Thursday, December 19, 2013

علامہ محمد اقبالؒ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی نظر میں

قائد اعظم نے یوم اقبال (2مارچ1941ءپنجاب یونیورسٹی لاہور) کی تقریب میں فرمایا ”اقبال دور حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ اس امر پر مجھے فخر ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا“۔ جبکہ حضرت علامہ اقبال نے 1937ءمیں پنڈت نہرو سے ملاقات کے دوران کہا کہ ”میں قائد اعظم کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں“۔ قائد اعظم نے گول میز کانفرنسز سے ترک سیاست کا فیصلہ کیا اور لندن میں سکونت اختیار کر لی مگر علامہ اقبال کا پُرزور اصرار تھا کہ ”فقط آپ ہی ہیں جو ہندی مسلمانوں کی قیادت کے اہل ہیں اور مسلمانوں کو آزادی کی منزل عافیت تک پہنچا سکتے ہیں“۔ قائد اعظم نے حضرت علامہ کی وفات پر ارشاد فرمایا کہ ”اقبال میرے راہنما، دوست اور فیلسوف تھے اور تاریک ترین لمحوں میں، جن میں سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا، وہ چٹان کی طرح قائم رہے“۔ قائد اعظم نے مسلم لیگ کے اجلاس بمقام پٹنہ 26دسمبر1938ءصدارتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعراءمیں ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا۔ ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری ہمارے لئے اور ہماری آئندہ نسلوں کیلئے مشعل راہ کا کام دے گی“۔ قائد اعظم نے ”مکا تیب اقبال بنام قائد اعظم“ کے دیباچے (1943ئ) میں برملا اعتراف کیا کہ ”اعظم میں ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا اصول علامہ اقبال نے مجھ سے منوا لیا تھا، مجھ کو قائل کر لیا تھا کہ وہ مملکت شمالی مغربی اور مشرقی مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ہو گی اور انہی کے اصول قرارداد لاہور (بعد از ا قرارداد پاکستان) میں تھے۔ (بحوالہ قرطاس اقبال از پروفیسر محمد منور:ص63) قرار داد پاکستان 23مارچ1940ءکے اجلاس کے اختتام پر قائد اعظم نے منٹو (حالیہ اقبال) پارک سے قبر اقبال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے“۔
قائد اعظم نے یوم اقبال 1944ءکی تقریب میں فرمایا کہ ”اقبال پیغمبر اسلام کے سچے اور مخلص پیروکار تھے۔ وہ اوّل و آخر مسلمان تھے اور اسلام کے صحیح مفسر....علامہ اقبال ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے پہل ایک اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا تھا، ایک ایسی مملکت جو کہ ہندوستان کے شمالی مغربی اور جنوبی مشرقی خطوں پر مشتمل ہو گی جو کہ تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کا وطن سمجھے جاتے ہیں“۔ قائد اعظم کے مندرجہ بالا بیان سے واضح ہے کہ علامہ اقبال اور خود قائد اعظم مشرقی اور مغربی خطوں پر مشتمل متحدہ پاکستان چاہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی دونوں قائدین کے خواب اور جدوجہد کے برعکس ہے۔ ہندوستان میں اسلامی ریاست کے قیام اور کلام اقبال کی اہمیت کے بارے میں قائد اعظم نے یوم اقبال 1940ءکی دوسری نشست کی صدارت کرتے ہوئے کہا ”گو میرے پاس سلطنت نہیں لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا“۔ اقبال، قائداعظم اور متحدہ پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ آج بھی کلام اقبال پاک ہند بلکہ عالم اسلام کیلئے راہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ ہندوستان کی مظلوم اچھوت اقوام کے موجودہ لیڈر وی ٹی راج شیکھر دلت وائس (2009) Dalit Voice میں لکھتے ہیں کہ اچھوت اقوام کی روح آزادی کو بیدار کرنے کیلئے کلام اقبال کی ضرورت ہے جبکہ بھارتی ریاست مدھیا پردیش (MD) کی اسمبلی میں ممبر گریجا شنکھر نے قرار داد پیش کی کہ اقبال کے نام پر علمی و ادبی حلقوں کو بند کیا جائے وگرنہ بھارت مزید خود مختار ریاستوں میں بٹ جائے گا۔ کلام اقبال روح حرمت کا پیغمبر ہے جس کی اہمیت قائداعظم، ایران اور بھارت کی اچھوت اقوام بھی محسوس کر رہے ہیں۔

0 comments:

Post a Comment