Tuesday, September 8, 2015

اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے

بند اوّل
ہم سخن ہونے کو ہے معمار سے تعمیر آج
آئینے کو ہے سکندر سے سرِ تقریر آج
نقش نے نقّاش کو اپنا مخاطب کر لیا
شوخیٔ تحریر سے گویا ہوئی تصویر آج
سن کے کیا کہتی ہے دیکھیں بادِ عنبر بارِ صبح
لب کشا ہونے کو ہے اک غنچۂ دلگیر آج
دیکھئے گُل کس طرح کہتا ہے احوالِ خزاں
مانگ کر لایا ہے بلبل سے لبِ تقریر آج
عشق ہر صورت سے ہے آمادئہ تزئینِ حسن
ہے پرِ پروانہ سے کارِ لبِ گل گیر آج
گرمیٔ فریاد کی آتش گدازی دیکھنا
شمع کے اشکوں میں ہے لپٹی ہوئی تنویر آج
آہ میں یارب وہ کیا انداز معشوقانہ تھا
جوشِ لذّت میں فدا ہو ہو گئی تاثیر آج
عقدے کھل جانے کو ہیں مثلِ دہانِ روزہ دار
ہے ہلالِ عید اپنا ناخنِ تدبیر آج
دیکھیے اس سحر کا ہوتا ہے کس کس پر اثر
ہے دخانِ شمعِ محفل سرمۂ تسخیر آج
زینت محفل ہیں فرہادانِ شیرینِ عطا
اس محل میں ہے رواں ہونے کو جوئے شیر آج
صبر را از منزلِ دل پابجولاں کردہ ام
گیسوئے مقصود را آخر پریشاں کردہ ام


بند دوم
آج ہم حالِ دلِ درد آشنا کہنے کو ہیں
اس بھری محفل میں اپنا ماجرا کہنے کو ہیں
ہر نفس پیچیدہ ہے مانند دُورِ شمعِ طور
داستانِ دلکشِ مہر و وفا کہنے کو ہیں
دیکھیے محفل میں تڑپاتا ہے کس کس کو یہ شور
مرثیہ اپنے دلِ گم گشتہ کا کہنے کو ہیں
بوئے گل لپٹی ہوئی ہو غنچۂ منقار میں
ورنہ مرغانِ چمن ، رنگیں نوا کہنے کو ہیں
تجھ کو اے شوقِ جراحت دیں تسلّی کس طرح
آہ ! یہ تیرِ نظر بھی بے خطا کہنے کو ہیں
قصۂ مطلب طویل و دفترِ تقریر تنگ
خود بخود کوئی سمجھ جائے کہ کیا کہنے کو ہیں
محفلِ عشرت میں ہے کیا جانے کس کا انتظار
آج ہر آہٹ کو ہم آوازِ پا کہنے کو ہیں
ہے سوئے منزل رواں ہونے کو اپنا کارواں
ہم صریرِ خامہ کو بانگِ درا کہنے کو ہیں

