مماثلت حاصل ہے‘ لہٰذا اگر نور کا اطلاق ذات الٰہیہ پر کیا جائے تو ہمیں اپنی جدید معلومات کی روشنی میں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا اشارہ ذات الٰہیہ کی مطابقت کی طرف ہے۔ ۱؎
صوفیہ نے اس نور کو اولیاء کی پیشانی پر چمکتا ہوا دیکھا ہے۔
نور مطلق متجلی بجمال رخ تو
کافر است آنکہ کند منع پرستیدن تو
(حسن دہلوی)
۱؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص ۹۷۔۹۸
لیکن یہاں معاملہ صرف روح کا ہے از دل خیزد بر دل ریزد۔
تفسیر
اس بند کے شروع میں بتایا گیا تھا کہ اس دنیا کے در و بام اور کاخ و کو کو سورج سے روشن ہو جاتے ہیں اور لمحہ بھر میں یہ روشنی روئے زمین پر پھیل جاتی ہے۔ لہٰذا اگر روح نور متطلق سے متجلی ہو جائے اوریہ خدا دل کے نور سے روشن ہو جائے تو آواز کو رنگ کی طرح آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں یعنی بینائی کی قوت اتنی تیز ہو سکتی ہے کہ آواز کو جسم کی طرح دیکھ لیں۔
عصر جدید سے پہلے یہ بات تصور میں بھی نہیں آتی تھی کہ ہزاروں کوس پر آدمی بیٹھا بول رہا ہو اور یہاں اس کی صورت بھی نظر آ رہی ہے لیکن پھر بھی ابھی تک آواز علیحدہ آتی ہے اور صورت دوسرے ذریعہ سے۔ بہرکیف یہ تو ہو گیا کہ ایک جگہ کی تصویر دوسری جگہ نظر آ جائے۔ اوریہ بھی ہو گیا کہ خلا اورملا میںاسی طرح انسان کا عمل دخل ہے جس طرح اپنے گھر میں تھا لیکن ا س کا امکان بھی ہو گیا کہ غیر مرئی چیز خود بخود مجسم ہو کر سامنے آ جائے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ شعور انسانی اس حقیقی شعور سے ہم آہنگ ہو جائے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر نور مطلق سے ہماری روح روشن ہو جائے تو لطیف کو کثیف جسم کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے خود قرآن مجید نے زاغ البصر سے اور فبصرک الیوم حدید سے اشارہ کیا ہے ۔ یعنی اندرونی احوال کا نقشہ اس کی آنکھوں میں پھر جائے ۔ ۱؎
یا بقول شاہ ولی اللہ( بحوالہ اقبال جن کی ذات پر گویا الٰہیات اسلامیہ کا خاتمہ ہو گیا ۲؎ عالم امثال میں محسوس عین اور عین محسوس کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
۱؎ تشکیل جدید ص ۱۸۵ ۲؎ ایضاً ص ۱۸۴
حقیقت یہ ہے کہ چونکہ خودی کی زندگی اختیار کی زندگی ہے لہٰذا جس کسی کے حصہ میں یہ سعادت آتی ہے کہ وہ تجلیات الٰہیہ سے سرفراز ہو وہ اپنی اخلاقی اور ایجاد و طباعی کے لیے نئے نئے مواقع تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اس ذات لامتناہی کی نو بہ نو تجلیات سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں جس کی ہر لحظہ ایک نئی شان ہے (کل یوم ھو فی شان ۱؎)
اور آپ سے مادی دنیا کی نظر سے بھی غور فرمائیں اور سائنس اور فلسفہ کی روشنی میں سمجھنا چاہیں تو بھی صورت کی رنگ میں تبدیلی بعید از قیاس نہیں ہے۔ پانی ہوا بن جاتا ہے اورہوا پانی۔ ایک کے مکان میں دوسرے کا مقام ہو جاتا ہے۔
نور ہوا اور آواز کا مکان
مکان کی تین قسمیں ہیں ایک وہ جس کا تعلق مادی اشیاء سے ہے ۔ دوسری وہ جو غیر مادی اشیاء کے متعلق ہیں اور تیسری ذات الٰہیہ سے متعلق ‘ پھر مادی اشیاء کا مکان بھی تین قسموں میںمنقسم ہے۔ اول بڑے ابرے اجسام کا مکان ہے جس میں ہم وسعت اور پنائی اثبات کرتے ہیں۔ اور جس میں حرکت کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مکان میںہر جسم کی ایک جگہ ہے اس کے بعد لطیف اجسام کا مکان ہے مثلاً ہوا اور آواز کا جس میںپھر اجسام ایک دوسرے کے مزاحم تو ہوتے ہیں اور ان کی حرکت کا حساب بھی وقت سے کیا جاتا ہے لیکن ان میں بڑے بڑے اجسام کے وقت میں فرق ہوتاہے۔ جب تک ہم کسی نلکی سے اس کے
۱؎ قرآن مجید ۵۵‘۳۹
اندر کی ہوانکال نہیں لیتے اس میں دوسری ہوا داخل نہیں ہو سکتی۔
امواج صوت کو دیکھیے تو مادی اجسام کے وقت کے مقابلے میں ان کا وقت کی عملاً کوئی حقیقت نہیں۔ آخر الامر نور یا روشنی کا مکان ہے سورج کی روشنی تو دیکھتے ہی دیکھتے روئے زمین پر پڑ جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ نور اور صوت کی رفتار میر وقت کی مقدار صفر سے آگے نہیں بڑھتی لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نور کا مکان ہوا اور صوت کے مکان سے مختلف ہے۔ جس کا ایک بڑا واضح ثبوت یہ ہے کہ چراغ کی روشنی میں باوجود ہوا کی موجودگی کے سارے کمرے میں پھیل جاتی ہے یعنی نور کا مکان ہوا کے مکان سے کہیں زیادہ لطیف ہے کیونکہ اس مکان کا داخلہ نور کے مکان میں ممکن نہیں لیکن اس امر کے باوجود کہ سب مکان ایک دوسرے کے حوالی میں موجود رہتے ہیں ہم ان میں کوئی امتیاز نہیں کر سکتے ۔ الا یہ کہ عقل ان کا تجزیہ کریں یا روحانی طورپر ان کا مشاہدہ کیا جائے۱؎۔
اس شعر کے معنی میں ایک اوراہم مسئلہ کی طرف اشارہ بھی ہے جس کا ثبوت عنقریب سائنسی دنیا خود فراہم کرے گی۔ مذہب کا یہ مسئلہ اب عام فہم ہوتا جا رہا ہے‘ شعر میں کہا گیا ہے کہ اگر انسانی روح اللہ کے نور سے روشن ہو جائے تو آواز نظر آنے والی شکل اختیار کر سکتی ہے اورمتشکل ہو سکتی ہے۔ اس مقام پر قرآن مجید کی عبارت اس حقیقت کو بالکل واضح کرتی ہے ۔
’’ہم نے اپنی روح ان میں (مریم میں) پھونکی اور ان کو ان کے فرزند کو دنیا جہان والوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنا دیا‘‘ ۱؎
۱؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص ۹‘۲۰۸
۲؎ قرآن ۲۱‘۹۱
دوسر ی جگہ ملمع کو کلمہ کہا گیا ہے جس کا حضرت مریم پر القا ہوا۔
’’حضرت مسیحؑ وہ کلمہ ہیں جسے اللہ نے مرم تک پہنچایا تھا‘‘ ۱؎
اس کلمہ اور اس کی آواز نے جسم کی صورت اختیار کر لی اور حضرت عیسیٰؑ ایک جان ہو گئے ۲؎۔
غیب ھا از تاب او گردد حضور
نوبت اولا یزال و بے مرور
ترجمہ
غیب اس کی روشنی سے موجود ہو جاتا ہے وہ لایزال اوربے مرور ہے۔
غیب
امر خفی جسے حس ادراک نہیںکیا جا سکتا۔
غیب کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ جس کا تفصیلی علم انسان کو ہو سکتا ہے اسے غیب وجودی کہتے ہیں ایک وہ جس کا عل انسان کی قابلیت کے لحاظ سے محمل ہے اسے غیب عدم کہتے ہیں صوفیہ غیب اس عالم کو کہتے ہیں جو بغیر مدت اور بغیر مادہ کے پایا جاتاہے‘ جسے عقول نفوس اور دوسرا عالم شہادت یعنی مادی عالم ہے ۳؎۔
غیب قرآن شریف میں پانچ معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک وہ جو نظر سے غائب ہے جسے الذین بخشون ربھم بالغیب (الانبیا ۹۴۹) وہ جو تنہائی میں(یعنی جن لوگوں کے سامنے نہیں
۱؎ قرآن ۴‘۱۷۱
۲؎ قدسی عبیداللہ رحمت اللعلمین یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اسلام آباد ص ۱۰۴۔
۳؎ کشاف اصطلاحات الفنون کلکتہ ۱۸۶۲ء ج ۲ (غیب)
ہوتے تب بھی ) اللہ سے ڈرتے ہیں۔
ایک وہ جوامر مخفی ہے جیسے ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ ایک وہ جو معلوم نہیں ہے‘ جیسے گزشتہ اورمستقبل کے واقعات مثلاً ذالک من النہاء الغیب (آل عمران ۴۹) یہ غیب کی خبریں ہیں ۱؎۔
حضور
حاضر علم کی دو قسمیںہیں۔ علم حصولی ذہن میں شے کا تصور ہو جائے علم حضوری۔ اشیاء بذات خو د عالم کے سامنے حاضر ہوں جیسے ہمیں اپنی ذات کا علم (علم خداوندی بھی اسی قسم میں داخل ہے۲؎۔
تاب
قوت ‘ طاقت‘ حدت اور شدت‘ فروع‘ روشنی و از پرتو چیزے روشن نشدن علامہ اقبال نے اس معنی مین استعمال کیا ہے:
ہمی آفتاب فلک فرد تاب
ز تاج تو گیرد چومہ ز آفتاب
گرشا سپنامہ اسدی
در فگند رائے تو بریندہ تاب
ذرہ شوم پیش چناں آفتاب
(امیر خسرو)
باشد چو طبع مہر من اندر ہوائے تو
چوں تاب گیرد از حرکات خو آئینہ
(خاقانی)
۱؎ لغات القرآن دہلی جلد پنجم (غیب)
۲؎ اصطلاحات الفنون ج ۲۔ ص ۱۰۵۶
۳؎ لغت نامہ دہ خدا تہران ص ۱۸‘۱۹ (تاب)
بے مرور
زمانہ ماضی حال اور مستقبل میں منقسم ہوتا ہے۔ زمانہ گزر رہا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ زمان خداوندی بے رفت و گزشت اور بے تسلسل ہے ہر وقت تغیر میں ہے لیکن گزر نہیں رہا۔
اک زمانہ کی رو جس میں دن ہے نہ رات
مطلب
اگر انسان نور کی حقیقت سے منور ہو جائے تو اس کی بصیرت بھی ایسی تیز ہو جاتی ہے کہ غیب اور غیر موجود اس نور حقیقت کی وجہ سے اس کے سامنے موجود ہو جاتاہے اور خود اس دائمی اور لازوال حقیقت کا جزو ہو کر خود لایزال اور دوام حاصل کر لیتاہے۔
علامہ اقبال نے لکھا ہیکہ انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ اس کائنات کی تسخیر کرے اور خلاقی کی شان پیدا کرے۔ چونکہ حقیقت متغیر اور بے تسلسل ہے اسے استدام حاصل ہے‘ انسان کی فکر بھی اپنی عمیق تر حرکت میں اس قابل ہے کہ اس موجود لامتناہی تک جا پہنچے جو ہر شے میں جاری و ساری ہے اور ظہور و شہود کی دنیا میں جس کا اظہار مختلف حدود شخصیتوں میں ہو رہا ہے۔ ۱؎
چونکہ اسلام کے اصول کی اساس عقلی ہے یعنی مذہب اسلام کی دوسری ترقی یافتہ شکل ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دعا فرماتے تھے ’’اے اللہ تجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ کر ۲؎
اللھم ارنی حقائق الاشیاء کما ھی
لہٰذا انسان اگر شعور کائنات سے ہم آہنگ ہو کر تسخیر کے
۱؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص ۹
۲؎ ایضاً ص ۴
مقابل ہو جاتاہے اور علم و عقل کے ان مدارج کو طے کر لیتا ہے ۔ جہاں وہ کائنات کی ترکیب میں ایک دوامی عنصر بن جائے۱؎ تو گویا وہ اس کے نور سے منور ہو گیا‘ اس کے سامنے قدرت کے تمام پوشیدہ را ز آ موجود ہوئے ‘ غیب حضور بن گیا زندگی کی ترقی اور زوال کے راز سے وہ واقف ہو گیا‘ اور اس میںایک فعال اورتخلیقی قوت کارفرما ہو گئی۔ اور وہ خلیفہ اللہ ہو گیا۔ چنانچہ اس حقیقت کو بہت مختصر الفاظ میں علامہ اقبال نے خود واضح کیا ہے۔
