Thursday, December 12, 2013

''اقبال ہر عہد کا شاعر''

''اقبال ہر عہد کا شاعر''
صفدر ھمٰدانی ۔لندن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سامعین محترم السلام علیکم
نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و گداز
نہ میرا فکر ہے پیمانہئ ثواب و عذاب
خُدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے
فقیہِ شہر کہ ہے محرمِ حدیث وکتاب

میں سب سے پہلے ممنونِ احسان ہوں اقبال اکیڈمی سکینڈے نیوین کے روحِ رواں جناب سید غلام صابر اور عزیزم عابد علی عابد اور انکی تنظیم کے تمام ارکان کاکہ انہوں نے مجھ جیسے ایک مبتدی کو شاعری اور فلسفے کے ایک اعلیٰ مقام امام علامہ محمداقبال کے یومِ وفات کی اس تقریب میں مدعو کیا اور اپنے خیالات آپ جیسے خوبصورت سماعتوں کے لوگوں تک پہنچانے کا موقع عطا کیا۔


میں خود بھی آپ سب کی طرح اقبال کی شاعری کا ایک مدح خوان ،قاری اور طالب علم ہوں اور زندگی کی تنگ گھاٹیوں میں کبھی کبھی جب سفر کی صعوبتیں ہمت کو توڑنے لگتی ہیں اسی اقبال کے اشعار کے جام سے خود کو بارِ دگر توانائی دیتا ہوں۔


مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں
اگر چہ میں نہ سپاہی ہوں نہ امیرِ جنود
جبینِ بندئہ حق میں نمود ہے جس کی
اسی جلال سے لبریز ہے ضمیرِ وجود
میں نہ کوئی ماہرِ اقبال ہوں اور نہ ہی کوئی ایسا دانشور جو فی زمانہ آج کی اصطلاحِ دانشوری پر پورا اترتا ہو۔ہاں اگر کسی اعزاز پر نازاں ہوں تو وہ اقبال کے ذہنی اور روحانی پیشوا مولائے کائنات،باب العلم،غالب کُلِ غالب امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے در کی گدائی ،انکی اور انکی اہلبیت کی مدح سرائی اور مرثیہ نگاری ہے جس نے مجھ جسے کوتاہ قد کو سروِ ثمر بار کر دیا ہے اور یہ اسی در کی خیرات ہے کہ انکے عطا کردہ چند الفاظ و حروف میرا توشہ آخرت ہیں اور انہیں کا عشق ہے جوہم جیسوں کا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔
کبھی تنہائی ئ کوہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرورِ انجمن عشق
کبھی سرمایہئ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق
سامعین محترم۔یہ عجب اتفاق ہے کہ آج اکیس اپریل دریوزہ گرِ درِ باب العلم ،علامہ اقبال کا یومِ ولادت ہے لیکن انکے ایک عاشقِ صادق اور میرے والدِ مرحوم مصطفیٰ علی ھمٰدانی کی برسی ہے کہ جنہیں اقبال کے خواب کی تعبیر پاکستان کے قیام کا اعلان 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات کو لاہور ریڈیو اسٹیشن سے کرنے کا اعزاز خدائے بخشندہ نے عطا کیا۔ انہیں یہ بھی فخر رہا کہ انہوں نے کچھ عرصہ علامہ قبال کے ساتھ انکی لاہورریلوے روڈ کی قیام گا ہ میں ان ساتھ گزارا .
تفصیل اس اجمال کی والد مرحوم نے اپنی غیر مطبوعہ سوانح حیات’’ ہم سفر‘‘ میں یوں تحریر کی ہے کہ۔۔۔۔۔
’’ نومبر 1928
میں یروشلم فلسطین میں ہونے والی موتمر عالم اسلامی کی کانفرنس میں علامہ اقبال نے بھی شرکت کی جہاں عراق کے مجتہد شیخ محمد حسین کاشف الخطا نے ایک معرکۃ الآرا خطبہ دیا جو اقبال کو بے حد پسند آیا اور وہ واپسی پر اس خطبے کو اپنے ساتھ لے آئے اور مولانا سالک سے کہا کہ اسے کسی سے اردو میں ترجمہ کروا دیں۔ علامہ سالک نے علامہ اقبال کو میرے بارے میں بتایا اور یوں جس روز مجھے ریلوے روڈ علامہ کی قیام گاہ پر جانا تھا میں نے لاہور کے ڈبی بازار سے دو آنے میں ایک سفید ٹوپی خریدی کہ اُس زمانے میں ننگے سر بزرگوں کے سامنے جانا سوئے ادب تھا۔
مقررہ روز پر میں علامہ کی قیام گاہ پہنچا تو ان کا ملازم اللہ بخش باہر گیٹ پر موجود تھا۔ میں نے اسے علامہ سے ملاقات کا بتایا تو اس نے ایک بار مجھے سر تا پا دیکھا اور پھر جب اندر جا کر واپس آیا تو بولا’اندر چلا جا وہ سامنے والے کمرے ہچ بیٹھے ہوئے نیں‘ میں جب با ادب اندر گیا تو علامہ کرسی پر نیم دراز حقہ پی رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کیا تم نوجوان عربی سے اس خبطے کااردو میں ترجمہ کرؤ گے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمانے لگے ٹھیک ہے بہتر ہے کہ تم یہیں آ کر ترجمہ کیا کرؤ اور یوں اسی ترجمے کے باعث مجھے شاعرِ باکمال ولاوزال کی قربت کا موقع ملا‘‘۔
سامعینِ کرام میں نے اپنے والدِ مرحوم کا یہ واقعہ کوئی اپنا قد بلند کرنے کے لیئے نہیں سنایا بلکہ اسکا مقصد آج کے دن والدِ مرحوم کو بھی یاد کرنا تھا کہ یہ انکی برسی کا بھی دن ہے۔
علامہ اقبال ایک ایسی شش جہت نہیں بلکہ ہمہ جہت شخصیت ہیں کہ بیشتر اوقات یہ طے کرنا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے کہ ان کے کس پہلو پر بات کی جائے اور کیوں !
