Wednesday, November 27, 2013

علامہ محمد اقبال ؒ اور خودی


حضرت واصف علی واصف ؒ کی ایک نایاب غیر مطبوعہ تحریر

یکے اَزنوادرات ِ واصفؒ یہ تحریر ہمیں محترم پروفیسرشوکت محمود ملک ( برادرِ اصغرحضرت واصف علی واصفؒ) کی وساطت سے موصول ہوئی۔ اِس کیلئے اِدارہ ملک صاحب کیلئے سراپا مرقع ِسپاس ہے۔
حضرت واصف علی واصف ؒ نے یہ مقالہ حضرت علّامہ محمد اقبالؒ کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ۱۹۷۷ء میں گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤ ن راولپنڈی میں منعقد ایک تقریب میںپیش کیا۔” قلندر راقلندر می شناسد” کے مصداق یہ تحریرجہاں جہانِ اقبالؒ سے محرم ِ راز کی حد تک شناسائی کا ایک اعلان ہے ‘ وہاں مقالہ نگارکے اپنے تبحرِ معرفت کی ایک دستاویز بھی ہے ۔ اقبال ؒ اور خودی کے متعلق یہ تحریر آپ ؒ کے اپنے ہی قول کہ الہامی کلام کی تفسیر صاحبِ الہام ہی کرسکتاہے’ کی ایک معتبر تفسیر ہے۔ اس کلام سے اندازہ ہوتاہے کہ راز ہائے خودی آشکار کرنے والاخودی کی خلوتوں میں شوقِ تماشااورذوقِ تمنا کا خود ایک شاہکار تھا … خودی کی جلوتوں میںمصطفائی فیضِ کرم سے آج حریمِ لامکاں کا رازداں” دگر دانائے راز آید”کی ایک عملی تصویر بنا ہواہے ۔خرد اور جنوں کی سرحد پر کھڑا ایک صاحب ِ حال اس تحریر میں دراصل اپناحال بیان کررہاہے۔ روحِ اقبال ؒاپنے فکری جوہر کے اِس طرزِ پذیرائی پرعالمِ سرود و سرمستی میں ایک بار جھوم اُٹھی ہوگی۔ ۱؎ ( مدیر)
جنابِ صدر،معزز سامعین،خواتین و حضرات!…السلام علیکم
میرا آج کا موضوع ہے ”اقبالـؒ اور خودی”
پیر رومیؒ کی قیادت میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی عظیم دولت سے مالا مال ہو کر اقبالؒ جب عرفانِ ذات کے سفر پر روانہ ہوا تو اُس پر وسیع و جمیل کائنات کے راز کچھ اس طرح منکشف ہونا شروع ہوئے’جیسے عجائبات کا دبستاں کھل گیا ہو۔اُس کا ذوقِ جمال اُسے سرُور و وجدان کی منزلیں طے کراتا ہوا بارگاہِ حُسنِ مطلق تک لے آیا۔کائنات اُسے مرقعِ جمال نظر آئی۔اُس نے دیکھا ‘غور سے دیکھا اور دیکھ کر محسوس کیا کہ موتی، قطرہ، شبنم، آنسو، ستارے’سب ایک ہی جلوے کے رُوپ ہیں۔ اُسے قطرہ، دریا، بادل، جھیلیں، سمندر ایک ہی وحدت میں نظر آئے۔اُسے ذرّے میں صحرا اور قطرے میں دریا نظر آیا۔ اُس نے فرد اور معاشرے کی وحدت دیکھی’ بِھیڑمیں تنہائی دیکھی اور تنہائی میں ہجوم نظر آیا۔
اقبالؒ کو یہ کائنات ایک عظیم دھڑکتے ہوئے دل کی طرح محسوس ہوئی۔اُس کے اپنے دل کی دھڑکن ‘کائنات کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو گئی۔اُس نے جلوۂ جاناں کو ہر رنگ میں آشکار دیکھا۔اقبالؒ کو عشق نے اُس مقام تک پہنچا دیا ‘جہاں انسان کو غیر از جمالِ یار کچھ نظر نہیں آتا۔اُس مقام پر انسان کہہ اٹھتاہے:

؎اب نہ کہیں نگاہ ہے ‘اب نہ کوئی نگاہ میں
محو کھڑا ہوا ہوں میں’ حُسن کی جلوہ گاہ میں

