اقبال کے کلام میں قرآنی فکر
ڈاکٹر ریاض توحیدی
اردو زبان کے ایک ممتاز شاعر، بزرگ ادیب اور صحافی جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنی ایک نظم بعنوان ’’نذرِ اقبال‘‘ میں علامہ اقبال سے متعلق کیا خوب کہا ہے ع
پڑھتا ہوں جب اس کو تو ثنا کرتا ہوں رب کی
کلام اقبال کی کلیات اور جزئیات کا احاطہ کرنے کے دوران یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ علامہ اقبال کی عظیم المرتبت شخصیت کو پروان چڑھانے میں بہت سارے عوامل کا عمل دخل رہا ہے۔ مشرقی تخیلات، مغربی فلسفہ اور اسلامی نظریات اور افکار کا درک، ان کی شخصیت میں نمایاں طور پر عیاں ہے، یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے معروف اقبال شناس ڈاکٹر سید عبد اللہ کے الفاظ میں ’’کئی علوم کی ضرورت ہے، مشرق و مغرب کے عام علوم کے ساتھ اسلامی علوم بھی سیکھے جائیں تو بات بنتی ہے، محض جدید تعلیم صحیح اقبال شناسی پیدا نہیں کرسکتی‘‘۔
سید عبد اللہ صاحب کی مذکورہ رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جس طرح صرف جدید علوم کے حامل افراد کلام اقبال کو پورے طور پر سمجھ نہیں پائیں گے، اسی طرح صرف مذہبی علوم سے وابستہ افراد بھی کلام اقبال کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، وجہ یہ ہے کہ کلام اقبال کو مکمل طور پر سمجھنے اور برتنے کے لئے مذہبی علوم اور علوم جدیدہ کی آگاہی لازم ہے۔
قرآن حکیم سے متعلق علامہ اقبال کے افکار، تصورات اور تخیلات پر بحث ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہے اور الگ الگ بھی کیونکہ یہ ایک وسیع البیان موضوع ہے۔ علامہ اقبال کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ اپنے والد ماجد شیخ نور محمد کی مومنانہ اور متصوفانہ صفات اور اپنے استاذ مکرم مولانا میر حسن کی اسلامی اور اخلاقی تعلیم کے اثرات ابتدا سے ہی علامہ کے ذہن پر مرتسم ہوتے گئے۔ اس تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال اپنے والد ماجد کی اس نصیحت کو عمر بھر نہیں بھولے جو بچپن میں انہوں نے قرآن حکیم کو سمجھنے کے لئے اقبال کو کی تھی کہ ’’بیٹھے ! تم قرآن کی تلاوت اس طرح سے کرو جیسے یہ اس وقت تم پر نازل ہو رہا ہے ‘‘ جیسا کہ حکیم الامت علامہ اقبال کے درجہ ذیل شعر سے بھی ظاہر ہے
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
علامہ اقبال کے شعری کلام اور نثری نگارشات میں جا بجا قرآنی روح جلوہ گر ہے۔ علامہ اقبال نے اگرچہ شرق و غرب کے بہت سارے فکری سرچشموں سے اکتساب فیض کیا تھا تاہم قبولیت (Acceptance) اور عدم قبولیت (Non- acceptance) کا معیار قرآن و سنت ہی رہا اور قرآن کریم کو وہ واحد معیار حق تسلیم کرتے ہوئے زندگی کے تمام مسائل کا حل اسی کتاب مقدس میں ڈھونڈتے تھے۔ کثیر العلوم پر نگاہ ہونے کے باوجود اقبال حیات انسانی کے تمام مسائل پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کرتے تھے۔ ’’اسرار خودی‘‘ میں علامہ موصوف واضح لفظوں فرماتے ہیں کہ میں نے جو کچھ سمجھا ہے اپنی بصیرت کے مطابق قرآن ہی سے سمجھا ہے۔ علامہ کے کلام میں اکثر اس کی صراحت ملتی ہے
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لایزال است و قدیم
حکمت او لایزال است و قدیم
کتاب مبین سے علامہ اقبال کا رابطہ ظاہری نہیں بلکہ باطنی (intrinsic) تھا۔ اپنے مشہور زمانہ خطبات "The Reconstruction of Religious Thought in Islam" کی شروعات قرآن مجید کے تعلق سے ہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"The Quran is a book which empahsizes 'deed' rather than 'idea"
یعنی قرآن پاک کا رجحان زیادہ تر اس طرف ہے کہ ’فکر‘ کے بجائے ’’عمل‘‘ پر زور دیا جائے۔ علامہ کے نزدیک ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ قرآن میں غوطہ زن ہو کر اپنے کردا رمیں جدت پیدا کرے چنانچہ فرماتے ہیں