علامہ نے شاعری کیساتھ ساتھ فلسفے دین و امت ' سیاست ' عالمگیریت اور استعماریت کے متعلق اپنے جن ارشادات کا اظہار کیا ہے وہ آج بھی اپنے آپ میں ٹھوس وزن رکھتے ہیں اور محققین و ناقدین دونوں کی نظر میں ان کا اپنا ایک مقام ہے اور انہیں چیلنج کرنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔
علامہ اقبال نے اپنے سارے قلمی و ذہنی شعوری سفر میں جس بات پر سب سے زیادہ افسوس کا اظہار کیا ہے وہ " امت مسلمہ " کی زوال پذیری اور اس کے اسباب ہیں ۔ اقبال مسلمانوں کے زوال پر صرف ماتم کناں ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو اپنی شکست و ریخت سے سبق سیکھنے کی راہ قرار دیتے ہوئے انہیں خاص طور پر نوجوانوں کو سرمایہئ مستقبل قرار دیتے ہیں اور بالخصوص ان سے خطاب کرتے ہوئے"عالمگیرفاتح " بننے کا درس دیتے اور طریقے بھی بتاتے ہیں ۔
اقبال کے حوالے سے یہی میرا موضوع گفتگو ہے کی تقاریر کرنے کا میں عادی نہیں میں تو سیدھے پیرائے میں بات کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ " شایدکہ اتر جائے کسی دل میں میری بات "
اقبال کسی ایک عہد اور زمانے کا شاعر نہیں اور اسے شاعرِ امروز یا شاعرِ فردا جیسی اصطلاحات میں پابند نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ تو ہر زمانے اور ہر عہد کا شاعر ہے اور یہی اقبال کی انفرادیت ہے ۔
اقبال کی شاعری اور اسکے فلسفے کو آپ ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے اور یہی فکر اقبال ہے جسے دراصل فروغ دینے کی ضرورت تھی جس میں ہم سے پہلے کی نسلوں سے کوتاہی ہوئی ہے اور اگر میں یہ کڑوی بات کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ وطنِ عزیز میں ایک زمانے تک اگر اقبال کو زندہ رکھا تو وہ قوالوں نے .
آج بھی وطنِ عزیز میں ہم اقبال کو ایک جاری سفر کے طور پر نہیں بلکہ انکے یومِ پیدائش اور یومِ وفات کے حوالے سے ہی یاد کرتے ہیں اور چند سیمینار یا دیگر تقریبات سجا کر یا پھر ٹی وی ریڈیو پر کوئی مذاکرہ یا فرمودات اقبال نشر کر کے ہم شاید یہ سمجھتے ہیں کہ فکر اقبال کو عوام کے اذہان میں راسخ کر رہے ہیں۔
سچ بات تو یہ ہے کہ آج بھی عوامی سطح پر اقبال کو نہ تو پہچانا گیا ہے اور نہ ہی انہیں انکا وہ فکری ، دنشوارانہ اور فلسفیانہ مقام ملا ہے جس کے وہ حقدار تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ علامہ کے فکری اور فلسفیانہ پہلوؤں پر بیرونی دنیا میں بہت زیادہ کام ہوا ہے جسکی تفصیل کا شاید اس وقت موقع نہیں ہے۔
اس کوتاہی کی ذمیدار ہماری حکومتیں ہیں جنہوں نے خاص طور پر نئی نسل تک افکارِ اقبال اور اذکارِ اقبال پہنچانے کی نہ کبھی منصوبہ بندی کی ہے اور نہ ہی کوئی طویل المعیاد حکمت عملی اپنائی ہے۔

کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلامِ طُغرل و سنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
ابھی میں نے اقبال اور کلامِ اقبال کو زندہ رکھنے کے حوالے سے قوالوں کی بات کی تھی تو اس پرمجھے مارے بزرگ مرحوم شاعر حضرت ضمیر جعفری ٓ رہے ہیں جنہوں نے کہاتھا کہ۔۔
’’ ہم سال میں اک بار مجلسِ اقبال کرتے ہیں
 پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں ‘‘
خواتین وحضرات میںٓج یومِ ولادتِ علامہ اقبال کے موقع پر آپ کی توجہ اس جانب ضرور دلواؤں گا کہ یہاں موجود عاشقان اقبال کی ایک اکثریت شاید اس حقیقت سے آشنا نہ ہو کہ اقبال کا کونسا کلام اور کب یہاں ڈنمارک میں ڈینش زبان میں شائع ہوا ۔ میری معلومات کے مطابق اقبال کی نظم ’’ہمالہ‘‘ یہاں شائع ہونے والے قدیم ترین ادبی جریدے سنہری گندم میں 1952
میں شائع ہوئی تھی ۔ مجموعی طور پر اس وقت اقبال کی انیس مختلف نظمیں ڈینش زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوچکی ہیں ۔
 1987
میں یہاں سے شایع ہونے والے ’’عالمی شاعری ‘‘ کے مجموعے میں بھی اقبال کی دو نظمیں موجود ہیں اور یہ نظمیں انگریزی زبان سے ایک ڈینش عالم  ’’ سٹینو ‘‘ اور ان کی بھاری نژاد اہلیہ سارا سٹینو نے ترجمہ کی ہیں ۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کے شعبہ ٔ علوم شرقیہ کے پروفیسر ’’آ ٓس مُوس ‘‘ وہ پہلے اور شائد واحد ڈینش ہیں جنہوں نے اقبال کے فلسفلہ ٔ خودی پر انتہائی گرانقدر تحقیقی کام کیا ہے اور اسی تحقیق پر انہیں حکومت پاکستان سے طلائی تمغہ ملا ہے جب کہ اقبال اور رومی کے تقابلی مطالعے پر تہران یونیورسٹی نے بھی پروفیسر آس مُوس کو گولڈ میڈل عطا کیا ہے ۔
اور صاحبو کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ ڈنمارک کے ہی ایک پروفیسر ’’ آرٹھر کرسٹن سن ‘‘ کی دو کتابوں ’’ ہسٹری آف بلکان ‘‘ اور ’’ایران بعہد ساسان ‘‘ جو 1940