اس منزلِ دیدارِ حُسن پر پہنچ کر انسان یہ بیان نہیں کر سکتا کہ یہ کیا مقام ہے؟ صاحبِ منزل خود آئینہ ہوتا ہے’خود رُوبرو’خود نظر اورخود ہی محوِ نظارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن اقبالؒ اس مقام پر ٹھہرا نہیں۔اُس نے جلوۂ حُسنِ کائنات سے معنیٔ کائنات کی طرف قدم بڑھایا۔اُسے حُسنِ فطرت نے ایک عظیم پیام عطا کیا۔اقبالؒ نے غور کیا کہ یہ کائنات کیا ہے’انسان کیا ہے’حُسن کیا ہے’عشق کیا ہے’زندگی کیا ہے’موت کیا ہے’مابعد موت کیا ہے’عمل کا مفہوم کیا ہے’عقل کیا چیز ہے’حیرت کیا ہے اور جلوہ کیا ہے’رموز کیا ہیں’ظاہر کیا ہے’باطن کیا ہے’سوز و مستی کیا ہے’سرُورِ جاوداں کیا ہے’رحیلِ کارواں کیا ہے”لا” کیا ہے”’اِلٰہ” کیا ہے’غرضیکہ یہ سب کچھ کیا ہے’کیوں ہے’کب سے ہے’کب تک ہے۔ نور و ظلمات کیاہیں۔غیاب و حضور کیا ہیں؟اسی تلاش و تجسس کے دوران اقبالؒ کو اپنے فکر کی عمیق گہرائیوں میں آخر ایک روشن نقطہ دکھائی دیا۔اور اس نقطے نے نُکتہ کھول دیا’ عقدہ کشائی کر دی’اقبالؒ کو اشیا ء و اعمال کی پہچان عطا ہوئی۔یہ نقطہ اُسے حقیقت آشنا کر گیا۔اُسے کائنات کی علامتیں نظر آئیں،شاہیں کا مفہوم سمجھ آیا،کرگس کے معنی سمجھ آئے’ صحبتِ زاغ کی خرابی سمجھ آئی۔اِسی روشن نقطے نے اسے اشیاء کے باطن سے تعارف کرایا’ رموزِ مرگ و حیات عطا کئے۔اُس نے گردشِ شام و سحر کا مقصد اِسی نقطے کی روشنی میں دریافت کیا۔یہ نقطہ پھیلتا تو کائنات بن جاتا اور سمٹتا تو آنکھ کا تِل بلکہ اقبالؒ کا دل بن جاتا۔ اسی روشن نقطے کو اقبال ؒ نے خودی کہا ہے۔

؎نقطۂ نوری کہ نام او خودی است
زیرِ خاک ما شرارِ زندگی است

چونکہ یہ روشن نقطہ ہر چیز بھی ہے،ہر شے سے الگ بھی ہے’اس لئے اس کی تعریف مشکل ہے۔خودی کیا ہے’ہر شے کی اصل ہے۔یہ Identityہے یعنی اس شے کی بنیادی فطری قدر’جس سے اس شے کا قیام ممکن ہے اور جس کے بغیر وہ شے قائم نہیں رہ سکتی۔یہ انفرادیت ہے جو اس شے کو دوسری اشیاء سے علیحدہ کرتی ہے،ممتاز کرتی ہے، Discriminate کرتی ہے۔یہ وہ تشخص ہے جس سے اس ذات کی بقا ممکن ہے۔ یہی وہ راز ہے جو کسی شے کے زندہ رہنے کا واحد جواز ہے۔اگر یہ نہ ہو تو وہ بھی نہیں۔ درحقیقت خودی ہر قابلِ ذکر وجود کے باطن کی نورانی کلید ہے۔خودی جذبۂ اظہارِ حُسنِ باطن ہے۔

؎وجود کیا ہے فقط جوہرِ نمودِ خودی
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