پھر جوں جوں ہم اپنی ذہنی کاوشوں سے علائق فطرت پر غلبہ حاصل کنرے کی سعی کرتے ہیں ہماری زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا ہوتا ہے اور ہماری بصیرت تیز تر ہو جاتی ہے۔ یونہی ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ محسوسات و مدرکات کے زیادہ نازک پہلو اپنی گرفت میں لے آئیں اور یونہی اشیا کے مرور زمانی پر غور و فکر کرتے کرتے ہم اپنے اندر یہ استعدادپیدا کر لیتے ہیں کہ لازمانی کا نتقل کر سکیں ۲؎ اس لیے کہ ہماری اس محدود فکر او رمتناہی حڑکت میں لامحدود طاقت اور متناہی حقیقت مضمر ہے ۳؎ جس کے نور سے روح روشن ہو کر خود کو بھی دائم و قائم کر سکتی ہے۔
اے خدا روزی کن آں روزے مرا
وارھاں زیں روز بے سوزے مرا
ترجمہ
اے خدا مجھے وہ دن نصیب کر اور اس بے سوز ندگی سے آزاد کر۔
علامہ اقبال کی یہ دعا حقیقت میں کل امت مسلمہ بلکہ بنی نوع
۱؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص ۱۷
۲؎ ایضاً ص ۲۱
۳؎ ایضاً ص ۱۱
انسان کی آرزو ہے اگر وہ حقیقت سے آگاہ ہے اور اس کی خودی بیدار ہو چکی ہے تو وہ مر مٹ کر اپنی پوری جدوجہد سے قائے حیات کی کوشش کرے گا۔ اورانسان کی بقا کا راز اسی میں مضمر ہے کہ وہ سوز عشق پیدا کرے۔
یہ چرندوں پرندوں اور حیوانات کی دنیا جس میں انسان بھی اسی طرح بسر کر رہا ہے ایک شخص دوسرے کا دشمن ہے۔ ایک خطہ ایک قبیلہ ایک ملک اور ایک نسل دوسرے کی دشمن ہے۔ تمام پچھلے حادثات اور واقعات کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے اور عصر جدید کی سیاسی‘ اجتماعی اور ثقافتی حالت کا جائزہ لیجیے اور خاص طور پر مسلم ممالک کامطالعہ کیجیے تو دل جل کر رہ جاتا ہے۔ کہ انسانوں کو کیا ہو گیا ہے۔ اس دنیا میں اس طرح پا بگل اورپھنسے ہوئے ہیں کہ انہٰں اپنی بقا کا کچھ ہوش ہی نہیں ہے۔ یہ ملک یہ خطہ اوریہ لوگ فنا ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں ان کانام باقی نہیں رہتا۔ تاریخ عالم میں صرف انہیں لوگوں کو بقائے دوام حاصل ہوا ہے جنہوں نے بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے خود کو دفنا کر دیا یہ تقریریں یہ سیاست اور یہ علمی اور فلسفیانہ افکار تمام بے معنی ہیں۔ اگریہ سب عشق اورلگن سے خالی ہیں انسان کی کامیابی اور بقائے دوام کا راز عاشقانہ جدوجہد میں ہے اور بس
عقل دادی ہم جنو نے دہ مرا
علامہ اقبال نے اس شعر میں دعا کی ہے کہ اے خدا مجھے وہ دن نصیب ہو جس میں چیزوں کی حقیقت کھل کر روشن ہو جائے کائنات کی تسخیر کی راہ انسان پر کھل جاتی ہے۔ اور مجھے اس بے سوز بے حد و جہد دنیا کے عذاب سے آزاد کر دے۔ اس جمود وار بے خبر دنیا سے نکال دے۔ جس میں یہ افکار کا تماشا خانہ بن گئی ہے۔ جہاں علم نفسی کیفیت اور اخلاقی ترقی سے خالی ہ۔ جہاں لوگوں میںاندرونی جذبہ نہیں ہے۔ جہاں لوگوں کا جذبہ بیدار نہیں ہے۔ جہاں لوگوں میں عشق اور جدوجہد کا جذبہ نہیںہے۔ یہاں لوگ اپنی عادتوں کے غلام ہیں بداخلاقیوں کے تابع ہیں اور ہوا و حرص میں پھنسے ہوئے ہیں ان سب کی زندگی جانوروں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ اے اللہ مجھے اس بے روز زندگی سے آزاد کر۔ اگر آپ مزید کچھ غور فرمائیں تو اس شعر کی تشریح میں یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہیے جسے ہم یہاں واضح کر دینا چاہیتے ہیں۔ علامہ کے زمانہ میں بھی یہ حال تھا کہ اب بھی لوگ مغربی علم اور مگربی ترقی سے اتنے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی انتہا اور ان کا مقصد مغربی تعلیم اور ترقی کا حاصل کر لینا ہوتا ہے۔ یہ تقلیدی زندگی ہی اصل میں ایشئا کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے علامہ نے اپنی زندگی میںاس تبلیغ میں صرف کر دی کہ مغربی علم و فضل کی فضیلت مسلم لیکن سب نتائج جو مغربنے اخذ کیے ہیں ہمیں بجنسہ انہیں قبول نہیں کرنا چاہیے یعنی ان کے بے چوں و چرا اتباع کی بجائے اپنی ایجاد اختراع اور تخلیق سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں فکر مستعار اور فکر حلاق میں فرق کرنا چاہیی۔ ہمیں اپنے اجتہاد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ اور تقلید کے تمام قیود کو توڑ کر اپنی دنیا آپ پیداکرنی چاہیے اور اس کے لیے سخت جدوجہد اور عشق کی ضرورت ہے اوریہ آزادی اندرونی جذبہ کے بغیر اورشعور ذات کے عرفان کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
پیکر فرسودہ را دیگر تراش
امتحان خویش کن موجود باش
اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی ہے۔ رحم کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ تو نے ہی اسے سب دنیا کا برگزیدہ بنایا ‘ ساری دنیا کے اس قبضہ میں دی اور کل کائنات کا اسے علم دیا اور اب اسے چھوڑ دیا ہے۔ آج وہ انتہائی تاریکی میں ہے اے بار خدایا تو اسے پھر نواز دے تیری رحمت بے پایاں ہے اگر کچھ مہربانی کی تو تیرے خزانہ غیب میں کمی نہیں آئے گی۔ ہم صرف تیرے عبادت گزار اور تیرے ہی بندے ہیں۔
آیہ تسخیر اندر شان کیست
ایں شپہر نیلگوں حیران کیست
قرآن شریف میں تسخیر کی اس آیت کی شان میں ہے یہ نیلگوں آسمان (زمانہ) کس کی عظمت سے حیران رہا۔
رازداں علم الاسماء کہ بودا
ست آں ساقی و آں صہبا کہ بود
کل اسماء کا علم کس کو سکھایا
اس ساقی اور اس کی محبت میں کون مست تھا
برگزیدی از ہمہ عالم کرا ۲؎
کردی از راز دروں محرم کرا
ساری دنیا میں سے کس کو تو نے انتخاب کیا
کس کو تو نے اندرونی راز سے واقف کیا
اے ترا تیرے کہ مارا سینہ سقت
حرف ادعونی کہ گفت و با کہ گفت ۳؎
اے اللہ تیری محبت کا تیر کس کے سینہ میں پیوست ہوا۔ مجھے پکارو میں تمہاری سنوں گا یہ کس نے کہا تھا کس سے کہا تھا۔
۱؎ قرآن مجید (۲۔۳۱)علم آدم الاسماء کلھا۔
۲؎ قرآن مجید (۲۰۔۱۲۲)
۳؎ ایضاً (۴۰۔۶۰)
روئے تو ایمان من قرآن من
جلوہ داری اے دریغ از جان من
اے اللہ تو ہی میرا ایمان میرا قرآن ہے۔ میری روح سے تو نے اپنے نور کو روک لیا۔
از زیان صد شعاع آفتاب
کم نمی گردد متاع آفتاب
آفتاب کی سو کرنیں ضائع جائیں تو اس سے آفتاب کی کرنوں میںکمی نہیں آجائے گی۔
علامہ اقبال نے ا س مناجات میں انسان کی اس عظمت اور رتبہ کا تذکرہ کیا ہے یہ عبرت بھی دلائی ہے کہ انسان اسی وقت تک مکرم و محترم اور کامیاب ہے جب تک وہ انتہائی جدوجہد کر کے بہتر سے بہتر کی تلاش میں رب تک رسائی کو پیش نظر نہ رکھے‘ اس طرح انقلاب آفریں‘ ہر لمحہ نئی نئی تخلیقات کی جدوجہد کرنے والا ہی زندہ اور پائندہ ہے۔
انسان کو تمام کائنات میں بلند درجہ اسی وقت مل سکتاہے جب اس کی نظر تمام کائنات پر ہو‘ اور مقامیت سے خالی ہو۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسان یہاںمسافر ہے اگر وہ ٹھہر گیا تو جدوجہد چھوڑ دی تو پستی میں چلا جائے گا۔ ترقی نہ کر سکے گا۔ مسلسل جہد اور لگاتار پرواز ہی انسان کو زندہ بنا سکتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہے
جاوید نامہ میں اسے اور وضاحت سے بیان کیا ہے۔
اے مسافر جہاں بمیرد از مقام
زندہ تر گردد ز پرواز مدام
اے مسافر مقام رنے سے روح مر جاتی ہے مسلسل جدوجہد اور پرواز سے زندگی بڑھتی ہے۔ چنانچہ دیکھو قمر کیاہے؟ ایک زمین مردہ اس میں کوئی انقلاب کوئی زلزلہ اور زندگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
عالم فرسودہ و بے رنگ و صوت
نے نشان زندی دو وے نہ موت
ایک فرسودہ دنیا ہے بے رنگ بے صدا
نہ زندگی کا اس میں نشان نہ موت کے آثار
حالانکہ یہ بھی آفتاب کے خاندان سے ہے (ا س کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا) لیکن اس کے رات دن میں کوئی انقلاب نہیں ہے۔
اس لحاظ سے علامہ اقبال نے انسسان کی زندگی کے تین درجے قرار دیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تم زندہ ہو یا مرد ہ ہو یا جاں بلب ہو‘ اس کے ثبوت میں تین شہادتیں مہیا کرنا اور گواہی بھی عقلی و علمی ہونا چاہیے جس سے معلوم ہو جائے کہ روشن زندگی ہے یا بے حس اور مردہ ہے کہ ا س کا نام و نشان نہیں ہے یا سسک رہی ہے کہ نہ زندہ ہے نہ مردہ ہے۔
سب سے اول مرتبہ شہادت کے لیے آپ اپنا ضمیر اورشعور ہے اگر انسان خود شناسہے تو اپنے علم سے اپنے نفس اور اپنے کردار کا مطالعہ کر سکتا ہے تویہ بہت عمدہ خود شناسی ہے۔ اپنے وجود کے اثبات پر خود ا س کا اپنا ضمیر اور اس کی روح شاہد ہو اور گواہی دے
دوسرا درجہ شہادت کا یہ ہے کہ دوسرے شخص کا شعور گواہی دے اور آپ اس کے نور اور اس کے علم سے خود شناسی حاصل کریں اور آ پ کو پہچانیں۔
اقبا ل نے خویشتن شناسی دوسرے کے نور کے ذریعہ کہہ کر بات کو بہت دور تک پہنچا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری شہادت دوسرے کا نور علم ہے اوردوسرے کا شعور ہے کہ آپ خود کو دوسرے کے شعور سے دیکھیں۔ اہل علم جو روشن ضمیر ہیں وہ آپ کی صداقت کی شہادت دیں اور آپ ان کے نور علم سے خود آگاہ ہوں آپ کو یقین ہو کہ یہ لوگ صداقت کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس میں وہم و گمان کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ یہ بنیادی گواہی ہے۔
جب حضرت موسیٰؑ نے جادوگروں کی رسیوں کے مقابلہ میں اپنی لاٹھی زمین پر ڈالی تو جادوگروں پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ہمارا شعبدہ تھا اور ان کی لاٹھی واقعی اژدھا بن گئی۔ جادوگر اپنے فن کے ماہر تھے۔ انہوں نے اس زبردست علم کی شہادت دی اور فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ کی تصدیق کی۱؎۔