میں شائع ہوئیں تھیں اُن میں اسلام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اول الذکر کتاب کے صفحہ نمبر 275 اور 262 پر اسلام پر لگائے گئے الزامات کے جواب جناب ڈاکٹر محمد اقبال پروفیسر اورنٹیل کالج لاہور نے خوب ڈٹ کر دیئے تھے اور ان جوابات کو 1941 میں انجمی ترقی ٔ اردو‘ دہلی نے بطور خاص شائع کیاتھا ۔ پروفیسر موصوف کی مذکورہ دونوں کتابیں اور انجن ترقیٔ اردو دہلی کا شائع کردہ اقبال کا جواب‘ کوپن ہیگن یونیورسٹی کے شعبۂ علوم شرقیہ میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔
یہ بات فقط ڈنمارک تک ہی محدود نہیں آپ اپنے اس وطن ثانی ڈنمارک کے ہمسایہ ممالک ناروے اور سویڈن میں بھی دیکھیں تو یہاں بھی اقبال کے بارے میں قابل ذکر کام ہوا ہے اور ناروے میں اوسلویونیورسٹی کے شعبہ ٔ علوم شرقیہ میں تو اقبال پر کافی تحقیقی کا کام ہو چکا ہے اور اب بھی جاری ہے ۔ اس کام کا سہرا بھی ایک ڈینش پروفیسر فِن تھِیسن کے سر جاتا ہے ۔ جو اردو ‘ ہندی اور
سنسکرت کے علاوہ تہران یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے ہیں ۔ یہ تو فقط چند مثالیں ہیں ورنہ ہمارے اور آپ کے علامہ اقبال پر ہونے والے تحقیقی کام کا ایک بڑا ذخیرہ ڈنمارک‘ ناروے اور سویڈن میں موجود ہے ‘ شرط صرف جستجو کی ہے جو مجھ سمیت ہم سب کا فرض ہے ۔اس موضوع پر انشا اللہ پھر کسی نشست میں تفصیلی بات ہو گی ۔ صرف یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے خود بھی یہ معلومات یہاں ڈنمارک ہی سے حاصل کہ ہیں ۔
میری اپنی رائے میں’’ اقبال نے اپنی شاعری سے صورِ اسرا فیل کا کام لیا ہے۔ اقبال کی شاعری وہ بانگ درا ہے جس نے ہمارے اذہان کو توانائی دی ہے۔ یہ شاعری وہ ضربِ کلیم ہے جس نے ایک وقت میں ہماری بے حسی اور جمود کو توڑا تھا لیکن بدقسمتی کہ آج پھر یہی بے حسی اور جمود ہمارے لیئے تارِ عنکبوت بن چکا ہے۔
اقبال کی شاعری وہ اسراد خودی اور رموز بیخودی ہے جو ہمارے قوائے عمل کو شل نہیں کرتی بلکہ حرکت و بیداری عطا کرتی ہے۔ اقبال کی شاعری وہ بالِ جبرئیل ہے جس نے ہماری فکر کو قوت پرواز عطا کی ہے۔ یہ شاعری وہ ارمغانِ حجاز ہے جس کی مئے خوش رنگ ہمارے دل و جاں میں چھلکتی ہے اور اگر میں اپنے محدود علم سے تجاوز نہ کرؤں تو یہ کہنے کی جسارت کرؤں کہ اقبال کی شاعری جیسے پیغمبرانہ شان کی حامل اور کوہِ فاران کی بلندیوں سے اٹھنے والی وہ صدا ہے جو نویدِ مستبقل دے رہی ہے‘‘۔
 مگر کیا کیا جائے کہ عوام کی بڑی اکثریت کے اور ہمارے حکمرانوں کے کان سماعتوں سے جسیے عاری ہو چکے ہیں۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے
ہم نے آج تک زیادہ تر اقبال کی شاعری کو بھی عام شاعروں کے کلام کی طرح پڑھا اور شاعر کہتا ہے کہہ کر اسکی تشریح کی ہے اور شاید اسی روایتی اور سطحی توضیح و تشریح کی ہی وجہ ہے کہ آج بھی کئی کور چشمانِ جہاں علامہ اقبال کو فقط اسلامی شاعر یا مذہبی جذبات کو ورغلانے والا شاعر بتاتے ہیں۔ لیکن اگر ذرا سی بھی وسعت نظری ہو تو اقبال کے عہد کو دیکھیں کہ وہ پورا عہد مذہبی لہروں کی زد میں تھا۔ سید جمال الدین افغانی،مولانا محمد علی جوہر،رابندرناتھ ٹیگور،بال گنگا دھر تلک،قاضی نذر الاسلام،ابوالکلام آزاد اورمہاتما گاندھی۔
لیکن اقبال نے مذہب کو متحرک فورس کے طور پر استعمال کیا ہے کسی جامد یا ساکت شے کے طور پر نہیں اور یہی وہ فلسفہ ہے کہ دیگر ادیان کے مقابلے میں دینِ اسلام کو ہی یہ امتیاز ہے کہ یہ سارے جہانوں اور سارے زمانوں کا دین ہے اور یہی اس دین کی فروغ پزیری اور عالمگیریت کے ساتھ ساتھ جدت پسندی کی دلیل ہے کہ یہ دین اسلام کسی ایک عہد یا زمانے کے لیئے نہیں۔ اب کیا کریں کہ ایسے جدید دین کو ایسے فرسودہ خیالات کے حامل ماننے والے میسر آئے۔
یہی فلسفہ اقبال کی شاعری اور فکر کی روح ہے کہ انہوں نے تغیر کو حقیقت مانا ہے اور وہ عشق کے نغمہ خواں ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کی استدلالی قوت کے بھی پیروکارتھے۔بلکہ حد تو یہ ہے کہ انکے ہاں حُسن بھی کوئی جامد و ساکت شے نہیں بلکہ سراسر متحرک ہے اور اسی لیئے ضربِ کلیم،بازوئے حیدر اور فقر شبیری محض کوئی اخلاقی یا مذہبی علامتیں نہیںبلکہ زندگی کو ہر دم جواں رکھنے کی فورسز ہیں اور انہیں فورسز کو وہ ملت مسلمہ کے جوانوں میں پیدا کرنے کے خواہشمند تھے۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
٭
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح  تو رعنا غزالِ تاتاری
٭
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہِ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