ہے گہر باری پہ مائل تو جو اے دستِ کرم
ہم تجھے ابرِ سخا ، بحرِ عطا کہنے کو ہیں
خود بخود منہ سے نکل جانا بھی اچھا ہے مگر
دم تو لے آخر ، تجھے اے مدّعا! کہنے کو ہیں
باز اعجازِ مسیحا را ہویدا کردہ ام
پیکرے را بازبانِ خامہ گویا کردہ ام
بند سوم
ابر بن کر تم جو اس گلشن پہ گوہر بار ہو
بخت سبزے کا مثال دیدئہ بیدار ہو
میں صدف ، تم ابرِ نیساں ، میں گلستاں ، تم بہار
مزرعِ نوخیز میں ، تم ابر دریا بار ہو
میں نتیجہ اک حدیثِ امیِؐ یثرب کا ہوں
تم اسی امیؐ کی امّت کے علمبردار ہو
اک مہِ نو آسمان علم و حکمت پر ہوں میں
تم بھی اک فوجِ ہلالی کے سپہ سالار ہو
نام لیوا اک دیارِ علم و حکمت کا ہوں میں
اور تم اگلے زمانوں کے وہی انصار ہو
یاں کبھی بادِ خزاں کا رنگ جم سکتا نہیں
میں مسلمانوں کا گلشن ، تم مری دیوار ہو
تم اگر چاہو تو اس گلشن کے ایسے بھاگ ہوں
ہر کلی گل ہو کے اس کی زینتِ دستار ہو
رہنے والے انتخابِ ہفت کشور کے ہو تم
کیوں نہ اس گلشن کی نکہت روکشِ تاتار ہو
میری دیواروں کو چھو جائے جو اکسیرِ عطا
خاک بھی میری مثالِ گوہرِ شہوار ہو
دیکھ اے ذوقِ خریداری! یہ موقع ہے کہیں
حسنِ یوسف سے نہ خالی مصر کا بازار ہو
یوسف علم استم و پنجاب کنعان منِ است
از دمیدِ صبحِ حکمت چاکِ دامانِ من است
بند چہارم
مجھ میں وہ جادو ہے روتوں کو ہنسا سکتا ہوں میں
قوم کے بگڑے ہوئوں کو پھر بنا سکتا ہوں میں
عید ہوں میں اے نگاہِ چشمِ نظّارہ تری
شاھدِ مقصود کا پردہ اٹھا سکتا ہوں میں
طیرِ حکمت باغِ دنیا میں ہوں اے صیّاد ! میں
دام تو سونے کا بنوا لے تو آ سکتا ہوں میں
طوسیؔ و رازیؔ و سیناؔ و غزالیؔ و ظہیرؔ
آہ وہ دل کش مرقع پھر دکھا سکتا ہوں میں
آئیں اڑ اڑ کر پتنگے مصر و روم و شام سے
شمع اک پنجاب میں ایسی جلا سکتا ہوں میں
آزما کر تم ذرا دیکھو مرے اعجاز کو
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ دکھا سکتا ہوں میں
گوش بر آواز تھا مغرب کبھی جس کے لیے
وہ صدا پھر اس زمانے کو سنا سکتا ہوں میں
ناز تھا جس پر کبھی غرناطہ و بغداد کو
پھر وہی محفل زمانے کو دکھا سکتا ہوں میں
گھر کسی کا جن کی ضو سے غیرتِ مشرق بنے
اس انوکھی شان کے موتی لٹا سکتا ہوں میں
کارواں سمجھے اگر خضرِ رہِ ہمّت مجھے
منزلِ مقصود کا رستا دکھا سکتا ہوں میں
از خُمِ حکمت بروں کردم شرابِ ناب را
ہاں ، مبارک سرزمینِ خطۂ پنجاب را
بند پنجم
بن گیا ہے دستِ سائل دامنِ گلزار کیا
باغ پر چھایا ہوا ہے ابرِ گوھر بار کیا
کچھ ہوا ایسی چلے یا رب کہ گلشن خیز ہو
خار کیا ، گل کی کلی کیا ، غنچۂ منقار کیا
حسن خود منّتِ کشِ چشمِ تماشائی ہوا
اب نہیں دنیا میں باقی طالبِ دیدار کیا
اک جہاں آیا ہے گل گشتِ چمن کے واسطے
باغباں باہر نہ پھینکے گا چمن کے خار کیا
زندگی اپنی زمانے میں تمہارے دم سے ہے
ہے خطِ دستِ کرم میرے نفس کا تار کیا
ہاں جسے چھونا ہو دامانِ ثریّا کو کبھی
ایک دو اینٹوں سے اٹھ سکتی ہے وہ دیوار کیا
تیغ کے بھی دن کبھی تھے اب قلم کا دور ہے
بن گئی کشور کشا یہ کاٹھ کی تلوار کیا
خوبیِ قسمت سے پہنچا علم کا یوسف یہاں
ورنہ کیا پنجاب اور پنجاب کا بازار کیا
مجھ سے وابستہ نہیں کیا آبرو پنجاب کی
تیر کی صورت نہیں ہیں طعنۂ اغیار کیا
آرزوئے دل کو بھی کہنا کوئی دشوار ہے
کام خاموشی سے تجھ کو اے لبِ اظہار کیا
گوش را جویائے آوازِ غریباں کردئہ
شانہ را مائل بہ گیسوئے پریشاں کردئہ
بند ششم
کیوں نہ دیوانے ہوں لب سوزِ نہاں کے واسطے
ڈھونڈ کر محفل نکالی داستاں کے واسطے
اس بھری محفل میں اپنا رازِ دل کہتا ہوں میں
باغ ہی زیبا ہے بلبل کی فغاں کے واسطے
طعنہ زن ہے ضبط اور لذّت بڑی افشا میں ہے
ہے کوئی مشکل سی مشکل رازداں کے واسطے
جس نے پایا اپنی محنت سے زمانے میں فروغ
ہے وہی اختر جبینِ کہکشاں کے واسطے