جب امام مالک مسجد نبویؐ میں درس دینے بیٹحے تو اس سے پہلے اس زمانہ کے مستند علماء اورصلحا نے ان کی تصدیق کی‘ وہ خود لکھتے ہیں کہ جو شخص مسجد نبوی میں درس دینے اورفتوے دینے کے لیے بیٹھتا ہے اس سے پہلے اہل صلح اور صاحبان فضل سے مشورہ کر لینا چاہیی۔ اور انہیں سے اپنی مجلس کا مقام بھی طے کر لینا چاہے۔ اگر وہ اسے اس مجلس کا اہل سمجھیں تو بیٹح جائے ورنہ نہیںَ چنانچہ میں خود اس مسند پر نہیں بیٹھا یہاں تک کہ اہل علم یں سے ستر علماء نے شہادت دی کہ میں اس منصب کا اہل ہوں آج کل دو تین علماء کی تصدیق پر پی ایچ ڈی
۱؎ قرآن مجید( ۷’۱۲)
۲؎ ابو زہرہ امام مالک مترجمہ عبیداللہ قدسی لاہور غلام علی اینڈ سنز ۱۹۶۰ء ص ۵۹
سرٹیفکیٹ مل جاتاہے۔ چنانچہ اس سند کو وہ شخص لے کر بیٹھ جاتا ہے اور آگے وہ کوئی کارنامہ انجام نہیںدے سکتا۔ الا ماشاء اللہ جس میں عشق اور لگن ہو۔
تیسری شہادت ذات حق کا شعور ہے کہ آدمی ذات حق کے نور میں خود کو دیکھے۔ اس کو صوفیا فنا فی اللہ اور باقی باللہ کہتے ہیں اقبال نے لکھا ہے کہ اس نور کے سامنے اگر تم استوار اور موجود رہے تو پھر خدا کی طرح خود کو قائم اور حئی (زندہ) شمار کرو گے۔ یہ انسان کامقام ہے اسے حاصل کرنا زندگی ہے ۱؎۔ لیکن یہ سب کچھ حاصل ہو گا تو اسی کے نور سے حاصل ہو گا۔ اس کے نور کے جذب کرنے سے انکار ہو سکتا ہے۔ یہ عشق کا مقام ہے۔ اور یہ عشق آج کل ناپید ہے۔
عصر حاضر را خود زنجیر پاست
جاں بے تابے کہ من دارم کجاست
موجودہ زمانہ میں انسان گرفتار عقل ہے میں جیسی بے تاب جان رکھتا ہوں ایسا کوئی کہاں ہے؟
مغرب کے جن فلسفیوں نے اپنی دور اندیشی سے قوموں اور جماعتوں کے اتحاد اور یکجہتی کا نظریہ پیش کیا اس کی بنیاد قومی وطنی اور نسلی تھی آج بھی ان مغربی اقوام میں یہی نظریات چھائے ہوئے ہیں اس لیے بقائے حیات کی جدوجہد میں اکثر اوقات وہ دوسرے ملک قوم اور رنگ والوں کو مغلوب کرنے کے لیے کوئی علمی دلیل نہیںرکھتے۔ ان کی عقل علم کی تابع نہیں ہے۔ بلکہ بہت محدود ہے اول تو خود عقل رہنما نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ
۱؎ اقبا ل جاوید نامہ ص ۱۴
وہ علم کی روشنی سے ترقی کرتی ہے۔ اور علم بھی کاروبار حیات تک محدود ہے۔ اس کے پرواز کے لیے عشق کی ضرورت ہے اگر عشق نہ ہو تو علم بھی وہم و گمان کا شکار ہو جاتاہے۔ لیکن عصر حاضر کی عقل تو بالکل در پردہ خواہشوں کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے۔
چنانچہ مغربی ممالک اپنے ملک کے دفاع کے یے عموماً اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کی آخری حد تک اپنی سرحدیں فرض کر لیتے ہیں اور انسانیت کے تقاضوں کو پائمال کرنے میں انہیں شرم نہیں آتی انیسویں اور بیسویں صدی کی سیاسی تجارتی اور جغرافیائی تاریخ پڑھی جائے تو معلومہو گا کہ مغرب نے آدمیوں کو غلام بنایا۔ ان کی تجارت کی‘ آزدی دی تو ان کی کالونیاں قائم کیں ملکوں کی دولت سمیٹ کر انہیںمفلوک الحال رکھا۔ عورتوں بچوں اور بوڑھوںکے قتل میں بھی شرم نہیں کی۔ نہتیگروہوں کو قطارووں میں ہلاک کیا۔ یا مویشی کی طرح جنگلہ بیرک اور باڑوںمیں بند کر یدا ایسا ظلم زنجیر کیا عقل کی علامت ہے جو طمع خود غرضی اور خود پرستی کے زنداںمیں محبوس ہے اور اس کی آنکھ بند ہو چکی ہے ورنہ عقل آزا دبھی یہ جانتیہے کہ ظلم کا لاوا آخر پھٹ کر رہتا ہے۔ مقابل گروہوں میں مقاومت کا عزم پیدا ہو جاتاہے۔ اور اکثر اوقات غالب گروہوں کی بربادی پریہ مقاومت ختم ہو جاتی ہے۔ قرآن شریف می ایسی ہی ایک عبرت ناک شکست کا حضرت دائودؑ کے سلسلہ میں ذکر ہے۱؎۔
عقل سلیم ہمیں بتاتی ہے اور علم تاریخ کی روشنیمیں یہ نتیجہ دیتا ہے کہ انسانی کمال خود غرضانہ مقاصد کی میں نہیں بلکہ انسانوں کی فلاح و بہبود کی کوششوںمیںمضمر ہے۔ کل انسانیت کی فلاح کا
۱؎ قرآن مجید(۲‘۲۵۱‘۲۴۹)
یہ نصب العین مادی نقطہ نظر سے ہم آہنگ نہیں۔ مادی نقطہ نظر ہی انسانوں کی تقسیم اور تفریق کا باعث ہوتی ہے۔ فائدوں کی فطرت ہی یہ ہے کہ ایک کی کامرانی دوسرے کی ناکامیابی کا باعث ہوتی ہے ایک کی تسکین دوسرے کی محرومی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود غرضیاں آپس میں ٹکراتی ہیں۔ رقابتوں کا بازار گرم ہوتاہے اور دنیا جہنم زار بن جاتی ہے یہ ہے لادینیت اور مادیت کاثمرہ جس کا دوسرانام خود زنجیر پا ہے۔
چنانچہ اقبال دوسرے مصرع میں انتہائی تپش دل اور اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے ا س زمانے میں کوئی بھی میری طرح آنسو بہنانے والا اورمستقل شعلہ بنداماں دیکھ کر افسوس کرنے والا نظر نہیں آتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا آدمی بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔
عمر ہا بر خویشتن می پیچد وجود
تا یکے بے تاب جاں آید فرود
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
لوگ اقبال کے ان مضامین سے آسانیسیگزر جاتے ہیں وہ نہ تاریخ عالم کا مطالعہ کرتے ہیں نہ اس نظر سے اقوام مشرق کی حالت پر غور کرتے ہیں تاکہ انہیںمعلوم ہو کہ ایسا زبردست مفکر شاعر عالم اور صاحب نظر کن کن مراحل سے گزرتاہے‘ کیسے کیسے تجربات کرتا ہے او رعلم کے کن کن چشموں سے سیراب ہوا ہے۔ تب جا کر وہ ایسا منفرد مبصر اور رہنما بن سکتا ہے۔
اقبال کی شخصیت کی تشکیل پر ابھی تک کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے۔ شخصیت کے ذہنی ارتقاء پر تو دور کی بات ہے خود اقبا کے علم و ن پر جامعیت کے ساتھ سیر حاصل بحث نہیں ہوئی ہے بس جستہ جستہ لکھا گیا ہے۔
کچھ قمریوں کو یاد ہیں کچھ بلبلوں کو حفظ
دنیا میں ٹکڑے ٹکرے مری داستاں کے ہیں
ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا جن کا اپنی شاعری اور تصانیف میں حوالہ دیا ہے جن خیالات کی ستائش کی اور جن کو ناپسند کیا جن افراد پر تنقید کی اور جن کی تعریف و توصیف کی اپنی زندگی کے مختلف ادوارمیں جن جن خیالتات کا اظہار کیا ان سب کی شیرازہ بندی ہو۔ اورتمام خیالات علوم اور زبانوں کو ان کے ماحول کے ساتھ وابستہ کرکے پیش کیاجائے۔
پھر اقبال کے زمانہ کی تحریکات ‘ ادبیات‘ اور علمی معرکوں پر نظر ڈالی جائے اور ان کے پیش رو ان کے عہد کے بالکل قریب کے لوگوں کو بھی مطالعہ شامل کیاجائے۔ اور سب کے خیالات اور کارناموں کا احاطہ کیا جائے‘ تو اقبا ل کے ذہنی ارتقاء اور ان کی انفرادیت اور ان کے لافانی وجود کا اندازہ ہو سکے گا۔
عام طور پر اقبال پر کام کرنے والوں میں اسلام کی صحیح روح تک رسائی رکھنے والے کم ہوئے ہیں تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں مذکور علوم و فنون او ر اشخاص سے کماحقہ بیک وقت واقف لوگ ہیں عربی سرمایہ فارسی ادب اور مغربی علم و سیاست سے بیک وقت واقف مفقود ہیں۔ اگر ان تمام علوم کی ایسی ہی جامع شخصیت جس نے سب کو اپنے اندر جذب کر لیا ہو مل جاتا تو زمانہ میں بڑی تیزی آ جاتی اقبال سے پہلے کچھ اشخاص ایسے گزرے ہیں جنہوںنے اقبال کی نمود اوروجود کے لیے میدان ہموار کیا ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ جمال الدین افغانی سر سید احمد خاں نطشے‘ برگساں اور کارل مارکس۔
گر نہ رنجی ایں زمین شورہ زاد
نیست تخم آرزو را سازگار
اگر اس شور زمین پر محنت کر کے درست نہ کرو گے تو تمہارے مقاصد کا بیج نہیں نکل سکے گا۔
سعدی نے لکھاتھا۔ شور زمین میں پھول نہیںنکل سکتے۔ اس میں محنت کو ضائع نہ کرو۔
زمین شور سنبل پر نیارد
درو تخم عمل ضائع مگرداں
لیکن اقبال نے کہا شور زمین پر بھی محنت کی جائے تو بیج نکل سکتا ہے ضرورت سخت محنت کی ہے اقبال اس غیر صالح معاشرہ سے مایوس نہیں ہوئے۔ بلکہ اس پر محنت کی ضرورت ہے۔ ضرور کچھ نتیجہ نکلے گا۔
از درون ایں گلے بے حاصلے
بس غنیمت واں اگر روید گلے
اس بے حاصل مٹی کے اندر سے
ایک پھول بھی نکل آئے تو بہت غنیمت جانو
تو مہی اندر شبستانم گذر
یک زماں بے نوری جانم نگر
تو سردار ہے میرے شبستاں میں آ کے دیکھ
ذرا دیر کے لیے میری بے نور جان کو دیکھ
شعلہ را پرہیز از خاشاک چیست
برق را از برفتاں باک چیست
شعلے کو کچرے سے پرہیز کیوں ہے
بجلی کو جلانے سے عذر کیا ہے
اقبال نے پہلے تو یہ کہا ہے کہ اگر تم نے ا س شعرزمین میں سخت محنت نہ کی تو یہ تخم ریزی کے لائق نہیں ہو گی اس لیے سخت محنت کی ضرورت ہے اس کے بعد انہوںنے کہا کہ اس منتشر اور بے نتیجہ سوسائٹی سے اس دلسوزی کے بعد ایک جاں گداز آدمی پیدا ہو جائے اور ایک بھی صاحب دل نکل آئے تو بہت غنیمت ہے۔
اس کے بعد پھر قوم کی حالت زار اور امت مسلمہ کی بے بصری‘ کم علمی اور تاریک زندگی پر آنسو نکل آئے اور دعا کرنے میںمشغول ہو گئے کہ دنیا میں لووں نے برائی کو ابھارا۔ اس گندگی کو اچھالا یہ ترقی پسندوں کا شیوہ رہا ہے۔ لیکن اسلام نے عبرت اور نصیحٹ محاصل کرنے کے لیے تو قوم کی برائی کا ذکر کیاہے لیکھ ساتھ ہی مداوا بھی کیا ہے رہنمائی بھی کی اور ہدایت بھی دی‘ یہی علامہ کا شیوہ اور طریقہ ہے وہ قوم کی زبوں حالی کا تذکرہ کر کے دعا کی طرف متوجہ ہیں اور کارساز حقیقی سے اس زبوں حالی جہالت اور تاریکی کو دور کرنے کی التجا کرتے ہیں۔ لوگ جب مایوس ہو جاتے ہیں علاج سے ناامید ہو جاتے ہیں تو دعا کرتے ہیں کہ اور سمجھتے ہیں اس طرح خاتمہ بخیر ہو جائے گا ۔ کسی نے کہا ہے:
اب کوسنے کا وقت نہیں ہے دعا کرو