سامعینِ محترم ۔
ٓآگے بڑھنے سے پہلے ذرا بہت مختصر طور پر علامہ کے کچھ نظریات کی وضاحت بھی سنتے چلیں تا کہ گفتگو کو ختم کرتے ہوئے بات گنجلک ہونے کی بجائے واضع ہو اور ہم سب اس فکری محفل سے کچھ حاصل کر کے اٹھیں .
نہایت ہی مختصر طور پر پہلے ذرا اقبال کے ہاں نظریہئ ملت دیکھتے ہیں
جدید مغربی سےاسی افکار میں وطنیت اور قومیت قریب قریب ہم معنی ہیں ۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصور کو جس بنا پر رد کیا تھا وہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیاد بنی ۔ان کا خیال تھا کہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاً غیر انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ اور بلا وجہ تنازعات کی بناپڑتی ہے۔ اسی نظام کو انہوں نے دنیائے اسلام کے لئے خاص طور پر ایک نہایت مہلک مغربی حربے کی حیثیت سے دیکھا اور جب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کی مدد کی تو انہیں یقین ہوگیا کہ وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کے لئے زہر قاتل سے زیادہ نقصان ثابت ہو رہے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصور کے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کا تصور پیش کیااور یہ ثابت کیا کہ مسلمانان ِ عالم کے لئے بنیادی نظریات اور اعتقادات کی رو سے ایک وسیع تر ملت کا تصور ہی درست ہے۔
اقبال قوم اور ملت کو مترادف الفاظ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مسلمان قوم سے ان کی مراد ہمیشہ ملت اسلامیہ ہوتی ہے۔ وہ خود کہتے ہیں’’جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں ، قران کریم میں مسلمانوں کے لئے ’’امت‘‘ کے سوا کوئی لفظ نہیں آیا۔ ’’قوم‘‘ رجال کی جماعت کا نام ہے۔ یہ جماعت با اعتبار قبیلہ ، نسل، رنگ ،زبان ، وطن اور اخلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے ۔لیکن ’’ملت‘ ‘ سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا’’ملت‘‘ یا ’’امت‘‘ جاذب ہے اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہوتی۔

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ قے کو تعلق نہیں پیما نے سے
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
٭
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اقبال نے ملت اسلامیہ کی جس بے حسی کو محسوس کیا تھا اسمیں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں ہے اور اقبال کے یہ شعر اسی تناظر میں آج ہی کے اشعار ہیں۔
اس دور میں قوموں کی محبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
مکہ نے دیا خاک جینو ا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام ہے جمعیت آدم
مختصر یہ کہ قومیت کے متعلق نظریات کے حوالے سے اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ نسلی ، جغرافیائی ، لسانی حوالے سے اقوام کی تقسیم مغرب کا چھوڑا ہو ا شوشہ ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صر ف مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے۔ اس لئے انہو ں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے نظریہ ملت سے ایک ہونے کا پیغام دیا ۔
اب ایک اور اہم تصور اقبال کا مغربی تہذیب کے بارے میں ہے جس کی توضیح چند سطحی محققین نے اپنے اپنے انداز میں اس طرح کی ہے کہ اقبال کو یہاں بھی متنازعہ بنا دیا ہے حالانکہ اقبال کے ہاںمغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر سو سالوں کے دوران یورپ میں ابھری اور اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اس وقت سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا ۔ یونانی اور لاطینی علوم کے ماہر وہاں سے نکل بھاگے اور مغربی یورپ میں پھیل گئے ۔
یورپ جو اس سے قبل جہالت کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا ان علماکے اثر سے اور ہسپانےہ پر عیسائیوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کے علوم کے باعث ایک نئی قوت سے جاگ اٹھا ۔ یہی زمانہ ہے جب یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں ان کے باعث نہ صرف یورپ کی پسماندگی اور جہالت کا علاج ہوگیا۔ بلکہ یورپی اقوام نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئیں ان کی حریصانہ نظریں ایشیائ اور افریقہ کے ممالک پر تھیں۔ انگلستان ، فرانس ، پر تگال اور ہالینڈ سے پیش قدمی کی اور نت نئے ممالک کو پہلے معاشی اور پھر سےاسی گرفت میں لیتا شروع کر دیااس طرح تھوڑے عرصہ میں ان اقوام نے ایشیائ افریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا ۔