باغباں کا ڈر کہیں ، خطرہ کہیں صیّاد کا
مشکلیں ہوتی ہیں سو ، اک آشیاں کے واسطے
خضر ہمّت کا رفیقِ راہِ منزل ہو اگر
گلستاں تیرے لیے تو گلستاں کے واسطے
زندگی وہ چاہیے دنیا کی زینت جس سے ہو
شمعِ روشن بن کے رہ بزمِ جہاں کے واسطے
تشنہ لب کے پاس جاتا ہے کبھی اٹھ کرکنواں؟
رخت کب منزل نے باندھا کارواں کے واسطے
گلشنِ عالم میں وہ دل کش نظارہ ڈھونڈنا
آنکھ کو فرصت نہ ہو خوابِ گراں کے واسطے
یہ تو پوشیدہ ہے بے آرامیِ محنت میں کچھ
جا رہا ہے تو کہاں آرامِ جاں کے واسطے
روشن از نورِ مہِ حکمت شبستانِ من است
کآں دُرِ گم گشتۂ مومن بدامانِ من است
بند ہفتم
ہاں رگِ ہمت کو اپنی جوش میں لائے کوئی
عشقِ اخواں کا اثر دنیا کو دکھلائے کوئی
جوشِ ہمدردی میں پنہاں دولتِ ایماں ہے بس
نقشۂ خیر القروں آنکھوں کو دکھلائے کوئی
ہے پریشاں بادِ ناکامی سے گیسوئے مراد
شانۂ دستِ عطا سے اس کو سلجھائے کوئی
بہر استقبال استادہ ہے ہر گل کی کلی
اس چمن میں صورتِ بادِ صبا آئے کوئی
یہ گل و گلزار صدقہ امّیِ یثربؐ کا ہے
دیکھنا اے باغباں غنچہ نہ مرجھائے کوئی
مدّعا کو یہ سکھایا شورشِ فریاد نے
خود بخود میری طرح منہ سے نکل آئے کوئی
کہہ گئی ذوقِ کرم کو شوخی حسنِ طلب
ہاتھ سے عاشق کا دل بن کر نکل جائے کوئی
اک چھٹا دریا رواں ہونے کو ہے پنجاب میں
ابر کی صورت اٹھے ، اٹھ کر برس جائے کوئی
تاک میں بیٹھی ہوئی ہے شوخیِ دستِ طلب
دیکھیے اس بزم سے بچ کر کہاں جائے کوئی
فکرِ دیں کے ساتھ رکھنا فکرِ دنیا بھی ضرور
ہیں بہت دشمن کہیں دھوکا نہ دے جائے کوئی
خویش را مسلم ہمی گویند و با ماکار نیست
رشتۂ تسبیحِ شاں جز رشتۂ زُنّار نیست
بند ہشتم
علم کا محبوب رونق بخشِ کاشانہ تو ہو
انجمن اپنی مثالِ بزمِ جانانہ تو ہو
پھر سماں بندھ جائے گا غرناطہ و بغداد کا
پھر ذرا بھولا ہوا تازہ وہ افسانہ تو ہو
بزم میں شوقِ میٔ حکمت ہوا پیدا مگر
میَ بھی بٹ جائے گی پہلے فکرِ پیمانہ تو ہو
یہ نظامیّہ سلامت ہے تو پھر سعدیؔ بہت
پر ذرا ویسا منوّر اپنا کاشانہ تو ہو
یادگارِ فاتحانِ ہند و اندلس ہو تمھیں
شان شاہانہ نہ ہو میری، امیرانہ تو ہو
پائمالی ہے جہاں میں ترکِ حکمت کی سزا
اس چمن سے مثلِ سبزہ کوئی بیگانہ تو ہو
وہ غنی ہے علم کی دولت بھی کرتا ہے عطا
ہاں مگر پہلے رَوِش تیری گدایانہ تو ہو
آنکھ کو بیدار کر دیتی ہے یہ دیوانگی
کوئی اس حسنِ جہاں آرا کا دیوانہ تو ہو
رام کر لینا زمانے کا ترے ہاتھوں میں ہے
زندگی تیری جہاں میں دلربایانہ تو ہو
جل کے مرجانا چراغِ علم پر مشکل نہیں
پہلے تیرے دل میں پیدا نور پروانہ تو ہو
اے کہ حرف اطلَبِوا لَوکَانَ بِالسّین گفتہ ای
گوہرِ حکمت بہ تارِ جانِ امّت سفتہ ای
بند نہم
اے کہ بر دلھا رموزِ عشق آساں کردئہ ای
سینہ ہا را از تجلّی یوسفستاں کردہ ای
اے کہ صد طور است پیدا از نشانِ پائے تو
خاکِ یثرب را تجلّی گاہِ عرفاں کردہ ای
اے کہ ذاتِ تو نہاں در پردئہ عینِ عرب
روے خود را در نقابِ میم پنہاں کردہ ای
اے کہ بعد از تو نبوّت شد بہ ہر مفہوم شرک
بزم را روشن ز نورِ شمعِ ایماں کردہ ای
اے کہ ہم نامِ خدا ، بابِ دیارِ علم تو
اُمّیے بودی و حکمت را نمایاں کردہ ای
آتشِ الفت بہ دامانِ ربوبیت زدی
عالمے را صورتِ آئینہ حیراں کردہ ای
فیضِ تو دشتِ عرب را مطمحِ انظار ساخت
خاکِ ایں ویرانہ را گلشن بداماں کردہ ای
دل نہ نالد در فراقِ ماسوائے نورِ تو
خشک چوبے را ز ہجر خویش گریاں کردہ ای
گل فرستادن بہ بحرِ بے کراں می زیبدش
قطرئہ بے مایہ را ہم دستِ طوفاں کردہ ای
بے عمل را لطف تو لا ’تَقنَطُوا‘ آموز گشت
بسکہ وا بر ہر کسے بابِ دبستاں کردئہ ای
ہاں دعا کن بہرِ ما ، اے مایۂ ایمانِ ما
پرُ شود از گوہرِ حکمت سرِ دامانِ ما
 
۱ -     سرود رفتہ ص ۳۰

0 comments:

Post a Comment