علامہ نے اس کتاب کادیباچہ اور مقدمہ نہیں لکھا بلکہ مناجات کا عنوان دیا ہے اسی لیے وہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے دعا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ قاضی الحاجات کے سامنے مناجات پیش کرتے ہیں بڑی عاجزی اور زاری سے دعا کرتے ہیں۔ یہ دعا نہ خاتمہ بالخیر کے لیے ہے نہ امت کے گناہ بخشوانے کے لیے ۔ بلکہ علامہ اقبال دعا کو اپنی توانائی اور آرزوئوں کااظہار سمجھتے ہیں۔ دعا مستقبل کے لیے اپنی توانائی پوری قوتوں کو مجتمع کرکے ایک انقلاب برپا کر دینے ایک نئی دنیا بنانے اور یکسر بدل جانے کا نام ہے۔ اسی لیے انہوں نے اس بند میں التجا کی کہ تو شعلہ ہے اس تمام کثافت بداطواری گمراہی اور جہالت اور تاریکی کو جلا کو پھونک دے تو نور ہے بجلی ہے اور بجلی تمام خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ اس کا کام ہی جلانا ہے آخر ایک دم انقلاب کیوں برپا نہیں ہوتا۔ بجلی کی یہ توانائی کہاں آسودہ ہے۔ یہ بجلی کیا ہے عشق ہے جو دریا میں راہ پیدا کر دیتاہے۔ آگ میں بے خطر کود پڑتاہے۔ اس آگ کی تمنا ہے خلاق عالم سے اس کی دعا ہے ملاحظہ ہو اقبال کے نزدیک دعا کیا ہے؟
دعا کا فلسفہ
دعا تفکر اور علمی تجربات کی کوشش سے زیادہ آگے کا مقام ہے۔ علامہ لھتے ہیں کہ فکر کی حالت میں تو ذہن حقیقت مطلقہ کا اس کائنات میں مشاہدہ کرتا ہے اوراس کے اعمال و افعال پر نظر رکھتا ہے۔ یعنی فطرت اور زمانہ کے نشیب و فرازپر نظر رہتی ہے۔ لیکن دعا کی صورت میں وہ ایک آہستہ گام کلیت کی منزل بمنزل رہنمائی کو چھوڑ کر فکر سے آگے بڑھتا ہے اور حقیقت مطلقہ پر تصرف حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے تاکہ بالارادہ اس کی زندگی میں حصہ لے سکے‘‘۔
بحیثیت روحانی تجلی کے ایک ذریعے کی دعا بھی ایک حیاتی عمل ہے جس میں دفعتاً محسوس کرتے ہیں کہ ہماری بینام سی شخصیت کی جگہ بھی کسی بہت بڑی اوروسیع زندگی میں ہے ۱؎
دعا گویا ان ذہنی سرگرمیوں کا لازمی تکلیہ ہے جوفطرت کے علمی مشاہدے میں سرزد ہوتی ہیں۔ فطرت کا علمی یعنی ازروئے سائنسی مشاہدہ تو ہمیں حقیقت کے کردار سے قریب دیکھتا ہے اور اس میں ذہنی بصیرت کے لیے ہماراا ندرونی ادراک تیز کر دیتا ہے۱؎۔
۱؎ اقبال تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ لاہور بزم اقبال ۱۹۵۸ء ص ۳۵‘۱۳۶۔
سائنس سے ہمیں ذہنی بصیرت کے لیے اندوانی ادراک کی قوت تو مل سکتی ہے یہ بطور آلہ مدد تو کر سکتا ہے۔ لیکن بذات خود معنی خیز اور ولولہ انگیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ بے بصیرت علم ہے جو انسان کو مشین کی طاقت تو دیتاہے لیکن بے ضمیر اور وجود عاشقانہ عمل سے خالی ہے بے ولولہ اور بے اضطراب ہے جس کا نمونہ برٹینڈ رسل کی کتاب سائنٹفک سوسائٹی میں موجود ہے۔ یا یوں سمجھیے کہ ہیروشیما پربم گرانے والے سے جب دریافت کیاگیا بم گراتے وقت تم کیا سوچ رہے تھے تمہارے سامنے کیا مقصد تھا؟ اس نے جواب دیا میرا مقصد اور میری خواہش یہ تھی کہ بم بالکل ٹھیک نشانہ پر لگے اور میں بچ کر نکل جائوں۔
رہا صوفی تو حقیقت کی طلب میں اس کے سلوک و عرفان کی منزلیں بھی اخلاق و عادات میں تو بلندی پیداکرتی ہیں لیکن ان کی بصیرت وقت و طاقت سے خالی ہے۔ اس لیے کسی زندہ و جاوید تمدن کی بنیاد رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔
لہٰذ ااگر ہم چاہتے ہیں کہ عبادت کا مقصد زیادہ کامیابی سے حاصل ہو سکے تو ا س کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ہم اسے اجتماعی شکل دیں‘ یوں بھی اگر عبادت میں خلوص اور صداقت کا رنگ موجود ہے تو اس کی روح ہمیشہ اجتماعی ہو گی ۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ بحالت اجتماع ایک عام انسان کی قت ادراک کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے ارو اس کے جذبات میں کچھ ایسی شدت اور ارادوں میں وہ حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے
۲؎ تشکیل ص ۱۳۷
ہرگز ممکن نہیں۔ لہٰذا بہ لحاظ نفسیاتی امر کے دعا ایک را ز ہے ۱؎۔
لہٰذا دعا خواہ انفرادی ہو خواہ اجتماعی ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے۔ کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں وہ اپنی پکار کی کوئی جواب سنے یہ انکشاف و تجسس کا وہ عدیم المثال عمل ہے جس میں طلب حقیقت کے لیے نفی ذات کا لمحہ بن جاتا ہے ۲؎ اور جس میں وہ اپنی قدر و قیمت سے آشنا ہو کر بجا طور پر سمجھتا ہے (کہ اس کی حیثیت کائنات کی زندگی میں سچ مچ ایک فعال عنصر کی ہے) ۳؎۔
زیستم تا زیستم اندر فراق
و انما آنسوئے ایں نیلی رواق
میں جی رہا ہوں برسوں سے فراق میں جی رہا ہوں۔ اس نیلے آسمان (اور نظر آتی ہوئی) دنیا سے پرے مجھے واشگاف دکھا دے۔
جب اقبال دوسری دنیا کا شوق ظاہر کرتے ہیں تو پردہ غیب کے اسرار کا اشتیاق ظاہر کرتے ہیں واس دنیا سے پرے دوسری دنیا سے اتصال اور قربت چاہتے ہیں تو لوگ پرانے فلسفہ پرانے تصوف اور گھسے پٹے تصورات کی بازگشت سمجھتے ہیں اور ان کے اس نازک فرق اور ان کے حقیقی خیال اور درد و کرب کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیںکرتے۔ علامہ نے آئندہ ان چھ اشعار میں اپنے اس عقیدے مبہم اور پیچیدہ مسئلہ کوبڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔
۱؎ تشکیل ص ۱۳۸
۲؎ قرآن مجید ادعونی استجب لکم
۳؎ اقبال‘ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص ۱۳۹
حقیقت میں ان کی پوری کتاب کا یہی منشا ہے اور اسی تصور کی عقدہ کشائی ہے جسے وہ اس مدعا میں واضح کر رہے ہیں۔
بستہ در ھا را پرویم باز کن
خاک را باز قدسیاں ہمراز کن
بند دروازے میرے سامنے کھول دے
خاکی کو نوریوں کا ہمراز کر دے
شرح صدر ہو جائے اور اب جسم وپوست کے ساتھ میں اس راز سے آگاہ ہو جائوں جو نہ نظر آنے والی دنیا اوراس جسم سے پرے دنیا کا راز ہے۔ ایک ہے مادی دنیا اور اس جسم کے جسے ہم ماد پرستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دوسری ہے اخلاقی اور روحانی دنیا‘ روح تمام کائنات کی ایک ہے۔ جو کل ائنات کا راز اور منبع بھی ہے اور سب میںجاری و سار ی ہے اس کی قربت اس کا شعور انسا ن پر ہر عارضی اور ناپائیدر کی حقیقت کو کھول دیتاہے اور پھر انسان باقی رہنے والی دنیا روحانی دنیا کو پانے کی کوشش میں لگ جاتاہے یہ روحانی دنیا علم و ترقی اور سائنسی و تاریخی دنیا پر قدرت حاصل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن یہ علممی دنیا اگر روحانی دنیا کے تحت رہتی ہے اور جذب و شوق سے روحانی قربت کی راہ پر چلتی ہے تو پھر اسے مادی دنیا پر اقتدارنصیب ہو جاتاہے۔ اور وہ کائنات کے شعور سے ہم آہنگ ہو کر تمام عالم بشریت کو اسی ایک شعور توحید سے وابستہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے لیے مذہب نے دراسلام کی بشارت دی ہے اور ایک مرکز محسوس قائم کیا ہے جس کا نام کعبہ ہے‘ لہٰذا اس کوشش میں کہیںبھی علم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا لیکن علم‘ عشق‘ لگن‘ کوشش اور کائنات کے شعور سے آگاہ ہوئے بغیر خلاقی نہیں کر سکتا۔ وہ ہر قدم پر اندیشوں اور گمان میں پھنس کر آہستہ خرامی کرتاہے۔ عشق مقصد سے ہمکنار کرتاہے۔
اقبال نے اس شعر میںایک نکتہ اپنے تصورات اور فلسفہ کا یہ رکھ دیا ہے کہ اس خاکی کو قدسیوں کا ہمراز کر خود فرشتہ اور خالص روحانی انسان جس میں مادیت نہ ہو مادی اقتدار نہ ہو‘ مادی کاروبار نہ ہو وہ اقبال کے نظام سے خارج ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ یہ خاکی یہ مادی حیثیت قائم رہے اور وہ راز بھی مل جائے۔
ولی اور صوفی جو ترک دنیا کر کے صرف اخلاقی زندگی بسر کرتے ہیں اورمادی ذمہ داری نہیں اٹھاتے وہ اقبال کے نظام اخلاق سے خارج اور بے کار ہیں ا س خوف سے دریا میں اترنے سے دامن تر ہو گا سلامتی کنارے پر ہے ایسے گوشہ نشین عابد و زاہد اپنے بدن کے تقاضے بھی پورا نہٰں کرتے۔ وہ ا س نظام عالم میں فکری علمی اور منطقی طورپر بھی ایک قید خانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہیں اس کارخانہ عالم کے فیصلوں میں شرکت کا کوئی حق نہیں۔لہٰذا اقبال اس مادی دنیا کی بھٹی میں سے تپ تپ کر کندن بن کے بے غش اور بے داغ نکلنے کی آرزو کرتے ہیں۔
آتشے در سینہ من بر فروز
عود را بگزار و ھیزم را بسوز
ایک آگ میرے سینے میں لگا دے
عود کو باقی رہنے دے اور خاشاک کو جلا دے
باز بر آتش بنہ عود مرا
در جہاں آشفتہ کن دود مرا
پھر میرے عود کو آگ پر رکھا
سارے جہاں میںمیری خوشبو پھیلا دے
آتش پیمانہ من تیز کن
با تغافل یک نگہ آمیز کن
میرے پیمانہ کی آگ تیز بھڑکا دے
اک تغافل آمیز نگہ مجھ پر ڈال دے
ان اشعار کی تشریح میں یہ نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اقبا نے اپنے فلسفہ کو بڑی کامیابی سے بیان کیا ہے ۔ وہ سی طرح بھی نظر انداز نہیں ہو سکتا۔ انسان کا بدن جو سب جانداروں کی طرح ہے اور بد کا وظیفہ زندگی وہی ہے جو دوسرے جانوروں کا ہے۔ ا س کی تمام ضروریات زندگی وہی ہیں لہٰذا اقبال آرزو کرتے ہیں کہ مجھے جانورستان ک یدرجہ سے بالکل بلند کر دے۔ یہ پستی کی خواہشیں اور اس بدنی دنیا کی آسودگی اس کی تمام آلائشیں مقامیت نسل پرستی وطنیت اور دوسرے تمام تعصبات کو جلا کر راکھ کر دے۔
پھر خالص سونے کی طرح انسانی جوہر اور روح لطیف رہ جائے گی جس کی مثال عود سے دی ہے۔ جب عود آگ پر رکھتے ہیں تو اس کی خوشبو سب جگہ پھیل جاتی ہے اور دماغوں کو معطر کر دیتی ہے۔ اسی طرح میرے ذہنی ارتقاء بلند اخلاق اور اعلیٰ تصورات کو ایسی سخت محنت کی کسوٹی پر رکھ اور ایسی محنت اور دماغ سوزی میں ڈال کہ یہ افکار پختہ ہو کر سارے زمانہ میں پھیل جائیں ان میں تاثیر ہو اور ولولہ پیدا کرنے کی قوت ہو‘ عود جل کر سب میں خوشبو پھیلا دیتاہے اسی طرح افکار شدید مشق و مشقت سے گزر کر تمام جہان میں نیا ولولہ اور تازہ جان پیدا کر دیں لیکن یہ سب جب ہی ہو سکتا ہے کہ اے خلاق عالم اور کارساز تیری توفیق شامل ہو تو ایک تغافل آمیز نگاہ ہی میری طرف ڈال دے۔
ما ترا جوئیم و تو از دیدہ دور
نے غلط ما کورو تو اندر حضور!