خودی جوہرِ ذاتی ہے۔اگر یہ نہ ہو تو کسی ذات کے ہونے اور نہ ہونے کا فرق مٹ جائے۔ خودی ہر وجود میں موجود ہے اور اس کا اپنا علیحدہ وجود نہیں۔زندگی کی طرح جو’ ہر ذی جان میں ہے اور خود میں نہیں۔حُسن کی طرح جو’ ہر حسین میں ہے اور اُس کا اپنا الگ ٹھوس،قابلِ محسوس وجود نہیں۔اس لئے خودی کو ایک علیحدہ مضمون کے طور پر سمجھنا ممکن ہی نہیں۔خودی کے بیان میں Paradoxکا ہونا فطری ہے اور خودی کا Paradoxیا تضاد’تضاد نہیں۔کیونکہ خودی فرد بھی ہے اور معاشرہ بھی’خودی تلوار بھی ہے اور تلوار کی دھار بھی’خودی مستی ٔ لا یحزنون بھی اور سوزِ دروں بھی’خودی ضبطِ نفس کا سرمایہ بھی ہے اور اطاعت کی عظیم دولت بھی’خودی تقدیر بھی ہے اور کاتبِ تقدیر بھی’خودی نیابت ِ الہٰی کا مقام بھی ہے اور اپنی انفرادیت بھی’یہ جلوت بھی اور خلوت بھی’خودی موجِ آبِ رواں بھی اور ضبطِ فغاں بھی’خودی قریبِ رگِ جاں بھی ہے اور دُوریٔ شبِ ہجراں بھی،خودی راز بھی ہے اور محرمِ راز بھی’ناز بھی ہے نیاز بھی بلکہ بے نیاز بھی۔

اقبالؒ نے خودی کو اتنی وسعت عطا کر دی ہے کہ اس کو کسی ایک حوالے سے سمجھنا مشکل ہے۔قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے کیا جا رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اقبالؒ بہر حال اقبالؒ ہے۔وہ فقیر ہے،عارفِ حق ہے،مفکرِ فِکرصالح ہے، ملّتِ اسلامیہ کا ایک غیور فرزند،پیرِ رومیؒ کا مریدِ با وقار ہے۔ فلسفۂ شرق وغرب سے آشنا ہونے والا اقبالؒ خودی کے تصور سے جو پیغام دے رہا ہے وہ ایک عظیم پیغام ہے۔ اقبالؒ خودی کے بحرِ بے پایاں سے افکار کے گوہرِ تابدار نکالتا ہے اور قاری کے دل و دماغ کو دولتِ لا زوال سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اقبالؒ کی خودی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان صاحبِ ادراک ہو،صاحبِ نظر ہو۔اقبالؒ نے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ

نظر نہ ہو تو مرے حلقۂ سُخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال ِ تیغ ِاصیل

اقبالؒ کا تصورِ خودی عارفوں کے لئے ہے،اہلِ نظر کے لئے ہے،شب بیداروں کے لئے ہے،آہِ سحر گاہی سے آشنا روحوں کے لئے ہے،دل والوں کے لئے ہے،عشق والوں کے لئے ہے۔ یہ وہ علم ہے جو اہلِ علم کے لئے نہیں بلکہ اہلِ نظر کے لئے ہے۔اقبالؒ کہتا ہے کہ

؎ اقبالؒ یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات

خودی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ان عنوانات کو دیکھیں جن کے ماتحت اقبالؒ نے خودی کو بیان کیا۔مثلاً کائنات کی خودی …اسلام کی خودی…ملّتِ اسلامیہ کی خودی … عشق و عزم کی خودی…عمل کی خودی…فقر کی خودی…آزادی و حریت کی خودی، رفتار ِ زمانہ کی خودی اور سب سے اہم خودی’خود آگہی کی خودی۔
وقت اجازت نہیں دیتا کہ ہم ان عنوانات کا خودی کے حوالے سے مکمل جائزہ لیں’ بہر حال ایک طائرانہ نظر ہی سہی۔ کائنات خودی کی عظیم جلوہ گاہ ہے۔ اس کی بیداری اور پائیداری خودی کے دم سے ہے۔

؎ خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیداریٔ کائنات

یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

آسماں میں راہ کرتی ہے خودی
صید مہر و ماہ کرتی ہے خودی

اقبالؒ کا مقصد یہ ہے کہ خودی کائنات کے جلووں میں جلوہ گر ہے۔جو انسان کائنات کے جلووں سے لطف اندوز نہیں ہوتا وہ ان جلووں میں خودی کی کارفرمانی کیسے دیکھ سکتا ہے؟ اقبال کہتا ہے کہ

؎ خودی جلوۂ سرمست خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند

اَزل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے

سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے

یہ کائنات ہے جو ہمیشہ سے آ رہی ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی۔اس کی خودی گردش و استحکام میں ہے۔

اب آئیے اسلام کے آئینے میں خودی کی جلوہ گری دیکھیں۔اقبالؒ کے نزدیک اسلام ہی محافظِ خودی ہے اور خودی محافظِ مسلماں ہے۔ اقبالؒ  اسلام کو بقائے عالم کا ذریعہ سمجھتا ہے