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
علامہ اقبال قرآنی ہدایات کے تناظر میں مسلمان کو قرآنی احکامات پر عمل کرنے اور قرآن مجید میں تدبر کرنے کی تلقین پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے خطبات (جو کہ فکری سطح پر مطالعہ قرآن ہی کی کوشش کا مظہر ہے )میں لکھتے ہیں :
"The main purpose of the Quran is to awaken in man the higher consciousness of his manifold relations with God and Universe"
ترجمہ: قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں ‘‘
علامہ اقبال چاہتے ہیں کہ قرآن میں گہرے غور و فکر کے بعد انسان کے اندر خدا سے قلبی ربط کا اعلیٰ شعور بیدار ہو جائے اور قرآن کے بغیر یہ شعور پانا ناممکن ہے۔
گرتومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جُز بہ قرآں زیستن
نیست ممکن جُز بہ قرآں زیستن
علامہ اقبال کی شخصیت کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں (قرآن کے حوالے سے ) عالم اسلام کے ممتاز عالم دین مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اپنی کتاب ’’نقوش اقبال‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھر میں موجود ہے مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم، اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں، میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثرانداز ہوئی ہے اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے ....ان (اقبال) کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن مجید سے شغف، تعلق اور شعور و احساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت زیادہ ہے۔ اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت مختلف رہا ہے ‘‘۔
کتاب مذکور میں مولانا موصوف ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گزاری۔ قرآن مجید پڑھتے، قرآن سوچتے، قرآن بولتے ‘‘۔
علامہ اقبال جب امت مسلمہ کی زوال پذیری کا مفکرانہ نقطہ نگاہ سے تجزیہ کرتے ہیں تو موصوف اس زوال پذیری کا سبب امت مسلمہ کا قرآنی احکامات سے رو گردان ہونا قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے کردار کا موازنہ عصر عہد کے مسلمانوں کے کردار سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ لوگ قرآنی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے سبب معزز اور با اختیار تھے جبکہ آج کے مسلمان ذہنی شعور کی ناپختگی، غیرت اسلامی کے فقدان اور قرآنی ہدایات سے لاپرواہی برتنے کے سبب ہر منزل اور ہر موڑ پر ناکامی اور ذلت کے دلدل میں دھنستے ہی جا رہے ہیں
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اسی قرآن میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مرد پرویں کا امیر
جس نے مومن کو بنایا مرد پرویں کا امیر
علامہ اقبال کے شعری اور نثری افکار سے عیاں ہے کہ انہوں نے اپنی فکری و فنی صلاحیتوں کو اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ان کا طرزِ استدلال طرز قرآن تھا۔ معروف فلسفی اور اقبال شناس ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، علامہ اقبال کے حکیمانہ افکار اور ان کے آفاقی پیغام میں قرآنی روح کا اعتراف کرتے ہوئے ’’فکر اقبال‘‘ نامی کتاب میں لکھتے ہیں :
’’میرے نزدیک علامہ اقبال کے عارفانہ اور عاشقانہ کلام کا ہر شعر عبادت میں داخل ہے۔ اس سے زیادہ خدمت خلق اور کیا ہو سکتی ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ اس کلام سے بلند ترین افکار اور تاثرات حاصل کرتے رہیں گے ‘‘۔
0 comments:
Post a Comment