ہم تجھے تلاش کر رہے ہیں اور تو ہماری آنکھوں سے دور ہے‘ نہیں یہ غلط ہے بلکہ ہم اندھے ہیں ورنہ تو ہر وقت موجود ہے۔
انسان کو یقین ہے اور نفس مطمئنہ حاصل کرنے کے لیے بڑی نادر واردات اورتجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور جس کی اہل وہی شخصیتیں ہو سکتی ہیں جو نہایت درجہ مضبوط ہوں۔ انسان اللہ کے نور اور اس کے حضور کا احساس اور اس کے وجود کی شان کو اسی وقت دیکھ سکتا ہے جب اسے ہم کنار ہو کر اس میں مدغم نہ ہو جائے۔ بلکہ اسے اپنے آغوش محبت میں لے کر اس کا رازداں ہو جائے۔
لیکن ا س کے مشاہدے کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے ہمیں اس زندگی میں عمل کے لا انتہا مواقع میسر آتے ہیں اگر ہم نے اپنے اعمال میں اب استحکام پیدا کر لیا ہے کہ موت کے صدمے سے بھی محفوظ رہ سکیں تو اس صورت میں ہماری خواہشات کی موت آئندہ موت کے صدمہ کو برداشت کرنے کے قابل بنا دے گی لہٰذا جب ہم اپنے وطن سے رجوع کر کے محاسبہ نفس کرتے ہیں اور اسے باقی اللہ بناتے ہیں تو یہی نہیں ہوتا کہ اللہ کا نور ہمارا احاطہ کر لیتا ہے اورہم اخلاق الٰہیہ اختیار کر کے اس کے مشاہدات و واردات میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں گویا ہمارا کیا ہو ا سب اس کا کیا ہوا ہے اور اس کے تمام منشا کا اس طرح نفاذ ہو رہا ہے گویا ہم نافذ کر رہے ہیں۔
لیکن یہ ہوگا اس وقت کہ جب ہم اس انتہا کو پہنچ کر بھی کھو نہ جائیں اور سمجھ لیں کہ ہم وہ ہو گئے ہیں یا یہ کہ ہم بھی ہم ہیں بلکہ اس براہ راست اتصال میں بھی جو سب پر محیط ہے اپنے آپ کو قائم رکھ سکیں۔ تو اس کا حضور اور تقرب حاصل رہے گا۔
باکشا ایں پردہ اسرار را
یا بگیر ایں جاں بے دیدار را
یا یہ اسرار کے پردے اٹھا دے
یا یہ بے دیدار جان لے لے
اقبال نے بیحد شدت کرب اور تڑپ کا اطہار کیا ہے۔ اس شعر میں انہوںنے حد شوق اور اصل حقیقت سے دوری اور بے حضور ی کا ذکر کیا ہے جس میں بے باکی سے کہہ دیا کہ یا حقیقت آشنا کر دے ورنہ مجھے ایسی تاریک زندگی بالکل گوارہ نہیں اگر انسان میں یہ تڑپ یہ لگن یہ عشق پیدا ہو جائے تو وہ بغیر کمال کو پہنچے صبر کر ہی نہیں سکتا۔
نخل فکرم نا امید از برگ و بر
یا تبر بفرست یاباد سحر
میری فکر کا درخت بے برگ و بے ثمر ہے
یا تیر اس پر چلایا باد سحر
اقبال کہتے ہیں کہ میرے اففکار کا نتیجہ نکلنا چاہیے امت مسلمہ کے لیے میں نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے پوری جدوجہد اور کمال سعی سے اس قوم میںزندگی قوت اور اجتہاد کا ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مغرب کی غلامی‘ ذہنی پستی اور وطن نسل اور رنگ کی عصبیت سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن ابھی تک میری توقعات پوری نہیںہوئیں۔ میں نے درخت لگایا مگریہ ابھی تک برگ و بار سے خالی ہے‘ یا میرایہ سرمایہ حیات ختم کر دے یا نسیم سحر کو حکم دے وہ سب کے دل روشن کر دے اور میری محنت کا پھل اورنتیجہ نکل آئے۔
اس صدی میں کیا کئی سو سال سے ایسا مفکر پیدا نہیں ہوا تھاکہ اس نے روحانی اور فکری انقلاب برپا کر دیا ہو۔ اقبال کی دعا قبول ہوئی اور اس برصغیر میں ہی نہیںبلکہ تمام امت مسلمہ میں ترقی کا ولولہ پیدا ہو گیا اس میں شک نہیں کہ علمی تحریک اور افکار کا اثر اتنی جلدی عام نہیںہوتا جتنی شدت سے مادی تحریکیں پھیل جاتی ہیں۔ لیکن مادی تحریکوں کی ھیات ایک دو نسل سے زائد نہیں ہوتی۔ علمی اقدارکا اثر پائیدار اورمستقل ہوتاہے۔ اور ان سے دل روشن ہو کر پائیداری اور استقلال حاصل کرتے رہتے ہیں جب روشنی پھیلتی ہے تو لوگ اس کے اجالے میں چلنے لگتے ہیں تاریکی اور جہالت چھا جاتی ہے تو حیران کھڑے رہتے ہیں۔ بے نور علم چل نہیں سکتے اور پستی کے غار میں گرنے لگتے ہیں۔
عقل داری ہم جنونے دہ مرا
رہ بجذب اندرون دہ مرا
مجھے عقل دی‘ اب جنون بھی دے دے
اندرونی جذبہ کی طرف رہنمائی کر
یہ شعر اقبال کے بڑے معرکہ آرا فلسفہ اور عقیدہ کی ترجمانی کر رہا ہے۔ دنیا کے فلسفی اور مذہب نے عقل کی راہ علیحدہ متعین کی اور وجدان اور روحانی دنیا کانظام علیحدہ سمجھا یوںسمجھیے کہ دین ودنیا دونوںکو علیحدہ خانوں میں تقسیم کر دیا۔ بعض نے دنیا کو سراب اور مایا کہہ دیا تو بعض نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا فلسفہ منطقی موشگافیوں میں الکھ کر رہ گیا۔ وہ حقیقت کی تلاش میں عقل اور وجدان کو نہ ملا سکا لین یہ صرف اسلام ہے جس نے عقل اور وجدان کا اتصال کیا بلکہ وجدان کے ضمیر میں آخر حد تک عقل کو شامل کیا۔
اس فلسفہ اور اس حقیقت کی علامہ نے بار بار توضیح کی ہے۔ جدید دو رمیں علامہ اقبال کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ اسلام کی اس حقیقت کو روشن کیا اور مغربکے سامنے اس کی فلسفیانہ توضیح پیش کی۔یہی کام ابن رشد نے اپنے دور میں کیا تھا لیکن اصول اور علم کلام پر اس کی کتابیں مشرق تک نہیں پہنچیں اور بیسویں صدی میں جا کر شائع ہوئی ہیں۔ مسلمان ا س کی شرح ارسطو کو جانتے تھے اور اسی شرح تک محدود تھے۔ اس لیے اسے کافر جانا اور کافر یہ کہتے رہے کہ مسلمان ہے۔
علامہ نے اس شعر میں عقل خداداد کی اہمیت کے اظہار کے ساتھ ایک اور اضافہ کیا ہے جس کے بغیر زندگی نامکمل رہتی ہے۔ اور عقل پس و پیش میں مبتلا رہتی ہے ۔
مذہب اسلام عقل و دانش علم اور وجدان کا مجموعہ ہے۔ وحی سر تا پا علم ہے جسے قرآن نور سے تعبیر کیا ہے ۔ عقل انسان کا طرہ امتیاز ہے جو اسے تمام جانداروں میں ممتاز کرتی ہے لیکن یہ عقل علم کی روشنی میں آگے بڑھتی ہے۔ علم نظری ہو یا عملی بغیر عشق کے رہنما نہیں ہو سکتا اور عشق کی بنیاد وجدان ہے اس لیے مذہب کی عام تعریف اسلامی نظریہ سے یوں کی جا سکتی ہے کہ حقائق کا وہ نظام ہے جسے اگر خلوص سے مانا جائے تو جیسا کہ اس کا حق ہے سمجھ لیا جائے اور سیر ت اور کردار بدل جاتے ہیں۱؎۔
چنانچہ مذہب اسلام کے بنیادی اصول سائنسی معتقدات سے بھی کہیں بڑھ کر عقلی اساس پر قائم ہیں۔ اس لیے کہ نظر مادی حیثیت سے آگے نہیں بڑھتی وہ کوائف و حالات کی تعبیر جزئیات سے کرتی ہے اور کلیت کے تجربات سے اسے کوئی بحث نہیں ہوتی۔
۱؎ اقبال ‘ تشکیل جدید‘ ص۲
لیکن اسلام میں فکر اور وجدان دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کا سبب بنتے ہیں ۔ اسلام میں دنیا اور آخرت دو علیحدہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونو ں ایک ہی حیات کے مظہر ہیں۔ ایک عمل ہے اور دوسرا اس کا حاصل۔ اوربقول علامہ اقبال۔
برگسان نے نہایت ٹھیک کہا ہے کہ وجدان فکر ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے ۱؎۔
تمام مذاہب میں صرف اسلام نے دنیا میں عقل کا دروازہ کھولا ہے چنانچہ عقلی اساسات کی جستجو کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا سے کیاجو ہمیشہ آپ کے لب مبارک پر تھی۔ اے اللہ مجھے اشیا ء کی اصل حقیقت سے آگاہ کر ۲؎۔
اقبال نے اس فلسفہ اور اس شعر کے مفہوم کو تشکیل جدید میں ایک دوسرے انداز سے بھی بیان کیا ہے اور یہی عقل میں جنوں کی طلب کا ماحصل ہے۔
فکر ذہن کی وہ حرکت ہے جسے علم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور جس کا مختلف تصورات کی طرف بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ اقبال اس کے لیے کہتے ہیں کہ اس فکر یعنی علم میں حرکت پیدا ہوتی ہے تو محض اس لیے کہ اس کی متناہیت میں لامتیناہی مضمر رہتاہے وہ اس کے شعلہ آرزو کو برقرار رکھتا ہے۔ اور وہی اس کی بے پایاں جستجو میں اس کو سہارا دیتاہے۔
علم و حکمت اس نامعلوم کی تلاش میں رواں دواں ہے۔
۱؎ اقبال تشکیل جدید ص ۲
۲ ؎ اللھم ارنی الاشیاء کما ھی
ستاروں کی اس تک پرواز ہو گئی یہی لامتناہی کی تلاش اور یہ شعلہ آرزو کسی دن انسان کو کامیابی تک پہنچا دے گا۔ بشرطیکہ شعلہ آرزو حقیقت کی تلاش میں تیز سے تیز تر ہوتا جائے۔ اور راہ کی کثافت میں الجھ کر نہ رہ جائے جو دوسروں پر غلبہ کی معصیت اور اصل حقیقت سے روگردانی پیدا کرتی ہے۔
بہرکیف اس شعر میں اقبال نے عقل کے ساتھ جنوں اور عشق کی آرزو کی ہے۔ جب تک دل میں جذبہ نہ ہو گا کامیابی سے ہمکنار ہونا مشکل ہے علامہ اقبال نے کہا تھا:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
حافظ کا مشہور شعر ہے:
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
رہا یہ کہ مندرجہ بالا شعر کے دوسرے مصرع میں علامہ اقبال نے کہا ہے:
رہ بجذب اندرونے دہ مرا
اس کی تشریح کے لیے اقبال کی عبارت کافی ہے۔ قرآن شریف کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہے۔ ۱؎ اگر یہ شعور نہیں ہے تو جسم نامی اور توحیدی نظام اس کے لیے روشن نہیں ہو گا‘ اور راہ سہل نہیں ہو گی
علم در اندیشہ می گیرد مقام
عشق را کاشانہ قلب لا نیام
۱؎ اقبال تشکیل جدید ص ۱۳
علم اندیشہ میں گرفتار رہتا ہے۔ عشق کا مقام بیدار دل ہے جو کبھی نہیں سوتا۔ تجربہ اور عقل کے ذریعہ ہمیں جو علم حاصل ہوتا ہے وہ اپنی جگہ ضروری ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس علم کی دسترس سے باہر ہیں اور وہ ان سے متعلق شک میں رہتا ہے اور تذبذب کی وجہ سے تیزی سے قدم نہیں بڑھا سکتا مثلاً خود انسان کی اپنی ذات سے تعلق اس کا علم محدود ہے۔ پھر مستقبل اس کے سامنے غیر معلوم ہے ہستی کی تمام کمزوریوں اور توانائیوں میں اسے حدود کا اندازہ نہیں ہے اوروہ تخمین و ظن اور گمان کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے ایسا یقین نہیں ہوتا کہ لیکن زندگی شک و شبہ کے سہارے بسر نہیں کی جا سکتی۔ جذبہ عشق ارتقاء کی راہ بھی بناتا ہے اور اس پر ایمان بھی عطا کرتا ہے یہ جوہر انسانیت ہماری ذات ہی میں موجود ہے جسے ہم خودی کہتے ہیں یہ عشق کی وجہ سے لافانی ہوتا ہے۔ اور زمان و مکان سے بالا تر ہوتاہے۔ رات اور دن کے شمار میں اسے ٹھہرائو نہیں دل کی طرح یہ جذبہ مسلسل حرکت تڑپ اور آگے بڑھنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس کا جذبہ عشق اسے مادیت سے بے نیاز اور قید و زمان سے آزاد کرتا ہے۔ اگر وہ اپنی اس حیثیت کا ادراک کرے اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم کر لے تو وہی لمحہ اس کی لافانیت کا ہیل۔
قلب مومن ہر آن بیدار ہے آنکھیں سوتی ہیں دل جاگتا ہے۔
وہ ہستی جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ اس کے تعلق سے وہ قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ سرچشمہ وحدت سے قریب ہو کر اس کی مرضی اور خواہشات کے موافق خود ڈھال کر ا س کو اپنا مقصود بنائے اور ہر دم اس کے حصول وصول میں شعور بیدار بن کر عمل پیرا رہے یہ ہے عشق کا مقام جو بیدار ہے۔
علم تا از عشق بر خوردار نیست
جز تماشا خانہ افکار نیست
علم جب تک عشق سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ وہ افکار کی تماشا گاہ بن جاتاہے۔ دنیا کی ہر دلچسپی اور ہر نظارہ ہر خیال عجائبت سے کم نہین جس فن اور جس شوق میں بھی انسان الجھا عمر اسی میں بربارد ہو گئی۔ پھر افکار کی سیر اور لذت ایسی دامن کش ہوتی ہے کہ معلوم ہوتاہے یہی سب کچھ ہے ۔ اس سے دامن بچانا مشکل ہو جاتا ہے جتنے زندگی کے نظریات ہیں ان کی مشغولیت انسان کو الجھا کر اس کی سیر میں مشغول کر دیتی ہے۔
اور عشق یک سو ہر کر سب سے نیاز کو منزل مقصود کی طرف لے جاتاہے اس لیے علم میں یقین کی راہ اگر پیدا ہو گی تو وہ عشق سے عشق منزل کی طرف اڑا لے جائے گا ورنہ افکار عجائب خانہ جائیں گے۔
ایں تماشا خانہ سحر سامری است
علم بے روح القدس افسونگری است
یہ تماشا خانہ سامری کاجادو ہے علم بغیر روح القدس کے جادوگری ہے۔
علم دنیا میں سب سے بڑی طاقت ہے ۔ توانا پود ہر کہ دانہ بود علم کی بدولت تمام جہان میں نئے نئے تصورات نئے نئے نظریے اور حیرت میں ڈال دینے والی ایجادات سامنے ہیں۔ یہ دیکھ کر انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کہ دنیا زبردست تماشا گاہ بن گئی ہے۔ واقعی یہ تمام دنیا ایک جادو گھرمعلوم ہوتی ہے کہ انسان کو ایک سے ایک برھ کر حیر ت میں ڈالنے والے نئے نئے کرشمے نظر آ رہے ہیں۔ سائنسی دنیا نے اور علمی افکار کی عملی کوشش نے دنیا کو انتہائی دلچسپ بھی بنا دیا ہے اور انتہائی خطرناک بھی کہ کسی دن بھی انہیں سائنسی کرشموں کے ذریعہ دنیا تباہ بھی ہو جائے گی جس طرح جادو کا کھیل ہوتا ہے۔ کہ ابھی سب کچھ ہے اور پھر جو دیکھا تو سب ایک تماشاتھا۔ جب کھیل ختم ہوا تو پھر کچھ نہ رہا۔ یہ ہے موجودہ دنیا کی حقیقت۔
لیکن ان علمی کوششوں کا رخ اگر انسانی فلاح اور صلاح کی طرف پھیر دیا جائے تو گہوارہ امن بن کر جنت کانمونہ بن سکتی ہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ اس علم کو مسلمان کر لیا جائے یعنی امن کے پیغام سے سرشار کر دیا جائے۔
اگر اس علم میں روح القدس اور پاک روح نہیں ہے تو یہ تمام وجود بے روح اور ایک ناپائیدار کھیل ثابت ہو گا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا میں جادو کا کرشمہ ناپائیدار اور بے ثبات ہوتاہے پائیدار اور باقی رہنے والا علم وہ ہے جس سے تمام کائنات میں امن اور فلاح کا دور دورہ ہو۔ مولانا روم نے فرمایا تھا۔
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر جاں زنی یارے بود
اگر علم کو بدن کے لیے مقرر کر دو گے تو یہ سب کو ڈس لے گا۔ ہماری تمام سائنسی ترقی آج دنیا کی جان کو ٓا گئی ہے۔ اور پوری دنیا پر دنیا پر ہلاکت کو خوف چھایا ہوا ہے۔ ایٹم بم اور ہائی ڈروجن بم بن گئے۔ علم کا یہ عفریت جلوہ گر نظر آ رہا ہے اور انسانیت پس پشت چلی گئی ہے۔
بے تجلی مرد دانا رہ نبرد
از لکد کوب خیال خویش مرد
بغیر تجلی کے دانا آدمی نہ پا سکا۔ اپنے خیال کی اچھل کود سے مر گیا۔
آج مغربی دنیا کا ایک سائنسدان اور ایک عالم بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اقوام متحدہ کے منشور کا قائل نہیں ہوں‘ اور انتہائی شریف النفس نہیں ہوں لیکن یہی عالم انتہائی بے ضمیری کا بھی ثبوت دیتے ہیں اور اپنے عیش و طرب میں ڈوب کر اپنے علم کو تیسری دنیا کو لوٹنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی کتاب میں واضح طو ر پر کہا ہے۔
(الف)
دانش افرنگیاں غارت گری
دیرھا خیبر شد از بے حیدری
اہل یورپ کا علم غارت گری ہے اور تمام کینسے خیبر خطہ یہود بن گئے حیدری نہ ہونے کی وجہ سے علم کی بے راہ روی بے چاررگی اور لاچاری کو اقبال کی زبانی مزید ملاحظہ کیجیے جب علم میں روحانیت اخلاق اورانسانیت نہ ہو تو اس کا کیا حشر ہوتا ہے۔
(ب)
آنکہ گوید لا الہ بیچارہ ایست
فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست!