اس رواج کی ابتدایونانی علوم کی لائی ہوئی آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے ہوئی۔ جس نے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ سائنسی ایجادات اور مشینوں کی ترقی نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کا اس نے حتیٰ المقدور گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ وہاں کے عوام کی نظروں کو اپنی چکاچوند سے خیرہ کر دیا اور وہ صدیوں تک اس کے حلقہ اثر سے باہر نہ آسکے ۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے ۔ ترکی ، ایران، مصر ، حجاز ، فلسطین ، مراکش ، تیونس، لیبیا، سوڈان ، عراق ، شام غرض تمام ممالک کو یورپ نے اپنا غلام بنا لیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔
دوسری طرف یہ کہنا کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا کلام اقبال سے سطحی واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے تہذیب ِ مغرب کے صرف انہی پہلو ئوں پر تنقید کی ہے جنہیں وہ مسلم معاشرے کے لئے مضر سمجھتے تھے۔ ورنہ جہاں تک اچھے پہلوئوں کا تعلق ہے اقبال اس سے کبھی منکر نہیں ہوئے۔
اپنے ایک لیکچر میں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی اہمیت جتانے کے بعد کھل کر کہا ہے۔ ’’ میری ان باتوں سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ میں مغربی تہذیب کا مخالف ہوں ۔ اسلامی تاریخ کے ہر مبصر کو لامحالہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارے عقلی و ادراکی گہوارے کو جھلانے کی خدمت مغرب نے ہی انجام دی ہے۔ ‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ وہ صاف صاف کہتے ہیں،
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا ہے ارشاد کہ ہر شب کو سحر کر
اقبال نے مغربی تہذیب کی جو مخالفت کی ہے اس کی وجہ سیاسی ہے ۔اقبال کے زمانے میں ہندوستان میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو مغربی معاشرے کی ہر بات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ قدامت پرستوں کا طبقہ تھا جسے اپنی تہذیب پر فخر تھا چاہے وہ اچھی ہو یا بری ۔
 دوسرا طبقہ اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہوئے مغرب کی تقلید کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتا تھا۔ خصوصاً جو لوگ یورپ سے ہو کر آئے تھے ان کی آنکھیں وہاں کی چکاچوند سے چندھیا جاتی تھیں۔ ہاں ان میں اقبال جیسے لوگ بھی تھے جو مغرب جاکر وہاں سے مرعوب ہو کر نہیں آئے تھے۔ بلکہ اس کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں واضح نقطہ نظر کے حامل ہو کر وطن واپس لوٹے تھے۔
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اُس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پر مرادل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
اقبال کے نزدیک اس تہذیب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مادی ترقی اور کسبِ زر کو زندگی کی معراج سمجھتی ہے انسانی اخلاق اور روحانی اقدار کی ان کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔ چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی۔
یورپ میں بہت ، روشنی ئ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
اقبال کو مغربی تہذیب سے یہی شکایت ہے کہ وہ ظاہری اور خارجی فلاح و بہبود پر نظر رکھتی ہے حالانکہ یہی انسانی افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے یورپ نے عناصر ِ فطرت کوتو تسخیر کر لیا لیکن روحانی نشوو نما اور تطہیرقلب کی طرف توجہ نہ دے سکا۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا۔
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کے فرزندوں نے مظاہر فطرت کو تسخیر کرکے اپنے فائدے کو پیش نظر رکھا لیکن بحیثیت مجموعی انسانیت کے لئے ہلاکت آفرینی کے اسباب پیدا کئے ۔
مغربی ممالک بے پناہ قوت حاصل کرنے کے بعد کمزور ممالک کو اپنی ہوس کا شکار بنانے پر تل گئے مغرب والوں نے کارخانے بنائے جو سرمایہ داروں کے ہاتھ آگئے اور مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی سے محرو م ہوگئے۔
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
٭
مشرق کے خداوند سفیرانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلذات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کےلیئے مرگ مفاجات
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اقبال سائنسی ترقی کے خلاف نہیں وہ خود تسخیر کائنات کے مبلغ ہیں۔یورپی علم و ہنراور اہل فرنگ کی تمدنی زندگی کو بھی اقبال قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں افرنگ کا ہر وہ قریہ فردوس کی مانند نظر آتا ہے۔ اور ان کا جی چاہتا ہے کہ ہمارے شہر بھی اسی طرح جنت نظیر بن جائیں۔