؎یہ ذکرِ نیم شبی یہ مراقبے یہ سرُور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

اقبال بآوازِ بلند کہتا ہے کہ

؎خودی کا سِرِ نہاں لا الہ اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ اللہ

؎خودی سے اِس طلسمِ رنگ و بُو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا

؎حکیمی نا مسلمانی خودی کی کلیمی رمز پنہانی خودی کی

اقبالؒ خودی کو غلامی سے نجات کاذریعہ سمجھتا ہے۔خودی کے دم سے مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ حاصل ہو سکتی ہے۔اقبالؒ کے ہاں خودی King Makerبلکہ Kingdom Makerہے۔

؎ تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی

؎یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

؎خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سنجرو طغرل سے کم شکوہ فقیر

آئیے اب سب سے آخر ی لیکن سب سے اہم عنوان’خودی اور خود آگہی کی طرف۔ اقبالؒ اپنے قاری کو دعوتِ خود شناسی دیتا ہے۔اس کا پیغام یہی ہے کہ

؎ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

اپنی پہچان سے ہی اللہ کی پہچان کی طرف قدم اٹھ سکتے ہیں۔اقبالؒ خودی کو ہی پہچان کا ذریعہ مانتا ہے۔اقبالؒ انسان کو پیغام دیتا ہے کہ وہ خود رازِ فطرت ہے۔انسان ہی مقصد و مدعائے تخلیق ہے۔انسان کو اپنا مقام پہچاننا چاہیے۔انسان بالعموم اور مسلمان بالخصوص شاہکارِ فطرت اور اس کا تشخص خودی کے دم سے ہے

جو رہی خودی تو شاہی ‘نہ رہی تو روسیاہی

اسی طرح جو قوم محرومِ خودی ہو اس سے اقبالؒ یوں مخاطب ہے:

؎ اس کی تقدیر ہی محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

اقبالؒ معاشی اور سیاسی غلامی میں گرے ہوئے انسان کو بلندیوں کی طرف پکارتا ہے۔وہ اسے مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشن راہوں پر گامزن کرنا چاہتا ہے۔

؎تو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا

؎تُو اپنی خودی کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر

؎ غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تُو بھی ہے آستانہ

مسلمانوں کو ان کی خودی سے آشنا کر کے اقبالؒ ان کو پیغام دیتا ہے کہ

؎ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی

؎ خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

اقبالؒ کے ہاں خودی کی بلندی ہی مقصدِ حیات ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا ارادہ تقدیر بن جاتا ہے

؎خودی شہرِ مولا ‘ جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید ‘ آسماں اس کا صید

اقبالؒ خودی کی نگہبانی کا درس دیتا ہے۔خودداری کا پیغام دیتا ہے۔اقبالؒ کی خودی’ زندگی ہے،حیاتِ جاوداں ہے۔یہ ملّتِ اسلامیہ کے لئے ایک عظیم ذریعۂ حصول ِ قوت ہے۔ خدا ہمیں خودی کے اس بلند مقام سے آگاہ فرمائے جہاں :

خدا بندے سے خود پوچھے’بتا تیری رضا کیا ہے
۱؎ حضرت علامہ محمداقبالؒ اپنے ایک خط ‘ بنام مہاراجہ کشن پرشاد (۱۴ ۔ا پریل ۱۹۱۴ئ) لکھتے ہیں :
”یہ مثنوی جس کا نام ”’اسرارِ خودی” ہے ‘ ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی و بے خودی کی طرف ہے، مگر قسم ہے اس خدائے واحد کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان و مال و آبرو ہے’ میں نے یہ مثنوی اَز خود نہیں لکھی’ بلکہ مجھ کواِس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے ، اور میں حیران ہوںکہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کیلئے کیوں انتخاب کیا گیا۔ جب تک اس کا دوسراحصہ ختم نہ ہو لے گا ‘ میری روح کو چین نہ آئے گا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی اصل مقصد ہی یہی ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی ‘ کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانے کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزاء و اسباب کو اپنے شکار ( خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنا دیتاہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے تباہ وبرباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتاہے… یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبالؒ نے بویا ہے ‘ اُگے گا ‘ ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بارآور ہوگا۔ مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے ، الحمد للہ ”
(بحوالہ ”مکاتیبِ ِ برنی”)

0 comments:

Post a Comment