جو اللہ کو نہیں مانتے بے چارے ہیں۔ ان کی فکر اور سوچ کوئی مرکز نہ ہونے سے منتشر ہے۔ کمیونسٹ ملک یہی نہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف ہیں بلکہ ان کے قانون کا کوئی مستقل ماخذ نہ ہونے کی وجہ سے اختلاف ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ان کا بھی وہی حال جو دوسرے مغربی ممالک کا ہے۔ کمزوروں پر اقتدار اور طاقت وروں سے سودے بازی۔
بے تجلی زندگی رنجوری است
عقل مہجوری و دیں مجبوری است
۱؎ اقبال جاوید نامہ ص ۲۲۴
بغیر روشن ضمیر ی کے زندگی آزارہے۔ عقل فراق میں ہے ۔ اور دین مجبوری ہے ۔
اقبال نے اس شعر میں مسلمانوں کی حالت زار اور علمی تباہ حالی کا چند الفاظ میں نقشہ کھینچ دیا ہے ۔ کہتے ہیں اوپر آپ نے بے فیض علم اور خود غرض سائنس اور سفلی علم کا حال دیکھ لیا‘ حقیقت یہ ہے کہ اگر دل روشن نہیں اور دماغ تاریک ہے۔ اخلاق نہیں ایثار نہیں اور روحانیت نہیں ہے تو زندگی آزارہے۔ جانوروں کی طرح جو پیٹ کی خاطر وقت کی غلامی میںمبتلا ہے اور نفس کی شکا ر ہے۔ عقل تنہا اور دین مجبوری سے ہے۔ مسلمان ملک میں ہیں۔ یا مسلمانوں میں پیدا ہوئے مسلمان نام وہی زبان وہی معاشرت وہی ماحول اس لیے کافر نہیں بن سکتے۔ مجبوراً مسلمان ہیں۔
کافر نتوند شد ناچار مسلمان شو
یہ مجبوری کا اسلام اور مجبوری کا دین زندگی کا آزار ہے۔ اگر انسان ہے عقل ہے علم ہے ارو دل زندہ تو انسان اس زندگی کے لیے وقف کر دے گا اور چاہے کہ اس مہلت سے بقا کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔
ایں جہاں کوہ دشت و بحر و بر
ما نظر خواہم و او گوید خبر
بحر و بر اور کوہ دشت کے اس جہاں میں‘ ہم غور کرنا چاہتے ہیں ارو دنیا خبر دیتی ہے۔
قرآن ہمیں زمین اور آسمانوں کے تمام خزانوں اور کائنات کے تمام اثاثوں کی تسخیر کی ترغیب دیتاہے اور کہتاہے کہ یہ سب تمہارے لیے ہیں ان سے جدوجہد کر کے فائدہ اٹھائو لیکن یہ سب اللہ کی ملکیت ہے تم سب مل کر اس سے استفادہ کر سکتے ہو لیکن کوئی فرد یا جماعت اس پر قبضہ کر کے دوسروں کو استفادہ سے نہیں روک سکتا اور یہ عمومی نظر اور بصیرت پیدا ہو گی تو جب تم خالق کائنات اور مالک حقیقی سے اپنا رشتہ جوڑ لو اور اس دنیا پر اس کی نیابت کا فرض ادا کرو۔ جس میں اس کے بتائے ہوئے ضابطہ کی پابندی کرنا ہو گی۔ اور اگر یہ مقام حاصل نہیں ہے تو دنیا کا حال دیکھتے رہو عبرت ضرور ہو گی لیکن آگے بڑھنے کی توفیق نہیں ہو گی۔
منزلے بخش ایں دل آوارہ را
باز دہ با ماہ ایں مہ پارہ را
اس آوارہ دل کو مرکز عطا کر‘ اس نور کے ٹکڑے کو ماہ منیر سے ملا دے۔
اقبا ل اس دعا میں رسالت مآبؐ سے رجوع کرتے ہیں۔ رسالت مآبؐ کی ذات ماہ منیر ہے چنانچہ پس چہ باید کرد میں اقبال حضور رسالت مآبؐ اور مہر عالم تاب سے خطاب عرض کرتے ہیں۔
اے امیر خاور اے مہر منیر
می کنی ہر ذرہ را روشن ضمیر
اے امیر خاور اے مہر منیر
ذرہ ذرہ تجھ سے ہے روشن ضمیر
تیرہ خاکی را سراپا نور کن
در تجلی ہائے خود مستور کن
تیرہ خاکی کو سراپا نور کر
اپنے جلوئوں سے مجھے مستور کر
۱؎ اقبا ل پس چہ باید کرد ص ۹
اے کہ تیری ذات مقصود حیات
اس طرف بھی اک نگاہ التفات
میرے ذکر و فکر کا حاصل ہے تو
علم وعرفاں کی مرے منزل ہے تو۱؎
اقبال مناجات میں مصروف ہیں مسلسل جدو جہد کر رہے ہیں نظم و نثر سے اور سیاست سے غرض ہر طرح سے امت مسلمہ کی بیداری کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مقصودکی قربت حاصل نہیںہوتی آگے یہی اظہار ہے:
گرچہ از خاکم نروید جز کلام
حرف مہجوری نمی گردد تمام
زیر گردوں خویش را بایم غریب
ز آنسوئے گردوں بگوانی قریب
اگرچہ میں مسلسل لکھ رہا ہوں لیکن ہجر کی با ت پوری ہونے نہیں پاتی۔ آسمان کے نتیجے میں خود کو اجنبی پاتا ہوں۔ اوپر سے مجھے کہدے میں قریب ہوں میں اکیلا سوز دل سے دپش میں ہوں۔ کوئی ہمراز اور ہمسفر نہیںہے مجھے اے نور آفتاب تیری قربت چاہیے قبولیت کے دروازے کھول دے اور مجھے قربت نصیب ہو۔
تامثال مہر و مہ گردد غروب
ایں جہات و ایں شمال و ایں جنوب
مجھے قربت نصیب ہو تاکہ یہ مثالی چاند سورج سب ڈوب جائیں نہ زمان و مکاں رہے نہ چار سمت نہ یہ شمال اورنہ جنوب رہے یہ سب امتیازات ختم ہو جائیں۔
۱؎ حکمت کلیمی ترجمہ پس چہ باید کرد ص ۱۱۵۔۱۱۶
از طلسم دوش و فردا بگزرم
از مہ مہر و ثریا بگزرم
میں روز و شب اور آج کل کے شمار سے گزر جائوں۔ چاند سورج اور ثریا سے گزر جائوں۔ اور مجھے تیری قربت نصیب ہوجائے ۔ وہاں ایں و آں اور کم و بیش کچھ نہ ہو‘ یہ حضوری کا وہ مقام ہے جہاں حق اپنے تمام اسرار کے ساتھ آشکار ہے۔ اس کے دیدار میں مسلسل اضافہ ہی اضافہ ہے جس میں کبھی کمی نہیں آتی خلاق ہے نئے نئے مقاصد اور نئے نئے جلوے سامنے آتے ہیں۔ اس کے سامنے دوش و فردا حاضر ہیں اور ایک ہیں۔
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ
مولانا روم نے کہا تھا:
گفتہ او گفتہ اللہ بود
لیکن اقبال کہتے ہیں:
تو فروغ جاوداں ماجوں شرار
یک دودم داریم و آں ہم مستعار
تو جاوداں روشن ہم چنگاری کی طرح ایک دو پل کی مہلت ہے وہ بھی مستعار ہے۔
اقبال مسلسل جدوجہد اور عشق ناصبور رکھتے ہیں۔ زندگی اس کا نام ہے۔ سکون اور عدم حرکت موت ہے ضمیر کائنات اور فروغ چاروں کے قریب پہنچ کربھی چین نہیں آتا۔ کہتے ہیں یہ تجلی اور یہ دائمی فروغ تجھے حاصل ہے اور ہم تو مختصر زندگی رکھتے ہیں ارو وہ بھی ناپائیدار ہے۔ بیشک انسان ہر لمحہ نقصان میں ہے ۲؎۔
۱ ؎ اقبال بال جبریل ص ۱
۲؎ ان الانسان لفی خسر(سورہ و العصر) قرآن حکیم
عمر گھٹ رہی ہے وقت گزر رہا ہے۔ موت پیچھے لگی ہوئی ہے۔ اور زیست کو دوام نہیں۔ یہ اضطراب انسان کو بقا کی جدوجہد میں مشغول کرتا ہے اگر تو باقی ہے اور ہم عارضی تو یہ تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ جب کہ ہم بھی اسی ماہ کے ایک پارہ ہیں۔ اسی نور کے ایک حصہ ہیں۔ جب کہ دوسری جگہ اقبال نے کہا ہے کہ وہ بھی ہماری تلاش میں ہے میں بھی اس لیے نام ہی جستجو کا ہے۔
عبد و مولا در کمین یک دگر
ہر دو بے تاب انہ از ذوق نظر
زندگی ہر جا کہ باشد جستجو است
اے تو نشناسی نزاع مرگ و زیست
رشک بر یزداں برد ایں کیست ۱؎
اے کہ تو موت اور زندگی کے نزاع سے ناواقف ہے۔ تجھے معلوم بھ یہے کہ ایسا بندہ بھی ہے جو یزداں پر رشک کرتا ہے۔ کہ وہ لازوال اور قائم دائم ہے۔
اس کی کوشش یہ ہے کہ اسے بھی دوام نصیب ہو۔ جیسا کہ خود اقبال نے لکھا ہے:
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اور اسے اردو میںیوں بیان کیا ہے:
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
بندہ آفاق گیر و ناصبور
نے غیاب او را خوش آید نے حضور
۱؎ اقبال جاوید نامہ ص ۲۲۳
بندہ تسخیر عالم کرنے والا اور بے صبر ہے نہ اسے ہجر پسند ہے نہ حضور ی پسند ہے۔ عشق اسے مسلسل جدوجہد میںرکھتا ہے۔ اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے۔ یہی لگن لگی ہوئی ہے۔ کانات کی تمام ا س کے جلوئوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور ان کو سمیٹنا اس زندگی کے بس کی بات نہیں جیسا کہ حالی نے کہا تھا:
گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں
یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں
ہرجا تیری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
جب اس دنیا کی وسعت ہے تو اس کے جلوئوں کا شمار کیا۔ انسان اسے پاتا ہے انہیں سمیٹ نہیں سکتا۔ تو بول اٹھتا ہے:
آنیم من جاودانی کن مرا
از زمینی آسمانی کن مرا
میں ایک آن کا ہوں مجھے جاودانی بنا دے