اقبال اہل یورپ کی سود خوری ، میخواری ، عریانی ، بے حیائی اور مادر پدر آزادی کے تو سخت مخالف ہیں لیکن وہاں کی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ اہل یورپ کی محنت کی عادت ، ایفائے عہد، پابندی وقت ، کاروباری دیانت اور اسی قسم کی اخلاقی خوبیوں کے باعث انہیں یورپ کے غیر مسلم اپنے ہاں کے مسلمانوں کی نسبت اسلام کے زیادہ پابند نظر آتے ہیں۔
 یورپ نے زندگی کی جو نعمتیں حاصل کی ہیں ان کے نزدیک وہ انہی اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے کا نتیجہ ہیں اور یہی اسلامی خوبیاں ہیں جو یورپ میں بالعموم پائی جاتی ہیں مگر ہم مسلمان ان سے محروم ہیں۔
اقبال نے مغربی تہذیب اور علوم کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔وہ مغربی معاشرے کی خامیو ں اور خوبیوں سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے مغربی تہذیب کی خامیوں پر نکتہ چینی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مشرقی رہنمائوں کی بھی مذمت کی ہے جو مغرب کی اندھی تقلید کو شعار بنا کر ترقی یافتہ قوموں کے زمرہ میں شامل ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ اس قسم کی جدت اور ترقی کی کوششیں مصر ، ترکی، ایران اور افغانستان میں ہوئیں اور اب اسمیں آپ پاکستان جیسے ممالک کو بھی شامل کر سکتے ہیں جہاں enlightened moderationکا معنی جانے بغیر اسے نام نہاد ترقی کا زینہ سمجھ لیا گیا ہے۔یہاں بھی حاکمِ وقت اسی مصطفی کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے جس نے نے ترکی میں خلافت کو ختم کر دیا۔ فقہی امور میں قران کو بالائے طاق رکھ دیا ۔ علمائ کو یہ تیغ کرا دیا۔ عربی رسم الخط ترک کر کے لاطینی رسم الخط اختیا ر کر لیا اور بذعم خود اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنا دیا۔
 امیر امان اللہ خان نے افغانستان اور رضاشاہ پہلوی نے ایران کو بھی اسی طرح جدید طرز کا ملک بنا نا چاہا۔ ان سب رہنمائوں نے ظاہری امور کو کافی سمجھا اور یہ کوشش نہ کی کہ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کی اچھائیوں کی اساس پر ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھے۔ اقبال نے اسی رویہ کی مذمت کی ہے۔
نہ مصطفےٰ نہ رضا شاہ میں ہے اس کی نمود
کہ روح ِشرق بد ن کی تلاش میں ہے ابھی
مختصر یہ کہ جس تہذیب ِاسلامی کے اقبال آرزو مند ہیں اس تہذیب کے عناصر میں اخوت ، مساوات، جمہوریت ، آزادی ، انصاف پسندی ، علم دوستی ، احترام انسانی، شائستگی ، روحانی بلندی اور اخلاقی پاکیزگی شامل ہیں۔
اور اب آخر میں اقبال کا نظریہ تعلیم کہ جسے اقبال نے کُلی طور پر انسانی ترقی کا زینہ قرار دےا۔
علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات یا فلسفہ تعلیم کے متعلق کتب و مقالات کی شکل میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے کہیں زیادہ تعلیم کے عام مفہوم کوسامنے رکھاگیا ہے۔
یہاں ایک بات ذہن میں رہے کہ اقبال نہ تو فن ِ تعلیم کے ماہر تھے نہ انہوں نے اس فن کی تحصیل کی تھی، نہ اس موضوع پر انہوں نے کوئی کتاب لکھی بجز اس کے کہ کچھ مدت تک بحیثیت پروفیسر کالج میں درس دیتے رہے کوئی مستقل تعلیمی فلسفہ انہوں نے نہیں پیش کیا۔ ‘‘
با ایں ہمہ ، اقبال کے تعلیمی افکا ر سے کلیتاً صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ انہوں نے تعلیم کی فنی اور عملی صورتوں پر غور کیا ہے مسائل تعلیم کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ اپنے فلسفہ حیات میں مناسب جگہ دی ہے۔ تعلیم کے عام معنی و اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے ڈھانچے اغراض اور معیار کو موضوع گفتگو بنایا ہے اور اپنے عہد کے نظام ِ تعلیم پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ مدرسہ ، طلبہ ، اساتذہ اور نصاب ، سب پر اظہار خیال کیا ہے۔
 صرف مشرق نہیں ، مغرب کے فلسفہ تعلیم اور نظام ِ کار کو بھی سامنے رکھا ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کیا ہے ان کے درمیان حد ِ فاصل کھینچی ہے۔ خرابیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ زندگی کو کامیاب طریقے سے برتنے اور اس کی مزاحمتوں پر قابو پالینے کے لئے کس قسم کی تعلیم اور نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔
اقبال کے زمانے میں دو نظام تعلیم ملک میں پہلو بہ پہلو رائج تھے ایک تو قدیم دینی نظام ِ تعلیم تھا جو مذہبی مدارس میں رائج تھااور صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چلا آرہا تھا۔ دوسرا نظام حکمران انگریز قوم کا رائج کردہ تھا جو لارڈ میکالے کے فکر کی پیداوار تھا جس کا مقصد نوجوانوں کی ایسی نسل تیار کرنا تھا جو ذہناً اپنے ملک و قوم کے بجائے حکمران قوم سے وابستہ ہو۔
قدیم دینی مدارس کی جامد ، بے روح اور زمانے کے تقاضوں سے نا آشنا تعلیم کے ساتھ اقبال جدید انگریز ی تعلیم سے بھی ایک رُخ سے نالاں تھے اور وہ یہ تھا۔۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
یا پھر
اور یہ  اہل ِ کلیسا کا نظام ِ  تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اقبال رسمی اور جامد تعلیم کی طرح مغربی تعلیم کے اس پہلو سے بھی اختلاف کرتے ہیں جس میں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ان سے ان کا نصب العین چھین لیتی ہے اور ا انہیں توحید کے نظریہ سے دور لے جاتی ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
٭
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
٭
ترے صوفے ہیں افرنگی ، ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
٭
یہ بتانِ عصر ِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراش  آزرانہ
٭
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لئے علم و ہنر موت
اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کے لئے ایک ایسے نظامِ تعلیم کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کی خودی کی تربیت کر سکے۔اقبال کا فلسفہ تعلیم ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
٭
خودی ہو علم سے محکم تو غیر ت ِجبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صور ِاسرافیل
علامہ اقبال نے خواجہ غلام حسین کے نام اپنے ایک ’’خط‘‘ میں اس بات کی وضاحت یوں کی ہے۔
’’ علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہے ۔عام طورپر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے ۔ ‘‘
اقبال کے نزدیک دینی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر دنیاوی تعلیم ، اور پھر دونوں کے درمیان گہرا ربط اور تعلق بھی لازمی ہے ۔محض دینی یا صرف دنیاوی تعلیم اپنی جگہ کافی نہیں ، اور نہ انہیں علیحدہ رکھ کر بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اقبال کے نزدیک دین اور سائنس دو الگ الگ مضمون نہیں بلکہ ایک ہی مضمون کے دو حصے ہیں کیونکہ قران نے بار بار مسلمانوں کو مطالعہ کائنات اور تسخیر فطرت کی دعوت دی ہے۔ اقبال کے خیا ل میںدینی علوم ۔۔، خدا، کائنات اور انسان تینوں کے مجموعی تشخص پر مشتمل ہیں اور انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا ۔
اسی تصور کے زیر اثر اقبال نے ایک ایسے نظام ِ تعلیم کاخاکہ پیش کیا ہے جس میں دین، سائنس اور حکمت کو ایک واحد مضمون کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔
ااقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا ، کائنات ، اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔
جوانوں کو  مری آہ ِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
٭
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا
علامہ اقبال کی ہمہ جہت شخصیت ایسا موضوع ہے جس پر کتنے برسوں سے لکھا اور بولا جا رہا ہے لہٰذا اس ایک محفل میں اور محدود وقت میں یہ سوچنا کہ ہم اقبال کی زندگی کے کسی ایک رُخ سے بھی انصاف کر پائیں گے میرے خیال میں خام خیالی ہے تا ہم میں نے اپنی سوچ،سمجھ،علم اور اوقات کے مطابق اپنے تئےں پوری کوشش کی ہے کہ اس گوہرِ نایاب کی زندگی کے فکرافروز پہلوؤں کا مختصراحاطہ کر سکوں۔
اس ساری گفتگو کو آخر میں سمیٹتے ہوئے عرض کرؤں کہ علامہ اقبال نے اپنے ابتدائی کلام سے لے کر اپنے آخری ایام زندگی تک جس بات پر سب سے زور دیا ہے ان میں تین نکات بڑے اہم ہیں ۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان سے اقبال کی امیدیں ۔ دوئم ۔ تعلیم اور " علم " کا حصول اور سوئم ،مسلمان امت کے لیے " اجتہاد "
اب اگر بغور دیکھا جائے تو اقبال نوجوانوں سے جو امیدیں رکھتے ہیں ان کے لیے نوجوانوں میں تعلیم کا ہونا لازمی عنصر ہے اور تعلیم محض بی اے ' ایم اے' کر لینے یا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لینا نہیں بلکہ اس سے اقبال کی مراد "علم " ہے اور علم ہی آدمی کو انسان بناتا ہے ۔
 اقبال کا نوجوان اپنے ہاںکم ازکم مجھے تو نظر نہیں آتا۔ ذرا سوچیئے کتنے مسلمان نوجوان ہیں جو "آسمان کو تسخیر کرنے کی جستجو میں ہیں ؟ " حالانکہ اقبال توصاف کہہ چکے ہیں کہ " تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں !" اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو اقبال کی خواہشوں اور امیدوں کو جن نوجوان نے پورا کیا ہے وہ غالب اکثریت میںاقوام مغرب سے ہیں ۔ حالانکہ اقبال اپنے نوجوانوں کو بار بار درس دیتے اور تلقین کرتے ہیں کہ :