میں خاکی ہوں مجھے آسمانی بنا دے
انسان اس خاکدا ن میں الجھ کر اپنی پہنائی کو محڈود کر دیتا ہے ۔ تسخیر کائنات کا عزم ہو تو اسے اپنے تصورات اوراعمال میں آٖاقی بننا ہوگا۔ زمین سے وابستگی زمین کو پیوند کر دیتی ہے۔ اور آسمانی شعور اور بلند عزائم نور سے وابستگی جو زمان و مکان میں محدود نہیں ہے۔ انسان کو لازمان و لامکان میں داخل کر دیتی ہے۔ لیکن یہ ایسی چیز نہیں جو ہر انسان کو میسر آئے۔ فانی سے وابستگی کا انجام فنا ہے اورجاودانی سے وابستگی کا انجام جاودانی ہے۔
ہمت بلند دار کہ پیش خدا و خلق
باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو
لیکن اس لیے چند شرائط ہیں بری مشکلات اور آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے اصول اور قانون کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اور بڑے تحمل اور صبر سے کام لینا ہوتا ہے۔
ضبط در گفتار و کردارے بدہ
جادہ ھا پیداست رفتارے بدہ
اے اللہ گفتار و کردار میں نظم و ضبط دے۔ راستے کو مل گئے چلنے کی قوت بھی دے۔
جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رہنمای کے لیے بھیجا گیا تو ان سے کہا گیا اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہے۔ وہ سب سے بڑا ہے۔ شب و روز اسی کی تکبیر کہیے۔ ہر قسم کی خرابی اور گندگی سے دور رہیے نہایت خلوص کے ساتھ بغیر دنیاوی اجر اور بدلہ لیے خوبیاں پھیلائے اس راہ میں سخت مشکلات اور مصائب کا سامنا ہو گا لہٰذا صبر سے کام لیجیے ۱؎۔
علامہ اقبال نے گفتار اور کردار کے ضابطہ اور اصول کو شروع میں ہی اسرار ورموز میں بیان کر دیا تھا وہ یہ ہیں۔
(الف) کل عالم کی بنیاد ایک شرار آرز و ہے ۔وہ معرفت نفس اور عرفان خودی ہی کی جدوجہد ہے۔
(۲) ا س کا ارتقاء انتہائی محبت اور عشق پر منحصر ہے۔
عشق آخر سراپا حق شود
۱؎ قرآن مجید (۷۴۔۱۔۷)
دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سمائی ہوئی ہو۔
جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست
اس کے بعد گفتار اور کردار سازی کے تین درجے مقرر کیے ان سے آدمی کی فردیت اورتشخص قائم ہوتا ہے۔ یہ آئین مسلم ہے ۔
اول : اطاعت ‘ خدمت محنت اور صبر۔
دوم: ضبط نفس ہر خوف سے بے خطر ہو۔ ا س ضبط کی تربیت نماز روزہ حج زکوۃ س کی جائے تاکہ دولت وطن اور خویش اقربا کی محبت غالب نہ آئے اور قرآن پر عمل استوار ہو۔
سوم: نیابت الٰہی قائم بامر اللہ ہونا اللہ کے لیے جینا اللہ کے لیے مرنا دنیا میں صلح و امن قائم کرنا عمل سے سارا عالم منور کرنا کلمہ اللہ کی سر بلندی مقصد حیات ہے۔ دوسری ترتیب جماعت اور فرد کا تعلق ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اس کے اسرار ذیل میں درج ہیں:
فرد اور جماعت کا تعلق نبوت نے مستحکم کیا ہے۔
رکن اول توحید ایک قرآن‘ ایک رسول‘ ایک جماعت‘ سب ہم خیال مایوسی حرام ہے۔
رکن دوم‘ رسالت: مقصود رسالت تاسیس حریت‘ مساوات ‘ اخوت بنی نو ع آدم الف ملت کس ز مانہ سے وابستہ نہیں ہے۔ ب آئین ملت قرآن ہے۔ شرع محمدی قانون ہے جس کی ترقی کی اساس اجتہاد ے حیات سلیم کا مرکز محسوس بیت الحرام ہے۔
جمعیت حقیقت نصب العین کے استحکام سے قائم ہوتی ہے۔ اور نصب العین کی حفاظت اور اس کی اشاعت ہے۔
ملی زندگی کا کمال جسم نامی کی تکمیل سے پیدا ہوتا ہے۔ اور ملی روایات کے استحکام پر منحصر ہے۔
توحید کاخلاصہ سورہ اخلاص کی تفسیر ہے۔
اقبال گفتارو کردار کے ضابطہ کر تذکرہ کر کے اپنی مناجات کا اختتام رکتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ اس کتاب میں کہا ہے بالکل نئی دنیا کی بات ہے۔ اس لیے کہ عشق نے میری جان کو دیدار کی لزت بخش دی ہے۔ میری زبان کو گفتار کی جرت دے دی ہے۔
آنچہ گفتم از جہانے دیگر است
ایں کتاب از آسمانے دیگر است
میں نے جو کچھ کہا ہے یہ دوسرا ہی جہان ہے۔ یہ کتاب ایک دوسرے ہی آسمان کی بابت ہے۔
اقبال کی پوری زندگی اس ویران خزاں آباد دنیا میں نور و نظر پیدا کرنے کی کوشش میں گزری ۔ انہوںنے عصرحاضر ک ونئی دنیا اور اعلیٰ تصور سے آگاہ کیا۔ اپنی شخصیت کا عرفا ن دیا تعصب منافرت ‘ استحصال اور جہالت کی تاریکی سے نکالا سیدھی راہ دکھائی اور ملت اسلامیہ میں نئی جان ڈالی انہوںنے فارسی کی مثنوی اسرار و رموز میں ہی اس کو واضح کر دیا تھا‘
۱؎ اقبال جاوید نامہ ص ۲۲۳
دنیا کو چونکا دنے والی نئی جان ڈالنے والی او رملت میں ولولہ اور جوش پیدا کرنے والی بلند عزائم کی بات ایک مرتب اور مربوط طریقہ سے اسرار و رموز میں ہی بیان کر دی تھی۔ اور اس کی ابتدا میں یہی کچھ کہا تھا کہ جو جاوید نامہ کی مناجات میں کہہ رہے ہیں لیکن جاویدنامہ ا س کی تاریخی شہادت اور حرف و حکایت کی منہ بولتی نشانی ہے مثنوی میں کہا گیا تھا۔
در جہاں خورشید نوزائیدہ ام
رسم و آئین فلک نادیدہ ام
عصر من دانندہ اسرار نیست
یوسف من بہر ایں بازار نیست
نغمہ من از جہاں دیگر است
ایں جرس را کارواں دیگر است
ہیچ کس رازے کہ من گویم نگفت
ہیچ فکر ایں در معنی نہ سفت
بہرکیف اس مناجات میں روئے سخن اور تفصیل کی طرف پھیرتے ہیں جو جاوید نامہ میں بیان ہو گی جسے اب تک کسی نے بیان نہیںکیا ہے۔ فکر و نظر کا بے پایاں سمندر ہے جس میں اب تک کسی نے سفر نہیں کیا ہے کہتے ہیں:
بحرم و از من کم آشوبی خطاست
آں کہ در فکرم فرو آید کجاست
میں سمندر ہوں اور میرا تلاطم کم نہیں ہو سکتا کہاں ہے کوئی جو میرے سمندر میں اترے۔
یک جہاں بر ساحل من آرمید
از کراں غیر ازرم موجے ندید
ایک جہان نے میرے کنارے پر آرام کیا۔ کنارے سے بس موجوں کو لوٹتے پلٹتے ہوئے دیکھا اور کچھ نہ دیکھا۔ لوگوں نے اس علم اور اس فکر و نظر کی گہرائی اور ا س کی وسعت کو بالکل نہیں پہچانا۔ انہوںنے دور سے تماشا کیا اور کنارے کی موجوں کو دیکھا اور انہیں سمندر کا قطعی علم نہیں ہے۔ صرف شاعری سے لطف لیا ہے لوگوں نے یہ نہ اس کی وسعت کا نہ اس کی گہرائی کا نہ اس کے طوفان کا اور نہ اس کے خزانوں کا اندازہ کیا۔ یہ کتاب ہے جس میں دوسرے جہان کا حال بیان کیا گیا ہے۔ لیکن کیا کوئی ہے جو اسے پڑھے سمجھے اور اس پر عمل کرے۔
اقبال کہتے ہیں کہ اب تک میں نے جتنا لکھا ہے اس سے اس زمانہ نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ پرانی نسل جمود میںمبتلا ہے اور اپنے خول کو اتار پھینکنے کے لیے تیار نہیں۔
من کہ نومیدم ز پیران کہن
دارم از روزے کہ می آید سخن
میں ان پرانے بڈھوں سے ناامید ہوں میں اس زمانہ کی باتیں کر رہا ہوں جو آ رہا ہے۔
یہ کہن سال دقیانوسی لوگ فرقہ بندی اور مذہبی گروہ بندی میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان میں وہ سب خرابیاں ہیں جن سے انسانیت ختم ہوتی ہے اور غلامی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان میں سود خوری کی تباہ کاری بھی شامل ہے بادشاہی سرداری اور نوابی بھی ہے۔ ملا کے ناقص علم کی تباہ کاری بھی ہے اور پیر پرستی کی تقدیر پرستی بھی ہے جس نے بے عملی کی نیند سلا دیا ہے اقبال نے لکھا ہے ۱؎۔
چار مرگ اندر پئے ایں دیر میں
سود خوار و والی و ملا و پیر
۱؎ اقبال ‘ جاوید نامہ‘ ص ۲۲۴
بربادی اور تباہ کاری کے لیے چار ہلاکتیں پیچھے لگی ہوئی ہیں۔ سودخواری والی ملا اور پیر۔
اقبا ل نے ان چار عناصر کو جن سے برصغیر کے اسلامی جسم میں گھن لگا ہوا ہے جاویدنامہ میںتفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں چند شعر بطور مثال جاوید نامہ سے درج کیے جاتے ہیں۔
سود خوار
از ربا جاں تیری دل چوں خشت و سنگ
آدمی درندہ بے دندان و چنگ
از ربا آخر چہ می زاید؟ فتن!
کس نداند لذت قرض حسن
ہیچ خیر از مردک زرکش مجو
لن تنالوا البرحتی تنفقوا
والی
چیست قرآں خواجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ بے ساز و برگ
رایت حق از ملوک آمد نگوں
قریہ ہا را دخل شان خوار و زبوں
آب و نان است از یک مائدہ
دودہ آدم کنفس واحدہ ۱؎
ملا
دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا مومن کافر گر است
۱؎ اقبال جاویدنامہ ص ۹۰۔۸۹
دین کافر فکر و تدبیر جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد ۱؎
پیر
کافر بیدار دل پیش صنم
بہ ز دیندارے کہ خفت اندر حرم
سود خوار
سود سے روح تاریک اور دل اینٹ پتھر بن گیا
دانت اورناخن کے بغیر آدمی درندہ بن گیا
سود سے انجام کار کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ فساد! قرض حسن کی لذت کسی کو کیا معلوم ہو گی پیسے کے لالچی سے بھلائی کی قطعی امید نہ رکھو بھلائی اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک خڑچ نہ کرو گے‘‘۔
والی
قرآن کیا ہے؟ آقا کے لیے موت کا پیغام۔ بے سر و سامان آدمی کے لیے دستگیر ۔ اللہ کا پرچم بادشاہوں نے سرنگوں کیا ہے ۔بستیوں کو انہوں نے داخل ہو کر اجاڑ دیا ہے۔ ہم سب آدمیوں کا کھانا پانی ایک دستر خوان پر ہے۔ آدم زاد سب ایک جان کی طرح ہیں۔
ملا
دین اسلام کافری سے بھی زیادہ بدنام ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ مومن کو ملا کافر بنا رہا ہے۔ کافر کا دین جہاد کی تدبیر اور فکر کرنا ہے۔ ملا کا دین اللہ کے نام پر فساد پھیلانا ہے۔
پیر
روشن دل کافر بت کے سامنے اس دیندار سے اچھا ہے جو مسجد میں سو گیا ہے۔
۱؎ اقبال ‘ جاویدنامہ ص ۸۴۔۸۵
اقبال نے پرانی نسل سے مایوسی کا اظہار کیاہے وہ پرانے سالخوردہ لوگوں سے مایوس ہو گئے ہیں جن میں جمود اور گمراہی نے جڑ پکڑ لی ہے پھر علامہ اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ میری باتیں اور اس کتاب کا مضمون اس لیے سمجھ میں نہیں آئے گا کہ مستقبل کے متعلق بیان ہے اسے نئی نسل ہی سمجھ سکے گی اس لیے کہ وہ ابھی تک ان برائیوں میں مبتلا نہیںہوئی۔
وہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ کرے یہ نوجوان میری باتیں سمجھیں ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ اکٹھے ہوں۔ اے اللہ میرے کام میں دل نشینی اور تاثیر پیدا کر چونکہ اس کتاب میں حکمت اور نظریہ سے بحث کر رہا ہوں۔ تاریخ اقوام اور عالم اسلام کے عین مباحث پر گفتگو ہے اور محاکمہ ہے اس لیے ایسا انداز بیان کر کہ نوجوان اسے آسانی سے سمجھ لیں اس دعا پر مناجات ختم ہوتی ہے۔
بر جواناں سہل کن حرف مرا
بہر شاں پایاب کن ژرف مرا
نوجوانوں کے لیے میرا بیان آسان کر دے
ان کے لیے میرے افکار عام فہم کر دے ۱؎
۱؎ اقبال‘ جاوید نامہ ص ۶
٭٭٭
اشاریہ
۱۔ اسماء الرجال
۲ ۔ کتب اور رسائل
۳۔ مقامات اور دائرے
۴۔ مصطلحات
٭٭٭
اسماء الرجال
شخصیات و اسماء
الف ممدودہ
آدم : 10 ,17 ,21 ,40 ,43
آنند راج: 40
آئن سٹائن: 27 ,35
الف مقصورہ
ابن خلدون: 50
ابن رشد : 56 ,91
ابن طفیل : 16
ابن مسکویہ : 21
ابو زہرہ: 75
اخوان الصیفائ: 21
ارسطو: 27
ارسطو (شرح): 91
اصحاب کہف: 11
افلاطون: 27
اقبال: 1 ,6 ,7 ,10 ,12 ,13 ,14 ,15 ,17 ,18 ,19 ,20 ,21 ,24 ,27 ,28 30 ,32 ,34 ,37 ,38 ,39 ,41 ,43 ,44 ,45 ,46 ,47 ,48 ,49 ,51 ,52 ,53 ,54 ,55 ,56 ,57 ,58 ,59 ,62 ,63 ,67 ,68 ,69 ,70 ,71 ,73 ,74 ,75 ,76 ,78 ,79 ,80 ,81 ,82 ,84 ,87 ,89 ,90 ,91 ,92 ,93 ,94 ,97 ,99 ,100 ,101 ,102 106 ,108 ,109 ,110 ,111
اللہ تعالیٰ: 6 ,9 ,11 ,23 ,24 ,27 ,44 ,60 ,65 ,66 ,67 ,68 ,69 ,71 ,72 73 ,88 ,92 ,94 ,97 ,98 ,101 ,105 ,110 ,111
امام شافعی ؒ: 56
امام مالکؒ : 75
امیر خسرو: 67
انکومن: 47
ب
برٹرینڈ رسل : 83
برگساں: 54 ,79 ,92
ج
جاحظ: 20 ,21
جبریل امین: 3
جمال الدین افغانی: 79
جمیلہ خاتون (ڈاکٹر) : 7
ح
حافظ: 32 ,93
حالی: 44 ,103
حسن دہلوی: 62
خ
خاقانی: 67
خالق کائنات: 99
خدا: 6 ,9 ,12 ,13 ,15 ,16 ,17 ,23 ,26 ,29 ,63 ,52 ,55 ,57 ,61 ,62 63 ,69 ,70 ,72 ,75 ,102
خلیفہ عبدالحکیم : 23
خلیل: 3
ر
رب : 1 ,73
رسول اللہ (صلعم) (آنحضرت) رحمت اللعالمین حضور‘ رسالت مآب: 7 ,9 ,17 ,18 33 ,66 ,67 ,68 ,88 ,92 ,99 ,104 ,105
روح القدس: 94 ,95
روم (مولانا رومی): 5 ,17 ,20 ,22 ,23 ,33 ,35 ,59 ,96 ,101
س
سرسید احمد خان: 79
سعدی: 22 ,80
ش
شاہ ولی اللہ: 63 ,79 ,86
شریف (میاں محمد): 52 ,53
ع
عیسیٰؑ (حضرت مسیح): 11 ,66
غ
غالب: 15 ,18
ف
فارابی: 15 ,26
فائل نبندی (پروفیسر): 29
فردوسی: 40
فرعون : 75
ق
قائد اعظم: 45
قدسی (عبید اللہ): 7 ,52 ,66 ,75
ک
کلیم (حضرت موسیٰؑ ) : 3 ,17 ,75
گ
گوئٹے: 47
م
مارکس (کارل): 2 ,80
مریم(حضرت): 65 ,66
ن
نطشے: 79
ہ
ہارون(حضرت): 17
ہیگل نے: 2
ی
یزداں: 6 ,40 ,102
یوسف (حضرت): 17 ,107
٭٭٭
کتب اور رسائل
الف ممدودہ
آئین مسلم: 105
آئین ملت قرآن: 106
آیت: 15 ,62 ,72
الف مقصورہ
اسرار خودی: 52 ,56
اسرار و رموز: 17 ,104 ,107
اقبال (لاہور) : 52 ,53 ,54
اقبال ریویو (جولائی ۱۹۷۰ئ): 37
ب
بانگ درا: 38
بال جبریل: 10(ح)
بالیبل: 11
برہان قاطع: 11 ,40
پ
پس چہ باید کرد: 99 ,100(ح)
ت
تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ: 9 ,10 ,12 ,13 ,14 ,18 ,21 ,34 ,40 ,46 ,57 58 ,59 ,61 ,62 ,63 ,65 ,68 ,69 ,79 ,82 ,83 ,84 ,91 ,92 ,93
ج
جاوید نامہ: 9 ,59 ,73 ,74 ,97 ,102 ,104 ,107 ,108 ,109 ,110 ,111
ح
حسی بن یقطان: 16
ز
زمان (مضمون) : 52 ,53
س
سائنٹفک سوسائٹی: 83
ق
قرآن: 9 ,11 ,12 ,15 ,16 ,21 ,26 ,26 ,27 ,29 ,31 ,35 ,37 ,39 ,44 52 ,57 ,58 ,59 ,60 ,63 ,64 ,65 ,66 ,72 ,73 ,74 ,75 ,77 ,84 ,93 ,98 101 ,104 ,109 ,110
ک
کشاف اصطلاحات الفنون: 66(ح)
کینے خیبر (خطہ یہود): 97
ل
لغات القرآن: 67
لغت نامہ دہ خدا: 40
م
مثنوی: 15
٭٭٭
مقامات اور ادارے
الف مقصورہ
اٹلی: 29
ادارہ ثقافت اسلامیہ: 52(ح)
اسرائیلی سلطنت: 41
اسلام آباد: 66
اقوام متحدہ : 97
امریکہ: 48 ,50
ایشیاء : 6 ,71
ب
بخارا: 3
بدخشاں: 3
برطانیہ: 48
برصغیر: 90 ,109
بزم اقبال: 82
بیت الحرام: 106
پ
پاکستان: 46 ,47 ,49
ت
تہران: 67
ج
جنت (بہشت): 21 ,58 ,59 ,60
جہنم (دوزخ): 58 ,60 ,78
د
دہلی: 67
ر
روس: 48 ,50
ط
طور: 44
ع
عرب: 51 ,52
ف
فلسطین: 41
ک
کلکتہ: 66
کمیونسٹ ملک: 97
گ
گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کراچی: 7
ل
لاہور: 45 ,52 ,75 ,82
م
مسجد نبوی: 75
مسلمان ملک: 98
مشرقی بنگال: 29
مشرق وسطیٰ: 42
مغربی ممالک: 77
ن
نیل: 2
ہ
ہندوستان: 38 ,43 ,45
ہیروشیما: 83
ی
یورپ : 21 ,48
یونان: 27
یونیورسٹی: 43
٭٭٭
مصطلحات
الف ممدودہ
آدمی: 9 ,10 ,12 ,15 ,22 ,23 ,57 ,92 ,110
الف مقصورہ
ادراک: 13 ,24 ,67 ,83 ,94
ادراک بالحواس: 25 ,27
ادراک (قوت): 18
اسلام: 5 ,7 ,9 ,10 ,14 ,26 ,40 ,47 ,51 ,68 ,81 ,90 ,91 ,92
اسلامی ثقافت: 49
انسان (بنی نوع): 40 ,69
انسان کا ارتقائ: 5 ,20 ,21 ,42
انسانیت: 2 ,40 ,43 ,44 ,77 ,96 ,97 ,108
انسانی خودی: 56
انسانی عقل: 95
انسانی علم و ادراک: 27 ,42
انسانی فکر: 39 ,51
انسانی معاشرہ: 35
انسانی نشوونما: 58
اشرف المخلوقات: 9 ,26
انائے مطلق: 56
امت: 81
امت مسلمہ: 100
ایٹم بم: 94
پ
پاکستانی ثقافت: 45
ت
تاریخ : 5 ,70 ,77 ,78
تاریخ اقوام: 111
تاریخ حریت: 43
تاریخ (علم): 77
تاریخ عالم: 41 ,70 ,78
تخلیق: 3 ,6 ,14 ,44 ,49
تخلیقی صفات: 46
تخلیقی عمل: 47
تخلیقی قوت(صلاحیت): 42 ,45 ,46 ,69
تصوف: 84
تمدن: 5 ,27 ,40 ,83
تہذیب نو: 2
تہذیب و تمدن: 21 ,27
ث
ثقافت: 45
ثقافتی اساس: 145
ثقافتی حالت: 70
ثقافتی : 45
ثقافتی منزل: 45
ثقافتی نشوونما: 45
ج
جمادات: 20
ح
حقیقت مطلق: 56 ,60
حقیقت مطلقہ: 61
خ
خاکی: 84 ,103
خودی: 1 ,2 ,52 ,54 ,55 ,56 ,58 ,59 ,64 ,70 ,94
د
دعا: 18 ,84
دعا کافلسفہ: 82
دل (قلب): 5 ,6 ,23 ,24 ,63 ,105
دین: 98
دین اسلام: 6 ,110
ذ
ذات مطلق: 61
ر
روایت : 21
روح: 1 ,63 ,61 ,69 ,73 ,83 ,85 ,87 ,96
روح (انسانی): 65
روحانیت: 95
ریاضیات: 35
ز
زمان: 12 ,35 ,53 ,54 ,55 ,56
لا زماں: 103
لازما نی: 39
زمان خداوندی: 68
زمان و مکاں: 35 ,46 ,94 ,101 ,103
س
سائنس: 13 ,20 ,26 ,42 ,47 ,60 ,64 ,83 ,98
سائنسدان: 32
سائنسی دنیا: 65 ,95
سائنسی و تاریخی دنیا: 85
سائنسی ترقی: 96
سائنسی مشاہدہ: 83
سماجی خودی: 56
سماجی ترقی: 47 ,50
سماجی نشوونما: 44
سوسائٹی: 16 ,28
ش
شاہین: 1
شعور: 23
شعور انسانی: 63 ,85
شعور توحید: 85
شعور ذات: 14 ,21 ,22 ,71
ص
صوفی: 6 ,83 ,86
صوفیہ: 20 ,35 ,62 ,66 ,76
ط
طبیعیات: 31 ,35 ,62
ع
عارف: 32
عبودیت: 31
عرفان خودی: 104
عشق: 12 ,19 ,22 ,32 ,59 ,70 ,71 ,72 ,76 ,82 ,85 ,86 ,89 ,93 ,94 95 ,103 ,106
عشق الٰہی: 15
عشق: 13 ,18 ,72 ,77 ,91 ,101
عقل : 23 ,24 ,76 ,77 ,90 ,93 ,98
عقل انساں: 91
عقل انسانی: 46
عقل سلیم: 77
عقلی علوم: 26
علائق فطرت: 39
علم الحیات: 20
علم فطرت: 23
ف
فطرت: 5 ,6 ,12 ,16 ,27 ,39 ,47 ,59 ,82
فلسفہ: 14 ,15 ,16 ,42 ,64 ,84 ,87 ,90 ,92
فلسفہ اسلام: 20 ,64 ,87
فلسفی: 6 ,32
فنون لطیفہ: 42
ق
قلب مومن: 94
ل
لادینیت: 78
م
مادہ پرستی: 85
مادیت: 78 ,86 ,94
مایا: 90
مبصر خودی: 56
محبوب فطرت: 38
مرد مومن: 50
مذہب: 46 ,85 ,90
مذہب اسلام: 20 ,68 ,91
مظاہر فطرت: 3
معاشرت: 29 ,98
معاشرہ : 26 ,35 ,38 ,42 ,45 ,48 ,80
معاشی مسابقت: 36
معاشی نظام: 36
مکاں: 35 ,64 ,65
لامکاں: 103
ملت: 30 ,105 ,107
مناجات: 7 ,9 ,14 ,17 ,73 ,81 ,100 ,106 ,107 ,111
مومن: 2 ,6 ,23 ,109
ن
نباتات: 20
نبوت: 14 ,16 ,58 ,105
نفسیاتی امر: 84
نفسیاتی حقیقت: 83
نفسیاتی مظہر: 18
نور مطلق: 62 ,63
و
وجدان: 2 ,90 ,92
وجدان فکر: 92
وطن: 61
وطنیت: 3
ہ
ہائیڈروجن بم: 94
٭٭٭
اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End
0 comments:
Post a Comment