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
سنتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
اب "ہنر" حاصل کرنے کی بات اور "شیشے کو خارا" بنانے کی تلقین اقبال کی نظر میں کچھ بھی ہو دور حاضر میں اسے ایٹمی یعنی جوہری توانائی و قوت ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی کہ یورینیم ہی کو "خارا " یعنی اسے " افزودہ " کرنے کا" ہنر" پانا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ یہ ہنر جن اقوام کے پاس ہے وہی قومیں آج نہ صرف ترقی و خوشحا لی میں پیش پیش ہیں بلکہ وہ دنیا پر اپنی دھونس جمانے کی بھی قوت رکھتی ہیں اور ایسا کر بھی رہی ہیں ۔ لیکن ہم پدرم سلطان بود کی تسبیح پڑھ رہے ہیںاور اس پر غور نہیں کرتے کہ خود ہم نے کیا تیر مارا ہے ' کونسی شے ہم نے خود ایجاد کی ہے اور" کس ہنر میں یکتا ہیں؟" ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہم نے تعلیم اور خاص کر علم کے دروازے اپنے آپ پر بند کر رکھے ہیں ۔ آج بھی مسلم دنیا میں تعلیم کا تناسب دیکھ لیجئے تو آئینہ نظر آ جائے گا۔ کتنے ہی مسلم ملک ایسے ہیں جہاں عورت کو تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے۔ اقبال تو نوجوان کو یوں دیکھتے ہیں۔ :
انقلابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اب انقلابی روح پیدا کرنے کے لیے ہمیں "جوش " کی نہیں " ہوش " کی ضرورت ہے ۔ جوش تو ہمیں " عقل و خرد "
سے بیگانہ کر دیتا ہے اور ہوش ہمیں "علم و عمل" کی دعوت دیتا ہے ۔
لیکن آج ہم کیا دیکھتے ہیں ہمارے نوجوان "علم " کے حصول سے تو راہ فرار اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور زیست کی نام نہاد آسائشوں کے لیے سب کچھ کر گذرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن علم کی راہ سے بھاگتے ہیں ۔ آج ہمارے نوجوانوں کو طرح طرح کے ایسے مسائل ذہنی و روحانی اور مسلکی مسائل سے دوچار کردیا گیا ہے کہ وہ اقوام ِ
 عالم میں بحیثیت مسلمان اپنا تشخص ہی کھو رہے ہیں اور"دہشتگردی" ان کی شناخت بن کر رہ گئی ہے ۔۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہم نے قرآن کا نعرہ تو لگایا لیکن اپنی عملی زندگیوں میں اسے اپنایا نہیں اور اس جرم میں عام آدمی کے ساتھ ہمارا عالمِ دین اور مولوی بھی ہے جس نے نوجوانوں کے لیئے کوئی ذاتی مثال قائم نہیں کی۔
آج ہم کئی لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ یورپ میں ہمیں علم کے حصول میں وہ سہولتیں فراوانی سے حاصل ہیں جو ہمیں بد قسمتی سے اپنے ممالک میں بھی حاصل نہیں ہیں " ہمارے نوجوانوں کو ان سہولتوں سے استفادہ کرنا چاہیے اور خود کو " علم کے زیور " سے آراستہ کرنا چاہیے ۔ دراصل خود کو زیور علم سے آراستہ کرنے کا مطلب خود کو " مسلح " کرنا ہے اور یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر ہمارے نوجوان نہ صرف اقبال کے خواب کو شرمندہ ئ تعبیر کرسکتے ہیں بلکہ " تسخیر کائینات " کا عمل بھی پورا کرسکتے ہیں ۔
مغرب تو ابھی اسلام کی جہاد کی روح سے ہی واقف نہیں ہے۔ وہ اسلام میں تلوار کے جہاد سے ہی خوفزدہ ہے اور ایسے میں بھی خود مسلمانوں کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا رہا ہے کہ وہ خود یہ نہیں جانتے کہ جہاد کی تما م تر اقسام میں جہاد بالسیف سب سے کم درجے کا جہاد ہے جبکہ اعلیٰ ترین جہاد دراصل جہاد بالنفس اور جہاد بالقلم ہے اورجہاد بالقلم کی بنیاد حصولِ علم میں مضمر ہے۔
شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
وہ لزتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ جو مجھ میں ہے وہ طوفان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد
آیاتِ الہی کا نگہبان کدھر جائے
میں آخر میں آپ کے اس صبر کو سراہتے ہوئے آپکی خوبصورت سماعتوں کی سلامتی کی دعا کرتا ہوں اور ایک بار پھراقبال اکیڈمی سکینڈے نیوین کے روحِ رواں جناب سید غلام صابر اور عزیزم عابد علی عابد اور انکی تنظیم کے تمام ارکان کاممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اقبال جیسے بطلِ جلیل کی زندگی اور نظریات پرآپ سے گفتگو کا موقع دیا۔ آیئے خالقِ لوح و قلم سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عمل کی توفیق عطا کرے اور ہم ایک دوسرے کے لیئے آسانیاں پیدا کرنے والے بنیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
والسلام خیر الختام

0 comments:

Post a Comment